سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(21) جنازہ غائبانہ ک ثبوت اور کتنے دن تک

  • 6574
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 852

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنازہ غائبانہ ک ثبوت اور کتنے دن تک (عبد الطیف)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازہ غائب آپﷺ نے نجاشی بادشاہ کاپڑھا اور اس کے بعد کسی روایت میں منع نہیں آیا۔ لہذا یہ فعل سنت ہے۔ (4رمضان 36ہجری)

تشریح

نماز جنازہ غائب پر پڑھنادرست ہے۔  اور یہی مذہب ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ    اور جمہور سلف  رحہم اللہ اجمعین کا حتیٰ کہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا کہ کسی صحابی سے غائب پر نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت نہیں آئی ہے۔

عن جابر عن النبي صلي الله عليه وسلم صل علي اصحمة النجاشي فكيرعليهاربعا وفي لفظ قال توفي اليوم رجل صالح من الحبش فهلموا فصلم عليه فصففنا خلفه فصلي رسول الله صلي الله عليه وسلم عليه ونحن صفوف متفق عليه كذا في المنتقي قال القاضي الشوكاني في شرح  قد استدل بهذا الضصة القائلون بمشر وعية الصلوة علي الغائب عن البلد قال في الفتح وبذلك قال الشافعي وحمد وجمهور السلف حتي قال ابن حزم لم يات عن احد من الصحابة منعه انتهي

(حررہ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوری)(ابو العلی محمد عبد الرحمٰن) سید محمد نزیر حسین فتاویٰ نزیریہ ج1 ص 398)

شرفیہ

تو بعض علماء کے نزدیک جائز ہے۔ الخ اس کی تحقیق پیشتر ہوچکی ہے۔ وہاں ملاحظہ ہو۔ کتنے دن کا جواب یہ  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں مسجد میں مدت مدید شہدااحد پرنماز جنازہ پڑھی۔

صلي علي اهل احد صلاته علي الميت ثم النصرف الي المنبر الحديث صحيح بخاري جلد اول ص 179

بعض روایات  سے معلوم ہوتا ہے کہ آٹھ برس کےبعش پڑھا تھا۔ جنازہ غائبانہ جائز ہے۔ (عبید اللہ رحمانی 19 مئی 1953ء)

تشریح

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ٍ۔ 1۔ نماز جنازہ ایک بار ہوچکی پھر اور آدمی آئے ۔ انہوں نے بھی نماز پڑھی تو یہ نماز جائز ہے یانہیں۔ ؟اور 2۔ غائب کی بھی نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں؟

الجواب۔ جنازہ پر دوبارہ نماز پڑھنی جائز ہے۔  مشکواۃ شریف میں ہے۔

عن ابن عباس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم مر بفبر دفن ليلا  فقال متي دفن هذا قالوا البارحة قال افلااذ نتموني قالو ادفناه في ظلمة الليل فكرهنا  ان نوقظك فقالم فصففنا خلفه فصلي متفق عليه

 یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔ ’’کہ رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر گزرے جس میں مردہ رات کودفن ہواتھا۔ آپﷺنےفرمایا تو مجھے تم لوگوں نے کیوں خبر نہ دی۔ لوگوں نے کہا اندھیری رات میں ہم نے دفن کیا اس وجہ سے آپﷺ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پس  رسول اللہ ﷺ(نماز جنازہ کےلئے) کھڑے اور ہم لوگ آپﷺ کےپیچھے صف باندھ کر کھڑے ہوئے۔ پس آپﷺ نے نماز جنازہ پڑھی۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہواکہ نماز  جنازہ ہونے کے بعد قبر پر دوبارہ نماز جنازہ درست ہے۔ تو قبل دفن کے تو بدرجہ اولیٰ درست ہوگی۔ اور اس کی تایئد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اثر سے ہوتی ہے۔ جس کو کنز الاعمال نے بایں لفظ نقل کیا ہے۔ صلي علي جنازه بعد ما صلي عليها یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک جنازہ پر نماز پڑٖھی۔ بعد اس کے کہ اس پر نماز پڑھی جاچکی تھی۔

جواب سوال دوم۔ نماز جنازہ غائب پر پڑھنا درست ہے۔ اور یہی مذہب ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور جمہور سلف رحہم اللہ کا حتیٰ کہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ   نے کہا کہ کسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے غائب پر نماز جنازہ پڑھنے کی ممانعت نہیں آئی۔

عن جابر عن النبي صلي الله عليه وسلم صلي  علي اصحمة النجاشي فكير عليه اربعا وفي لفظ قال توفي اليوم رجل صالح من الحبش فهلموا فصلمو عليه فصفضنا خلفه فصلي رسول الله صلي الله عليه وسلم عليه ونحن صفوف متفق عليه كذافي المنتقي قال القاضي الشوكاني  في شرح قد استدل بهذه القصة القاثلون بمشر وعية الصلوة علي الغائب عن البلد قال في البفتح وبذالك قال  الشافعي واحمد وجمهور السلف حتي قال ابن حزم لم يات عن احد من الصحابة منعه انتهي

حررہ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوری ۔ ابو العلیٰ محمد عبد الرحمٰن ۔ سید محمد نزیر  حسین فتاوٰی نذیریہ ج1 ص 398)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

 

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 41

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ