سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(11) طواف وسعی کے ہر چکر کے لئے الگ الگ دعا کا اہتمام کرنا

  • 7342
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1577

سوال

(11) طواف وسعی کے ہر چکر کے لئے الگ الگ دعا کا اہتمام کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

11طواف وسعی کے ہر چکر کے لئے الگ الگ دعا کا اہتمام کرلینا کیسا ہے؟ نیز مطوف کے پیچھے بلند آواز سے دعاؤں کا پڑھنا کیسا ہے جس میں مرد عورتیں دونوں شامل ہوتے ہیں جبکہ اس آواز کی وجہ سے طواف کرنے والوں اور نمازیوں کو تشویش ہوتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کی پہلی شق کا جواب یہ ہے کہ ہر چکر کے لیے کوئی خاص دعا نہیں ہے بلکہ ہر ہر چکر کے لیے الگ الگ دعا متعین کر لینا بدعت ہے کیونکہ آپ ﷺ سے یہ ثابت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو آپ ﷺ سے ثابت ہے وہ صرف اتنا کہ آپ حجرِ اسود کو چھوتے وقت اللہ اکبر کہتے اور رکن یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان:

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ([1])

کہتے۔ رہا چکر کا باقی حصہ تو وہ مطلق ذکر و اذکار، تلاوت قرآن اور دعا کا مقام ہے اس میں کسی چکر کے لیے کوئی تخصیص نہیں ہے۔

سوال کی دوسری شق کا جواب: جہاں تک کسی شخص کے پیچھے یا دائیں بائیں چند افراد کے اجتماعی دعا پڑھنے کا تعلق ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ رہا بلند آواز سے دعا وغیرہ پڑھنا تو اگر اس سے طواف کرنے والوں کو تشویش و پریشانی ہو تو یہ ممنوع ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہ سے جب سنا کہ مسجد میں نماز کے اندر بلند آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ:

"لاَ تَجْهَرُ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ في الْقُرْآنِ" 

ترجمہ: ایک دوسرے پر قرآن پڑھتے ہوئے آوازیں نہ بلند کرو۔ ([2])

یہی کچھ میں ان طواف کرنےوالوں سے بھی کہتا ہوں کہ اپنی آوازیں بلند کر کے لوگوں کو پریشان نہ کرو بلکہ ہر شخص جو دعا پسند کرے اپنے طور پر مانگے۔

اگر مطوفین حضرات لوگوں کو یہ بتلائیں اور اس پر نظر رکھیں تو ان کے لیے زیادہ مفید اور بہتر ہو گا کہ لوگو! طواف میں حجرِ اسود کے پاس تکبیر کہو بین الرکنین (رَبَّنَا آتِنَا۔۔۔) آخر تک کہو اور طواف کے باقی حصے میں جو دعا چاہو کرو یا قرآت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہو۔

کیونکہ ہر انسان جس چیز کا محتاج ہو گا اپنے رب سے مانگے گا اور جو کچھ مانگے گا سمجھ کر مانگے گا بخلاف اس کے آجکل جو دعائیں مطوفین پڑھاتے ہیں ان کے پیچھے پیچھے پڑھنے والا اسے سمجھتا ہی نہیں۔ اگر ان دعاوں کے پڑھنے والوں سے آپ پوچھیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں یا اس کا کیا معنی ہے تو عام لوگ کچھ بھی نہ بتا سکیں گے۔ اس لیے ایسی دعائیں کرنا جس کا معنی و مفہوم سمجھ رہے ہوں لوگوں کے لیے زیادہ بہتر اور مفید ہے۔


) ابو داود: 1892 المناسک باب الدعا فی الطواف۔[1](

) احمد 2 ص 129۔[2](

 

فتاوی مکیہ

صفحہ 10

محدث فتویٰ

تبصرے