السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک صاحب اناج کی منڈی رکھتے ہیں ان کی تجارت کا طریقہ یہ ہے کی جو لوگ اناج لاتے ہیں اس کو نیلام کرکے اپنی کمیشن کاٹ کر اناج کا روپیہ اپنے پاس سے ادا کر دیتے ہیں اور اناج کے خریداروں سے اپنی کمیشن بڑھا کر روپیہ روپیہ وصول کر لیتے ہیں کیا اس طرح دونو ں طرف سے کمیشن لینی جائز ہے ، (عبد الحکیم )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض مسا ئل عرف عام پر مبنی ہوتے ہیں اگر اس منڈی میں دونوں طرف سے کمیشن لینے کا رواج ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اگر نہیں ہے ، تو دوطرف سے نہ لے ، بہر حال منڈی کے حالات پر موقوف ہے۔
صورت مرقو مہ میں حکم جو از ثابت نہیں رہا آڑھت کا معاملہ تو اس کے جواز کی یہ صورت ہے کہ آڑھتی صاحب سے اپنے مکان و دکان پر مالیا خود صاحب مال کے ٹھہرانے کا کر ایہ لے سکتا ہے کہ معاوضہ مکان کا ہے ایسے ہی تلوائی مال کا معاوضہ یا کسی چیز کا ٹھیکہ وغیرہ ہے نکلوا کر بوریوں وغیرہ میں بھروانے لدوانے کا انتظام کرنا وغیرہ کی اجرت لے سکتا ہے جو شرعاًجا ئز ہے مگر یہ سب مال والے سے ہے کہ تول جوکھ مالک مکان کے ذمہ ہے بحکم حدیث:
(إِذَا ابْتَعْتَ فَاكْتَلْ ، وَإِذَا بِعْتَ فَكِلْ (رواه احمد قال في مجمع الزوا ئد اسناده حسن كذا في النيل ج ۵حن ۱۲۶اب )
اب اس اجرت کا نام کمیشن رکھ لو یا اجرت و کرایہ ۔ الغرض یہ جائز ہے اور مشتری سے کمیشن یا اگرت لینا جائز نہیں ہاں اگر مشتری کو بھی اپنی دوکان مکان پر ٹھہرانے یا مال لدوانے ، بوریوں یا ٹھیلوں وغیرہ میں رکھوانا، یا اور کسی قسم کا انتظام کر نا ہو تو اس سے اس امور کا معاوضہ یا اجرت لینی جائز ہے ورنہ نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب