السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر انسان تکبر و نخوت کے ارادہ کے بغیر اپنا کپڑا لٹکائے تو کیا پھر بھی اس پر حرام ہے اور کیا آستین میں بھی اسبال (کا حکم) ہے؟ (عبداللطیف۔ م۔ ع۔ الریاض)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لباس کو لٹکانا مطلقاً جائز نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَا اسفلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزار فھُوَ فِی النَّار))
’’تہبند کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ آگ میں ہوگا۔‘‘
اسے بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن سلیم والی حدیث میں فرمایا:
((ایَّاکَ والاسْبَالَ فانَّہ مِنَ الْمَخِیْلَة))
’’کپڑا نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثَلَاثَة لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ، الْمُسْبِلُ اِزَارَہٗ، والمنَّانُ ما اعطی، والمنفق سلعة بالحلف الکاذب))
’’تین شخصوں سے اللہ تالیٰ قیامت کے دن نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور انہیں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ ایک اپنے تہبند کو لٹکانے والا، دوسر اکسی کو کچھ دے کر جتلانے والا اور تیسرا وہ شخص جو جھوٹیق سم کھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔‘‘
اس حدیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ تکبر کا ارادہ رکھتا تھا یا نہ رکھتا تھا کیونکہ ان احادیث میں عموم ہے اور اس لیے بھی کہ بسا اوقات یہ کام کبر ونخوت کی وجہ ہی سے ہوتا ہے اور اگر اس نے ازراہ تکبر نہ بھی کیا ہو تو بھی یہ تکبر ونخوت کا وسیلہ ہے۔ نیز اس میں عورتوں سے مشابہت اپنے کپڑوں کو میل کچیل اور گندگی پر رگڑنے کے علاوہ اسراف بھی ہے۔
اور اگر یہ تکبر کے قصد سے ہو تو اس کا گناہ بڑھ جاتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ جَرَّ ثَوبَہ خُیلَائَ لَمْ یَنْظُرِ اللّٰہُ الیہِ یومَ القیامة))
’’جس نے تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔‘‘
البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ کہنا کہ: ’’تم ان سے نہیں، جو یہ کام ازراہ تکبر کرتے ہیں۔‘‘ جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ’’میرا تہبند ڈھیلا ہو جاتا ہے۔ الا یہ کہ میں اسے باندھتا رہوں۔‘‘… تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ جسے ایسی بات پیش آئے جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو درپیش تھی تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جبکہ وہ تہبند کو باندھتا رہے اور اسے اسی لٹکی ہوئی حالت میں چھوڑ رکھنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
رہی کفوں کی بات، تو سنت یہ ہے کہ وہ پہنچے سے آگے نہ ہوں اور یہ وہ مقام ہے جو بازو اور ہتھیلی کو الگ کرنے والا ہے… اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب