السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کو قبر میں رکھ کر منکر نکیرین کے سوال بتا کر جواب بتانا جائز ہےیا نہیں اگر جائز ہے تو کیا مردہ سنتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک حدیث میں ہے۔
لقنوا ماتاكم لا اله الا الله جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’مردوں کو لا الہ الا اللہ سکھلایاکرو‘‘۔ اس حدیث کی تشریح میں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ اصلی مردوں کو قبروں میں سکھاؤ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اصلی مراد نہیں بلکہ جو لوگ قریب المرگ ہیں ان کو سکھاؤ۔ پہلے قول والے قبر میں رکھ کر مردہ وغیرہ کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرتے ہیں۔ دوسرے قول والے قریب المرگ کوکرتے ہیں۔ پچھلا قول صحیح ہے کیونکہ اس کا فائدہ خود حضرت نے فرمایا کہ جو شخص دنیا کے کوچ کے آخری وقت لا الہ الا اللہ پڑھ لے گا وہ نجات پا جائے گا۔ (2 زی الحجہ 37ہجری)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آیا مردے کا کلام زندوں کا سنتے ہیں یا نہیں اگر سنتے ہیں تو کیا دلیل ہے اور اگر نہیں سنتے تو کیا دلیل ہے اس کو قرآن وحدیث سے بیان فرمادیں اور عندا للہ اجر جزیل پاویں۔
جواب۔ ہوالموفق لصواب جواب صورت مذکورہ کا یہ ہے کہ مردہ کلام نہیں سنتا اور نہ اس میں لیاقت سننے کی ہے جیسا کہ اس پر قرآن شریف شاہد عدل ہے۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَـٰذِهِ اللَّـهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّـهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَانظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اس آیت شریف میں وارادات عزیر علیہ السلام کی بیان فرمائی ہے۔ وہ سو برس مرے رہے سو برس کے اندر دھوپ سردی پڑی بادل گرجے بجلیاں چمکیں آدمی چلتے پھرتے تھے۔ مگر ان کو کسی بات کی خبر نہ ہوئی۔ اگر مردے میں طاقت کلام زندوں کے سننے کی ہوتی تو بادل کا گرجنا ضرورسنتے،۔ اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل مردوں کے عدم سماع پرہوگی۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ
اس آیت میں زندوں کے کلام سے مردوں کو غافل فرمایا۔ اگرچہ قیامت تک کیوں نہ پکاریں۔ اس سے صاف انکار مردوں کے سننے کا ہے۔ کہ ان میں لیاقت سننے کی نہیں۔ تفسیر جامع التفاسیر میں لکھا ہے۔ کہ شان نزول اس کا عام ہے۔ بتوں کے بارے میں اس کا شان نزول لگانا دھوکا فریب لوگوں کا ہے۔ بلکہ عام ہے جس میں بزرگ بھی داخل ہیں۔
إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
اس آیت شریف میں ارشاد فرمایا کہ جس کو تم پکارتے ہو۔ وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے۔ اگر بالفرض سن بھی لیں۔ تو جواب نہیں دے سکتے اس میں صاف انکار ہے۔ اموات کے سننے کا ۔
وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاءُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُور
اس آیت شریفہ میں بھی مردوں کے سننے کا انکار کیا ہے۔ اور تفسیر جامع التفاسیر میں اس کی شان نزول میں بتایا ہے۔ کہ جنگ بدر کے مقتولوں کو جو حضرت ﷺ نے پکارا تھا۔ اور یہ فرمایا تھا کہ سنتے ہیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ کیونکہ مردہ اور زندہ برابر نہیں ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ مذہب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور اکثرمشائخ ہمارے کا عدم سماع ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ غرائب اور عینی شرح ہدایہ میں اس مئلہ کو خوب ثابت کیا ہے۔ اور مخالفین کا خوب رد کیا ہے۔ ۔
إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
اس آیت شریفہ میں بھی انکار مردوں کے سننے کا پایا جاتا ہے۔ ان آیات مذکورہ کے سوا اور بھی آیات ہیں۔ جن سے مردوں کا عدم سماع ثابت ہوتا ہے۔ اور بجز حدیث قرع فعال کے کوئی اور حدیث صحیح سماع موتیٰ میں نہیں پائی گئی۔ اور حدیث قرع فعال سے مردوں کا ایک خاص وقت میں سننا ثابت ہوتا ہے۔ جس وقت کے مردہ قبر میں نکیرین کے سوال کے جواب دینے کےلئے زندہ کردیا جاتا ہے۔ اور اس وقت مردہ مردہ نہیں رہتا۔ اور حدیث قلیب بدراسی واقعہ بدر کے ساتھ خاص ہے۔ کیونکہ حدیث بخاری ونسائی میں لفظ آلان آچکا ہے۔ پس یہ حدیث عموم سماع موتیٰ پر دلالت نہیں کرتی۔ الغرض کوئی حدیث صحیح قابل اطمینان سماع موتیٰ میں نہیں آئی ہے۔ اور جو ہیں وہ ضعاف ومنکرات ہیں اور آیات قرآنیہ کے خلاف اور مسائل اربعین میں مولانا اسحاق صاحب محدث نے بھی سماع موتیٰ سے انکار کیا ہے۔ (حررہ فقیر عبدا لحکیم مدرس مدرسہ حقانی چھاونی نصیر آباد اجمیر۔ سید محمد نزیر حسین۔ فتاویٰ نزیریہ ج1 ص 399)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب