السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عام لوگ جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کا آنا ہمارے لیے باعث برکت ہے، یا یہ کہہ دیتے ہیں کہ برکت ہمارے پاس آگئی ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عام لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آپ کا آنا ہمارے لیے باعث برکت ہے، تو اس سے ان کا یہ ارادہ نہیں ہوتا جو اللہ تعالیٰ کے حوالے سے برکت کا لفظ استعمال کرنے میں ہے بلکہ ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ آپ کے آنے کی وجہ سے ہمیں برکت حاصل ہوگئی ۔ انسان کی طرف بھی برکت کی نسبت صحیح ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ہار کے گم ہو جانے کے موقع پر جب تیمم کی آیت نازل ہوئی، تو حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:
«مَا ِهیَ بِاَوَّلِ بَرَکَتِکُمْ يَا آلَ اَبِیْ بَکْرٍ»(صحیح البخاري، التیمم، باب: ۱، ح:۳۳۴ وصحیح مسلم، الحیض، باب التیمم، ح:۳۶۷)
’’اے آل ابی بکر! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔‘‘
طلب برکت دو باتوں سے خالی نہیں ہے:
(۱) طلب برکت کسی معلوم شرعی امر، مثلاً: قرآن کریم کے ساتھ ہو کیونکہ قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَهـذا كِتـبٌ أَنزَلنـهُ مُبارَكٌ...﴿٩٢﴾... سورة الأنعام
’’اور یہ کتاب (قرآن مجید) جسے ہم نے نازل کیا ہے بابرکت ہے۔‘‘
اور اس کی برکت یہ ہے کہ جو شخص اس کتاب کو لے لے اور اس کے ساتھ جہاد کرے تو اسے فتح حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی برکت سے بہت سی امتوں کو شرک سے نجات بخشی اور اس کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، اس سے انسان کی کوشش اور وقت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
۲۔ طلب برکت کسی معلوم حسی امر کے ساتھ ہو، مثلاً: علم یعنی فلاں انسان کے علم اور اس کی دعوت خیر کے ذریعہ برکت حاصل کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ’’اے آل ابی بکر! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کے ہاتھوں ایسے امور خیر کو جاری فرما دیتا ہے جو دوسروں کے ہاتھوں جاری نہیں ہوتے۔
برکت کی کچھ موہوم اور باطل صورتیں بھی ہیں جیسا کہ دجال (اور جھوٹے) قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں میت، جسے وہ ولی سمجھتے ہیں، نے تم پر اپنی برکت نازل کی ہے، تو یہ باطل برکت ہے جس کا کوئی اثر نہیں۔ اس طرح کے کام میں شیطان کا اثر ہو سکتا ہے اور اس کے حسی آثار بھی ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس شیخ کی طرف سے شیطان خدمت سر انجام دے سکتا ہے اور اس طرح یہ بہت بڑا فتنہ بن کر رونما ہو سکتا ہے۔ رہی اس بات کی پہچان کہ کیا یہ برکت باطل ہے یا صحیح، یہ اس شخص کے حال سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اگر اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اولیائ، متقی اور پرہیزگار، سنت کے متبع اور بدعت سے اجتناب کرنے والوں میں سے ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں سے ایسی خیر و برکت کو ظاہر کر سکتا ہے جو دوسروں کے ہاتھوں جاری نہیں ہو سکتی اور اگر وہ شخص کتاب وسنت کے مخالف ہو یا باطل کی طرف دعوت دیتا ہو تو اس کی برکت موہوم ہوگی اور اس باطل کام میں شیطان بھی اس کی مدد کر سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب