سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) کیا یہ درست ہے کہ میڈیکل کے زریعہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ رحم میں کیا ہے؟

  • 8330
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1385

سوال

(71) کیا یہ درست ہے کہ میڈیکل کے زریعہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ رحم میں کیا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجلہ''العربی''کے شمارہ 205 صفحہ 15 مجریہ دسمبر 1975ء میں ایک سوال جواب کے نتیجے میں یہ لکھا ہے کہ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ انسان کو معلوم ہوسکتا ہے۔ کہ جنین نر ہے یا مادہ ؟سوال یہ ہے  کہ اس سلسلے میں دین اسلام کا مؤقف کیا ہے۔؟کیا اللہ تعالیٰ ٰ کے سوا اور کسی کو غیب کا علم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے اس بات کو جان لیجئے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ٰ ہی رحم میں حمل کو جس طرح چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور اسے اپنی مرضی ومشیت سے نر یا مادہ کامل یا ناقص  بنادیتا ہے۔اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ ٰ کے سوا کسی اور کا قطعا کوئی تصرف اور اختیار نہیں ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

﴿هُوَ الَّذى يُصَوِّرُ‌كُم فِى الأَر‌حامِ كَيفَ يَشاءُ لا إِلـهَ إِلّا هُوَ العَزيزُ الحَكيمُ ﴿٦﴾... سورة آل عمران

''وہی(اللہ) تو ہے جو (ماں کے) پیٹ میں جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں۔''

نیز فرمایا

﴿لِلَّهِ مُلكُ السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ يَخلُقُ ما يَشاءُ يَهَبُ لِمَن يَشاءُ إِنـثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشاءُ الذُّكورَ‌ ﴿٤٩ أَو يُزَوِّجُهُم ذُكر‌انًا وَإِنـثًا وَيَجعَلُ مَن يَشاءُ عَقيمًا إِنَّهُ عَليمٌ قَديرٌ‌ ﴿٥٠﴾... سورة الشورىٰ

''(تمام ) بادشاہت اللہ ہی کی ہے۔آسمانوں کی بھی اور زمین کی بھی وہ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے یا ان کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں عنایت فرماتا ہے۔اور جو چاہتا ہے بےاولاد(بانجھ) رکھتا ہے۔یقینا وہی جاننے والا (اور ) قدرت والا ہے۔''

ان آیات میں اللہ   سبحانہ وتعالیٰ ٰ نے یہ بیان  فرمایا ہے۔کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کی ہے۔وہ جو چاہتا ہے۔ پید ا فرماتا ہے۔ اور جس طرح وہ چاہتا ہے حمل کو رحم میں نر یا مادہ کی صورت میں پیدا فرماتا ہے اور جس طرح وہ چاہتا ہے اسے ناقص یا مکمل اور خوبصورت یا بدصورت پیدا فرماتا ہے۔اس میں صرف اور صرف اسی کا تصرف واختیار ہے اس کے سوا اس میں کسی اور کی کوئی شراکت نہیں ہے۔لہذا یہ دعویٰ کرنا شوہر یا ڈاکٹر یا کوئی  فلسفی وحکیم جنیں کی جنس کو متعین کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔شوہر زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ عورت ک بچے پیدا کرنے کی عمر میں اس سے مباشرت کرکے حمل قرار پاجانے کی امید رکھتا ہے کبھی اللہ تعالیٰ ٰ کی مرضی ومشیت کےمطابق اس کی یہ امید بر آتی ہے اور کبھی یہ امید پوری نہیں ہوتی امید کے  پورا نہ ہونے کے بھی کئی اسباب ہوتے ہیں۔جن میں سے رحم  میں خرابی یا بانجھ پن یا اللہ تعالیٰ ٰ کی طرف سے بندے کی آزمائش حمل قرار نہ پانے کے چند اہم اسباب  ہیں لیکن اسباب بھی بذات خود مؤثر نہیں ہوتے بلکہ یہ بھی اللہ کی مرضی ومشیت سے موثر بنتے ہیں۔حمل قرار پانا ایک کونی امر ہے بندے کا اختیار صرف جنسی عمل ہے باقی اس کے نتیجہ میں حمل قرار پانا یا نا پانا اور حمل قرار  پاجانے کی صورت میں اس کی تصریف وتکیف اور تسخیر وتدبیر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔جوشخص بھی اس ضمن میں لوگوں کے حالات اقوال اور اعمال پر غور کرے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ ان دعووں میں مبالغہ اور اقوا ل افعال میں کذب وافتراء سے کام لیا گیا ہے۔اور یہ ان کی جہالت اور جدید علوم میں غلو اور اسباب کے بارے میں حد اعتدال سے تجاوز کی وجہ سے ہے۔ اور جو شخص امو ر معاملات کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھے تو وہ تمیز کرے گا کہ ان میں سے اللہ تعالیٰ ٰ کے ساتھ مخصوص امور کون سے ہیں۔اور وہ امور کون سے ہیں۔جن کو اس نے اپنی مرضی ومشیت اور تدبیر سے مخلوق کے سپرد کردیا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی بن باز رحمہ اللہ

جلددوم 

تبصرے