سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) اس کا حکم جو اپنے مریدوں کو اپنے لئے سجدہ کا حکم کرے

  • 6540
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1527

سوال

(82) اس کا حکم جو اپنے مریدوں کو اپنے لئے سجدہ کا حکم کرے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس کا حکم جو اپنے مریدوں کو اپنے لئے سجدہ کا حکم کرے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میں اللہ رحمن ورحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں، سب تعریف پروردگار جہان کے لئے ہے اوررحمت سلامتی اشرف انبیاء والمرسلین محمدﷺاور ان کی ال اور تمام صحابہ کرام پرہو،  اوراس کے بعد پس شان یہ ہے کہ ایک بستی میں اپنے والے آدمی جسے کلیانی کہاجا تا ہے کے متعلق بعض

فى رجل فى قرية يقال لها كليانى امر اتباعه ان يسجدوله ويقبلواقدمه فانكر عليه بعض العلماء من الفضلاءفلم يرتدع فهل هذا الصنيع من هذا الجاهل بامر اتباعه بذلك جائزام لاوهل انكار بعض العلماء عليه واقع فى محله وماجود عليه ام لا وما حكم هذالسجود الواقع من اتباع لهذا المبتدع الضال وكذلك الامر بهم بذلك بينواتوجروا

بسم الله الرحمن الرحيم اعلم وفتناالله واياك للصواب وجنبنا مانستوجب يه العذاب ان السجود مغيرالله حرام بنص الكتاب والسنة اما الكتاب فقال تعالى اسجدوالله واعبدواوقال تعالى لاتسجدوواللشمس ولا للقمروسجدو لله الذى خلقهن ان كنتم اياخ تعبدون فاخبر سبحانه وتعالى ان السجودلمخلوق سواه حرام لا يجوز لغيره لانه من خصوصيات الرب سبحانه وتعالى

فضلاءکی طرف سے مجھ پر سوال وارد ہوا ہے کہ اس نے اپنے لئے سجدہ کرنے کی اتباع کا حکم دیا ہے اور اپنے اقدام کو بوسہ دینے کا فضلاءمیں سے بعض علماء نے اس پر انکار کیا پھر بھی وہ رکا نہیں، پس کیا یہ کام اس جاہل سے کہ اس کی اتباع کا حکم جائز ہے یاکہ نہیں، اور کہا بعض علماءکا انکار اس پر اپنے محل میں واقع ہے اور وہ اس پر ماجور ہیں یا نہیں، اور اس گمراہ بدعتی کے حکم کی اتباع سے واقع سجدہ کا کیا حکم ہے اور اس طرح لوگوں کو اس کا حکم دینا کیا ہے بیان کرواجردیئے جاو گے،

فاقول وبالله استمدالتوفيق وبيده اذمة التحقيق پس میں کہتا ہوں، کہ اللہ ہی سے توفیق کی مدد طلب کرتا ہوں اور اسی کے ہاتھ میں تحقیق کی لگام ہے،

میں اللہ رحمن ورحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں، اللہ تعالی ہمیں اور تجھے توفیق صواب دے اور جن سے ہم عذاب کے سزاوار ہوں ان سے بچائے، جانو، کہ کتاب وسنت کی نص کی دلیل سے غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے لیکن کتاب اللہ پس فرمایا اللہ تعالی نے سجدہ کرو اللہ کے لئے اور اس کی عبادت  کرو اور فرمایا اللہ تعالی نے، سورج وچاند کو مت سجدہ کرو بلکہ جس ذات نے ان کو پیدا کیا ہے اس کو سجدہ کرو اگر تم خاص اس کی عبادت کرتے ہو تو پس اللہ سبحانہ وتعالی نے خبر دی کہ بیشک اس کے بغیر مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے اس کے غیر کو جائز نہیں، کیونکہ یہ پروردگار سبحانہ وتعالی

فلايجوزلنبى ولالولى ولالغيره واماالسنة فاخرج ابن ماجة من حديث عائشه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لوامرت احدان يسجدلاحدلامرت المراة ان تسجدلزوجها الحديث واخرج ابن ماجة ايضا من حديث عبدالله ابن ابى اوفى قال لما قدم معاذمن الشام سجد للنبى صلى الله عليه وسلم فقال ما هذايامعاذقال اتيت الشام فوافقتهم يسجدون لاساقفتهم وبطادقتهم فوددت فى نفسى ان نفعل ذلك بك فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فلا تفعلوفانى لوكنت امراحدان يسجد لغيرالله لامرت امرأةان تسجدلزوجها الحديث وعن ابى هريرة رضى الله عنه قال جاءت امرأةالى رسول الله صلى الله عليه وسلم واخرج الترمذى من حديث ابى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لوكنت امر احدان يسجدلاحد لامرت امرأة ان تسجدلزوجها

کی خصوصیات سے ہے پس کسی نبی ولی اوران کے غیر کے لئے جائز نہیں، لیکن سنت پس ابن ماجہ حضرت عائشہ کی حدیث لائے ہیں بیشک رسول کریم ﷺنے فرمایا اگر میں کسی کو سجدہ  کا حکم دیتا تو میں عورت کو اپنے خاوند کے لئے سجدہ کا حکم دیتا  (الحدیث ) اور نیز ابن ماجہ نے عبداللہ بن ابی اوفی کی حدیث نکالی ہے فرماتے ہیں جب حضرت معاذؓشام سے آئے تو انہوں نے رسول کریم ﷺکو سجدہ کیا آپ ؐنے فرمایا، معاذیہ کیا ہے تواس نے کہا میں شام سے آیا ہوں پس میں نے ان کو موافقت پایا کہ وہ کاہنوں اور جرنیلوں  کو سجدہ کرتے ہیں پس آپ ؐکے ساتھ یہ کرنے کے لئے میرے نفس نے محبوب جانا، پس آنحضرت ﷺنے فرمایا ایسا مت کروپس بیشک اگر میں کسی غیرا للہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو اس کے خاوند کے لئے سجدہ کا حکم دیتا  (الحدیث ) اور مام ترمذی نے حضرت ابی ہریرہ سے روایت کی ہے وہ رسول کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں آپ ؐنے فرمایااگر میں کسی  کوکسی ایک کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو اس کے خاوند کے لئے سجدہ کا حکم دیتااورحضرت ابی ہریرہ سے ہی آتی  ہےکہ وہ فرماتے ہیں ایک عورت رسول کریم ﷺکے پاس آئی پس اس نے کہا میں فلاں کی بیٹی ہوں آپؐ نے فرمایا میں نے تجھے پہچان لیا ہے تجھے کیا ضرورت ہے میری ضرورت میرے چچیرے عابدکی طرف ہے آپؐ نے فرمایا میں نے اسے پہچان لیا ہے اس

فقالت انا فلانة بنت فلان قال قدعرفتك فماحاجتك قالتحاجتى الى ابن عمى العابد قال قدعرفته قالت يخطبنى فاخبرنى ماحق الزوج على الزوجة فان كان شيا اطبقه تزوجته قال من حقه انه لوسالت منخراه دماوقيحا فلحسته بلسانك مااديت حقه لوكان ينبغى لبشر ان يسجد لبشرلامرت المراة ان تسجد لزوجها اذا دخل عليها كما فضله الله عليها الحديث رواه البزاروالحاكم وقال صحيح الاسنادواخرج الامام احمدباسنادجيدعن انس بن مالك رضى الله عنه قال كان اهل بيت من الانصارلهم جمل مسنون عليه وانه استصعب عليهم فمنعهم ظهره وان الانصار جاواالى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالواانه كان لنا جمل نسنى عليه وانه استصعب علينا ومنعنا ظهره وقدعطش الزرع والنخل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم صحابه قوموافقاموندخل الحائط واجمل فى ناحية فمشى النبى صلى الله عليه وسلم نحوه فقالت الانصار يا رسول الله قدصارمثل الكلب نخاف عليك صولته

نے کہا وہ مجھ سے منگنی کرتا ہے پس آپؐ مجھے خاوند کے حقوق جو عورت پر ہیں بتاوپس اگر وہ اس قسم کے ہوئے کہ میں ان کے برداشت کرنے کی طاقت رکھوں تو اس سے نکاح کرلوں گی آپؐ نے فرمایا بیشک اگر اس کے ناک کے دونوں نتھنوں سے خون اور پیپ بہے اور تو اسے اپنی زبان سے چاٹ لے پھر بھی تو نے اس کا حق ادا نہیں کیا، اگر کسی انسان کو حکم ہوتا کہ وہ کسی کے لئے سجدہ کرے تو میں عورت کو اس کے خاوند کے لئے سجدہ کا حکم دیتا جب وہ اس پر داخل ہوجیسے کہ اللہ نے اسے اس پر فضیلت دی ہے الحدیث اسے بزاراورحاکم نے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صیح اسناد والی ہے اور امام احمد اسناد جید کے ساتھ انس بن مالک سے لائے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ انصاریوں میں سے ایک گھر والوں کے لئے ایک زیادہ عمر اونٹ تھا اور بیشک وہ ان پر مشکل ہوگیا اور اس نے اپنی پیٹھ ان کے سوار ہونے سے روک لی اور انصار رسول کریم ﷺکے پا س آئے پس انہوں نے کہا جی بات یہ ہے کہ ہمارے ایک عمر رسیدہ اونٹ ہے اور وہ ہم پر بہت دشوار ہے اس نے اپنی پیٹھ ہم سے روک لی ہے اور ا س نے کھیتی اور کھجوروں کو پیا سا چھوڑ دیا ہے پس رسول کریمؐ نے اپنے ساتھیوں سے اٹھنے کو کہا پس وہ کھڑے ہوگئے پس آپؐ دیوار میں سے داخل ہوگئے اور اونٹ ایک کونے میں تھا پس رسول کریمؐ اس کی طرف

فقال ليس على منه باس فلما نظرالجمل الى رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل نحوة حتى خرساجدبين يديه فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بنا صيته اذل ماكانت قط حتى ادخله فى العمل فقال له اصحابه يا رسول الله هذه بهيمة لاتعقل تسجد لك ونحن نعقل فنحن احق ان نسجدلك قال لايصلح لبشر ان يسجد لبشرولوصلح لبشر ان يسجد لامرت المراة ان تسجد لزوجها لعظم حقه عليها الحديث واخرجه البزاراونجوه ورواه النسائى مختصراوابن حبان فى صحيحه من حديث ابى هريرة والاحاديث فى هذاالباب كثيرة وفيماذكرناه كفاية لمن له اية اذاثقرر ذلك علمت ان السجودلغيرالله حرام بنص الكتاب العزيز وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فهذا الرجل المبتدع الذى امراتباعه بالسجود له مرتكب معصية عظيمة وخصلة جسيمة ان لم تكن كفرافلاشك انها كبيرة من الكبائر فالواجب عليه التوبة من هذه المعصية والرجوع عنها واماالقوم الساجدون له فان كانواجاهلين فالواجب

چلےپس انصاریوں نے کہا یا رسولؐ اللہ یہ تو کتے کی طرح باولاہے ہم اس کے آپ پر حملہ کرنے سے خطرہ محسوس کرتے ہیں آپؐ نے فرمایا مجھے اس پر کوئی خطرہ نہیں، پس جب اونٹ نے رسول کریمؐ کی طرف دیکھا تو آپؐ کی طرف چلا حتی کہ آپؐ کے سامنے سجدہ میں گرگیا پس  آپؐ نے اس کی پیشانی کو پکڑا وہ اس سے پہلے ذلیل نہیں تھا، پس آپؐ نے اسے کام میں لگادیا پس آپؐ کے لئے صحابہ ؓ نے کہا یا حضرت یہ بے عقل چار پایہ آپؐ کوسجدہ کرتا ہے ہم باعقل آپؐ کو کیوں نہ سجدہ کریں ہم زیادہ مستحق ہیں آپؐ کو سجدہ کرنے کے پس آپؐ نے فرمایا کسی انسان کے لئے درست نہیں کہ دوسرے کے لئے سجدہ کرے او ر نسائی اسے مختصرلائے ہیں اور ابن حبان اپنی صیح میں ابی ہریرہؓ سے لائے ہیں اور احادیث اس بات میں بہت ہیں اور جو ہم نے ذکر کیا ہے یہ ہدایت یافتہ کے لئے کفایت ہے جب آپؐ کے لئےیہ چیز ثابت ہوگئی تو آپ جان لیں گے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا کتاب عزیز اور سنت رسول اللہ ﷺکی نص سے حرام ہے پس یہ بدعتی انسان جس نے اپنے لئے سجدہ کرنے کا اتباع کو حکم دیا ہے بڑی معصیت اور بہت بڑی خصلت کا مرتکب ہوااگر یہ کفر نہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کبیرہ گناہ ضرور ہے پس اس پر اس گناہ سے توبہ اور رجوع کرنا ضروری ہے اور لیکن اس کو سجدہ کرنے والی قوم اگر وہ جاہگ ہیں پس اس کی راہنمائی کرنا ضروری ہے کہ بیشک

ارشادهم بان السجودلغيرالله حرام بل فى بعض صورة يكون كفراقال العلامة ابن حجر المكى فى شرح ابى فضل فى باب سجودالشكروسجودالجهات بين يدى مشائخهم حرام اتفاقاولوبقصدالتقرب الى الله وفى بعض صورة يكون كفراانتهى-

وقال ايضا فى كتابه المسمى بالاعلام بقواطع الاسلام وقدصرحوابان سجود تهلة الصوفية بين  ايدى مشائخهم حرام وفى بعض صورة يكون كفرافعلم من كلامهم ان السجود بين  ايدى الغير منه ماهو كفر،  ومنه ماهو حرام غيركفرفالكفران يقصد السجودللمخلق والحرام ان بقصده الله تعالى معظما بذلك من غير ان بقصده اول يكون له قصد انتهى وفى الدرالمختارمايفعله الجهال من بين تقبيل الارض بين يدى العلماء والعظماءحرام والفاعل واراضى به اثمان لانه يشبه عبادة الوثن وهل يكون كفر فعلى وجه العبادة والتعظيم كفروعلى وجه التحية لاوصاراثما مرتكبا للكبيرة وفى الملتقط التواضع لغيرالله حرام انتهى-

غیراللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہوجا تا ہے علامہ ابن حجر مکی شرح ابی فضل کے باب سجودالشکرمیں فرماتے ہیں اور جاہلوں کا اپنے مشائخ کے سامنے سجدہ کرنا حرام ہے اتفاقا اگرچہ اللہ کے قریب ہونے کے لئے کیوں نہ ہو اور بعض صورتوں میں کفر ہوتا ہےنیز وہ اپنی کتاب موسوم بہ الاعلام بقواطع الاسلام میں فرماتے ہیں اور تحقیق انہوں نے تصریح کی ہے کہ بیشک جاہل صوفیوں کا اپنے مشائخ کے سامنے سجدہ کرنا حرام اور بعض صورتوں میں کفر ہوجا تا ہے پس ان کے کلام سے معلوم ہوگیا کہ بیشک غیراللہ کے سامنے سجدہ کرنا اس سے بعض صورتوں میں تو  کفر  ہےاور بعض حرام ہے کفر نہیں پس کفر تویہ ہے کہ مخلوق کے لئے سجدہ کا قصد کیا جائے اور حرام یہ ہے کہ قصد اللہ کا ہو اور غیر کی تعظیم مطلوب ہو لیکن اس کا قصد نہ کیا جائے یا اس کا قصد ہوہی نہ اور درمختار میں ہے جو جاہل کرتے ہیں علماءعظماءکے سامنے زمین کوبوسہ دینا حرام ہے اور اس کا کرنیوالا اور اسے پسند کرنیوالا دونوں گنہگار ہیں کیونکہ یہ بت کی عبادت کے مشابہ ہے اور کیا کفر ہوگا، پس عبادت اور تعظیم کے طریق پر کفر ہے اور سلام وتحفہ کے طریق پر کفر نہیں اور ہوگا وہ مرتکب کبیرہ گناہ کا اور الملتقط میں ہے غیر اللہ کی تواضع حرام ہے

قال فى الشامى قال الزيلعى وذكرالصدرانه لايكفر بهذاالسجودلانه يرادبه التحية وقال شمس الائمة السرخمى ان كان لغيرالله تعالى على وجه التعظيم كفراانتهى قال القهستانى وفى الظهيرية يكفربالسجودمطلقا وفى الزاهدالايماءفى السلام الى قريب الركوع كالسجودوفى المحيط انه يكره الانحناءللسلطان غيره انتهى وظاهر كلامهم اطلاق السجودعلى هذاالقبيل انتهى وفى الفتاوى الحادية نقلاعن نصاب الاحتساب اذا سجدلغيرالله يكفر لان وضع الجبهة على الارض لايجوزالالله تعالى واذاقال اهل الحرب لمسلم اسجد للملك والاقتلناك فالافضل ان لايسجد لانه كفرصورة والافضل للانسان ان لاياتى بما هو كفر صورة وان كان فى حالةالاكراه والانحناءللسلطان اولغيره مكروه لانه يشبه فعل المجوس-وفى المفاتيح مايفعله كثرمن الجهلة من السجود بين يدى المشائخ فان ذلك حرام قطعا بكل حال سواءكانت الى القبلة اوالى

شامی میں  کہا ہے اس نے مصنف زیلعی فرماتے ہیں اور صدر نے ذکر کیا ہے کہ اس سجدہ کی وجہ سے کافر نہ ہوگا کیونکہ اس سے سلام وغیرہ کا قصد ہوتا ہے اور شمس الائمہ خسی فرماتے ہیں اگر غیراللہ کے لئے ہو تو کفر ہے ختم شد قہستانی نے کہا ہے کہ ظہیرہ میں ہے کہ مطلق سجدہ غیر کو کرنے سے کفر ہوگامطلقا اور زاہدی میں ہے سلام میں اشارہ رکوع کے قریب ہوکرنا سجدہ ہی کی  طر ح ہے اور محیط میں ہے کہ بادشاہ اور دوسر ے کے لئے جھکنا مکروہ ہے ختم شد اور ان کے کلام کے ظاہر سے تو اس قسم پر سجدہ  کا طلاق ہے، اور فتاوی حماد میں نصاب الا حتساب سے نقل کیا ہے کہ جب غیراللہ کو کوئی سجدہ کرے تو وہ کافر ہوگیا، کیونکہ غیر اللہ کے سوا کسی کے لئے زمین پر پیشانی رکھنا ناجائز ہے اور جب دشمن مسلمان کو سجدہ کا حکم دے اور کہے ورنہ تجھے ہم قتل کردیں گے پس افضل تویہ ہے کہ سجدہ نہ کرے کیونکہ یہ صورۃ کفر ہے اور انسان کو افضل یہ کہ صورۃ کفروالے کام نہ کرے اور اگر مجبوری کی حالت میں ہو اور بادشاہ اور اس کے غیر کے لئے جھکنا مکروہ ہے کیونکہ یہ بے دینوں کے فعل کے مشابہ ہے اور مفاتیح میں ہے جو جاہل صوفی اپنے مشائخ کے سامنے سجدہ وغیرہ کرتے ہیں پس بیشک یہ قطعاحرام ہے ہر حالت میں خواہ قبلہ کی طر ہویا غیر کی طرف اور خواہ

غيرها سواء قصدالسجودلله تعالى اوغفل عنه انتهى- فالحاصل ان سجودهولاءالجهلة العوام الذى هم كالانعام للبتدع الضال المذكور حرام من قسم السجود لتعظيم المخلوق لامن قسم مايرادبه التحية المنونة لان التحية المسنونة قدارشداليها الشارع باللسان لابالانحناءولابالسجود فدخالفتهم لما امربه الشارع الذى جاءنابالاحكام وعلمناماينفعناوحذرناممايوجب غضب الالمالعلام دليل على قبح فعل الجهل المذكورين وقبح الامربهم بذلك بل بعدارشادهم وتعليمهم بان الفعل حرام وبقاءهم على فعل هذاالامرالحرام لايبعدالقول بكفرهم وكفر مرشدهم المبتدع الضال والله سبحانه وتعالى اعلم و صلى الله على خير خلقه سيدنامحمدواله وسلم-ثم بعدتحريرهذاالجواب وارساله الى السائل كثرالله فوائده وردعليه سوال اخروهوماقولكم ادام الله فضلكم فى تقبيل اليدامكروه ام لاوقدروى الترمذى فى جامعه من حديث صفوان بن عسال قال ان قوما من اليهودقبلوايدالنبى صلى الله عليه وعليه وسلم ورجله وقال الترمذى حديث حسن صحيح-

اللہ کو سجدہ کا قصدکرے یا اس سے غافل ہو، پس حاصل کلام یہ ہے کہ بیشک ان  جاہل عوام کا لانعام کا مذکور گمراہ بدعتی کو سجدہ کرنا حرام ہے مخلوق کی تعظیم والے سجود کی قسم سے ہے نہ کہ اس قسم سے جس سے مسنون سلام مراد لیا جا تاہے کیونکہ مسنون سلام کے لئے شارع علیہ نے زبان کے ساتھ راہنمائی فرمائی ہے نہ کہ جھکنے اور سجدہ کرنے سے پس ان کا شارع علیہ کے حکم کی مخالفت کرنا،  شارع علیہ جو ہمارے پاس احکام لائے اور ہمیں فائدہ مند امور سکھلائے اور ہمیں اس چیز سے ڈرایا جو بڑے عالم اللہ تعالی کے غضب کا سبب بنتی ہے و ان جاہل صوفیوں مذکورہ کے فعل کی قباحت پر دلالت کرتی ہے اور اس کے حکم دینے کی قباحت پردلالت کرتی ہےبلکہ ان کی راہنمائی اور ان کو تعلیم دینے کے بعد کہ یہ کام حرام ہے اور ان کے اس کام پر باقی رہنے کے بعد ان پر کفرکا فتوی لگانا، اور اللہ سبحانہ، عالم ہم سے زیادہ ہے اور خدا تعالی ہمارے سرادر محمد ؐ اور ان کی آل پر رحمت کرے۔ پھر اس جواب کو لکھ کر سائل کی طرف بھیجنے کے بعد اللہ اس کے فوائد کو زیادہ کرے، اس پر دوسرا سوال وارد ہوا کیا تمھارا قول ہے خدا تمھارے فضل کو ہمیشہ رکھے ہاتھ کو چومنے کے متعلق ۔ کیا یہ مکروہ ہے یا نہیں اور تحقیق امام ترمذی اپنی جامع میں صفوان بن عسال کی حدیث لائے ہیں ۔ کہ بیشک یہود کی ایک قوم نے رسول کریم ؐکے ہاتھ چوما اور پاوں کو بھی اور امام ترمذی نے کہا ہے حدیث حسن صیح ہے، ۔

وروى الحاكم فى مستدركه ان رجلااتى النبى صلى الله عليه وعليه وسلم فقال يارسول الله ارنى شياازدادبه يقينا فقال اذهب الى تلك الشجرةفادعهافذهب اليها فقال ان رسول الله صلى الله عليه وعليه وسلم يدعوك نجاءت حتى سلمت على النبى صلى الله عليه وعليه وسلم فقال لها ارجعى فرجعت قال ثم اذن له تقبل راسه ورجليه الحديث ولايخفى ان تقبيل اليد والرجل لايحصل بدون الانحناء وقدثبت النهى عن الانحناء كما فى الترمذى من حديث انس رضى الله عنه قال قال رجل يارسول الله الرجل منا يلقى اخاه اينحنى له قال لا قال فيلتزمه ويقبله قال لا قال افياخذبيده ويصافحه قال نعم قال الترمذى هذاحديث حسن فاذاكان انحناء بعضنا لبعض ممنوع فما التوفيق بين الاحاديث الواردة بتقبيل يدالرجل ورجله فان ذلك لايمكن بدون الانحناء وما تقبيل الرجل وذاقلتم بجوازه فباى صفة يكون وهل وردفى كيفيته حديث بينواتوجرواوقد

اورامام حاکم اپنی مستدرک میں لائے ہیں کہ ایک انسان رسول اللہ کے پاس آیااور اس نے کہا یا رسول ؐاللہ مجھے ایسی چیز دکھاو جس سے میرا یقین زیادہ ہوجائے آپؐ نے فرمایا، اس درخت کے پاس جاکر اسے پکار، وہ اس کر طرف گیا، اور کہا، کہ بیشک رسولؐ اللہ تجھے بلاتے ہیں پس اس درخت نے آپؐ کے پاس آکر آپؐ کو سلام کیا آپؐ نے اس کو لوٹنے کا حکم دیا وہ لوٹ گیا راوی کہتے ہیں پھر آنحضرتؐ نے اسے اجازت دی تو اس انسان نے آپؐ کے سر اور پاوں کو بوسہ دیا  (الحدیث ) اوریہ پوشیدہ نہیں، کہ ہاتھ اور پاوں کا بوسہ دینا بغیر جھکنے کے حاصل نہیں ہوسکتا حالانکہ جھکنے سے نہی ثابت ہوچکی ہے، جیسے کہ جامع ترمذی شریف میں حضرت انس ؓ سے حدیث ہے راوی کہتا ہے کےآنحضرتؐ سے ایک انسان نے کہا کہ یارسول اللہ  ہم سے ایک انسان اپنے بھائی سے ملتا ہے کیا وہ اس کے لئے جھک سکتا ہے آپؐ نے فرمایا نہیں اس نے کہا پس اسے چمٹ جائے اور اس کا بوسہ لے لے آپؐ نے فرمایا نہیں، اس نے عرض کی کیا اس کے ہاتھ کو پکڑ کر مصافحہ کرےفرمایا ہاں، امام ترمذی نے کہا ہے یہ حدیث حسن صیح ہے پس جب ہم سے بعض کے لئے جھکنا ہے تو ان احادیث کے درمیان جن میں آدمی کے ہاتھ وپاوں چومنے کا ذکر آتا ہے کیا تطبیق ہے اور جب تم اسے جائز کرو تو کس صفت سے ہوگا کیا اس کی کیفیت کے متعلق کوئی حدیث آئی ہے، بیان کرو تمھیں اجر

وردالنهى ايضا عن مجرد التقبيل مطلقا سواءكان تقبيل يداورجل اوشئى من اعضاءالانسان كما رواه ابن ابى شيبة فى مصنفه من حديث ابى ريحانته فتفضلوابالجواب الشافى لازلتم اهلالعل المشكلات- فاقول

بسم الله الرحمن الرحيم- متوكلا عليه وطالبا منه التوفيق لاصابة الصواب اعلم ان ائمة الاصول ومنهم الامام السبكى فى جمع الجوامع وغيره صرحوبان الواحد بالشخص له جهتان واوردولذلك امثلة يستفادمنه جواب مااستشكله السائل كثرالله فوائده وزادفى علمه وذلك ان الانحناءفىذاته للمخلوق ممنوع بنص الحديث الذى ذكره السائل كثرالله فوائده ولكنه حيث كان غيرمقصودفى ذاته بل وسيلة الى امر مطلوب لم يكن ممنوعا وذلك ان تقبيل يدالرجل ورجله لايحصل بغيرالانحناء فلما كان فى ذاته غير مقصود بل وسيلة الى امر مطلوب لم يدخل فى قسم الانحناء الممنوع

ملیگااورخالی بوسہ لینے سے بھی نہی آئی ہے مطلقا، خواہ ہاتھ یو یا پاوں کا یا انسان کے اعضاءمیں سے کسی اور چیز کاہو، جیسے کہ ابن ابی شیبہ اپنی کتاب میں ابن ریحانتہ کی حدیث لاتے ہیں جواب شافی فضل کرو تم ہمیشہ مشکلات کے حل کرنے میں قابل ہو،  پس میں کہتا ہوں،    شروع کرتا ہوں میں رحمن ورحیم کے نام سے اللہ پر توکل کرتا ہوا اور اس سے درستگی تک پہنچنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، جان، کہ اصول کے ائمہ اور ان سے امام سبکی نے اور ان کے غیر نے تصریح کی ہے کہ کسی انسان کو پانے والے کی دووجوہات ہیں اور انہوں نے  کئی مثالیں بیان کی ہیں جن سے جس چیز کو سائل نے مشکل خیال کیا ہے جواب ہوسکتا ہے اللہ اس کے فوائد کو زیادہ کرے اور اس کے علم میں زیادتی کرے اور یہ اس وجہ سے کہ بیشک اللہ کے سوا مخلوق کی ذات کے لئے جھکنا نص حدیث کے ساتھ ممنوع ہے جسے سائل نے ذکر کیا ہے خدا اس کے فوائد کوزیادہ کرے اور لیکن وہ بذات مقصودنہ ہو بلکہ مطلوبہ امر کے لئے وسیلہ ہو تو ممنوع نہیں ہے اور یہ اس لئے کہ ہاتھ پاوں کا بوسہ جھکنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، پس جب وہ اپنی ذات میں غیر مقصود ہے پس امر مطلوب کی طرف وسیلہ ہے تویہ انحاء ممنوع میں داخل نہ ہو، پس ممنوع صرف

فالممنوع هوالانحناءالمجردالمشابة للعبادة لاالانحناء الذى ليس مقصودافى ذاته بل وسيلة الى امر مطلوب كتقبيل يدالوالدين اوالعالم اوالشريف اوالامام العادل رجله اوالحجرالاسودفماكان وسيلة الى امر مطلوب غيرمقصود لذاته لم يدخل فى قسم الانحناءالمجرد المنهى عنه وقدثبت ان النبى صلى الله عليه وسلم قبل الحجرالاسود وسجد عليه وشرع ذلك لامته فلم يكن الانحناء لتحصيل هذه السنة من قسم الممنوع ومانحن فيه ذلك هذا ماظهرللحقيراسيرالتقصيروالله سبحانه وتعالى اعلم واماقول السائل زادالله فى علمه انه ثبت النهى عن التقبيل مطلقا سواء كان تقبيل يداورجل اوشئى من اعضاءالانسان كما فى مصنف ابن ابى شيبة من حديث ابى ريحانته فجوابه من وجوه الاول ان السائل لم يذكررجال الحديث ولفظه حتى ينظرفى رجاله ومتنه وليس ابن ابى شيبة ممن شرط الصحة فى مصنفه بل فيه الصحيح والحسن والضعيف الساقط-

خالی جھکنا ہے جوکہ عبادت کے مشابہ ہے نہ کہ وہ جھکنا جو کہ اپنی ذات میں مقصود نہیں ہے بلکہ امر مطلوب کی طرف وسیلہ ہو جیسے کہ والدین کے ہاتھ یا عالم کے یا شریف اور مام عادل کے پاوں کا بوسہ لینا یا حجراسودکا پس جوجھکنا امر مطلوب کی طرف وسیلہ ہو اور اپنی ذات کے لئے مقصود ہو وہ اس مطلق انحناءمنھی عنہ کی قسم میں داخل نہیں ہے اور تحقیق ثابت ہے کہ رسول کریمؐ نے حجراسود کا بوسہ لیا اور اس پر سجدہ کیا اور اس کو اپنی امت کے لئے شروع ٹھہرایا، پس جو جھکنا اس سنت کو حاصل کرنے کے لئے ہے وہ ممنوع کی قسم سے نہیں ہے اورجس مسئلہ میں ہم ہیں وہ اسی سے ہے یہ وہ چیز جو مجھ حقیر کمی کے قیدی کے لئے ظاہر ہوئی اور اللہ سبحانہ، تعالی زیادہ عالم ہے اور لیکن سائل کا قول، خدا اس کا علم میں زیادتی کرے کہ مطلقا تقبیل سے نہی ثابت ہوچکی ہے خواہ ہاتھ، پاوں یا اعضاء انسان میں کسی اور عضو کا بوسہ لینا ہو، جیسے ابن ابى شيبہ کی کتاب میں ابی ریحانہ ؓ کی حدیث ہے پس اس کا جواب کئی وجود سے ہے، پہلی وجہ تویہ ہے کہ سائل نے رجال حدیث کاذکر نہیں کیا اورنہ ہی اس کے الفاظ کا، تاکہ ا س کے متن اور رجال کو دیکھا جائے اور ابن ابى شيبہ ان مصنفوں سے نہیں ہے جنھوں نے اپنی کتا ب کی صحت کی شرط لگائی ہے بلکہ اس کی کتاب میں احادیث، صیح، حسن اور ضعیف گری ہوئی ہیں

الوجه الثانى ان الاحاديث الواردة فى تقبيل اليدوالرجل والبطن والخدوالفئم فى ابى داود- ومصنف الحافظ ابى سعيداحمد بن محمد بن زيادن النعروف بابن الاعرابى احدتلامذة ابى داودراوى سننه عنه تخالف مانقله السائل عن مصنف ابن ابى شيبة فهى مقدمة واصح فلنذكرمن ذلك ماينشرح له الصدران شاءالله- اخرج الترمذى فى جامعه قال حدثناابوكريب عبدالله بن ادريس وابواسامة عن شعبة عن عمروبن مرة عن عبدالله بن مسلمة- عن صفوان بن عسال قال قال يهودى لصاحبه اذهب بناالى هذا النبى فقال صاحبه لاتقل نبى فانه لوسمعك كان له اربعة اعين فاتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالاه عن تسع ايات بننات- فقال له تشركوابالله شيئاولاتسرفوولاتزنواولاتقلواالنفس التى حرم الله بالحق ولاتمشواببرىء الى ذى سلطان ليقتله

دوسری وجہ یہ ہے، کہ بیشک وہ احادیث جو ہاتھ، پیر، پیٹ رخسار ہ اور منہ کا بوسہ لینے میں ابى داود، اور حافظ ابی سعیداحمد بن محمد بن زیادجوکہ ابن الاعرابی کے ساتھ معروف ہیں کی کتاب میں وارد ہونے والی مخالف ہیں سائل کی نقل کی ہو ئی ابن ابی شیبہ والی حدیث کے  (ابن الاعرابی امام ابى داود کے تلامذہ میں سے ہے) پس یہ احادیث مقدم ہیں اور اس سے اصح ہیں پس ہم وہ احادیث ذکر کرتے ہیں جن سے سائل کا شرح صدر ہوجائیگا، انشاءاللہ، امام ترمذی اپنی جامع ترمذی شریف میں لائے ہیں وہ روایت کرتے ہیں ابوکریب عبداللہ بن ادریس سے اور ابواسامہ شعبہ سے وہ عمروبن مرہ سے وہ عبداللہ بن سلمہ سے وہ صفوان بن عسال سے راوی کہتا ہے یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا میرے ساتھ اس نبیؐ کے پاس چلو اس کے ساتھی نے کہا نبیؐ مت کہو، کیونکہ ہوسکتا ہے وہ اسے سن لے اس کے لئے چار آنکھیں ہیں تو وہ دونوں رسول کریمؐ کے پاس آئے اور آپؐ سے تو واضح آیات کے متعلق دریافت کیا،  آپؐ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کسی کو مت ٹھہراو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، اور جن جان کو اللہ نے حق کے بغیر مت قتل کرو، اور برمی انسان کو بادشاہ کے پاس نہ کے جاو، تاکہ وہ اسے قتل کر ے

ولا تسحرواولاتاكلواالربا ولاتقذفوامحصنة ولاتولوايوم الزحف و عليكم خاصة معشراليهودان لاتعتدووانى السبت قال نقبلا يديه ورجليه الحديث رواه الامام احمد و الترمذى وقال هذا حديث حسن صحيح- واخرجه ايضا النسائى وابن ماجة وابن جريرفى تفسيره وهو مشكل لان عبدالله بن سلمة فى حفظه قدتكلموافيه ولعله انقلب عليه التسع بالعشر الكلمات فانها وصايا فى التوراة لاتعلق لها لقيام الحجة على فرعون انتهى- واخرج ابوداود من حديث الزارع وكان فى وفدعبدالقيس قال فجعلنا نتبادر من رواحلنا فتقبل يد رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجليه الحديث واخرج ابوداود من حديث ايضا من حديث عبدالرحمن بن ابى ليلى ان عبدالله بن عمرحدثه وذكرقصة قال فدنونا يعنى من النبى صلى الله عليه وسلم فقبلنايده- وعن بريدة رضى الله عنه قال جآءاعربى الى النبى صلى الله عليه وسلم

اورجادو نہ کرورباکو مت کھاواورپاکدمن کو تہمت نہ لگاواورلڑائی کے دن پیٹھ مت پھیرو اور اے یہود کے گروہ تم پر خصوصا یہ ہے کہ ہفتہ کے دن میں زیاتی مت کرو راوی کہتے ہیں ان دونوں نے آپؐ ے ہاتھ پیر کا بوسہ لیا اسے امام حمداور ترمذی لائے ہیں اور ترمذی نے فرمایا ہے یہ حدیث حسن وصیح ہے، اور اسے نسائی اور امام ابن ماجہ اور ابن جریر اپنی تفسیر میں لائے ہیں اور یہ مشکل ہے کیونکہ عبداللہ بن سلمہ کے حافط میں محدثین نے کلام کیا ہے اور شاید کہ اس پر نو دس کلمات کے ساتھ بدل گئے ہیں کیونکہ یہ تو ارات میں وصایا ہیں ان کا تعلق فرعون پر حجت قائم کرنے سے کہا ہے، اور امام ابوداود زراع کی حدیث لائے  ہیں اور وہ عبدالقیس کے وفد میں تھا کہا راوی نے پس شروع ہوئے ہم اپنی سواریوں سے سبقت لے جاتے تھے تاکہ ہم رسول کریمؐ کے ہاتھ پاوں کا بوسہ لیں امام ابوداودحدیث عبدالرحمن بن ابی لیلی عن عبداللہ بن عمرؓ والی بھی لائے ہیں کہ عبداللہ بن عمرؓنے اسے حدیث سنائی اور ایک قصہ ذکر کیا کہا اس نے ہم رسول کریم ﷺکے قریب ہوئے اور ہم نے آپؐ کے ہاتھ اور آپؐ کے پاوں کا بوسہ دیا، اور بریدہ  رضى الله عنہ سے بھی لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک جنگلی رسول کریم ﷺ

فقال يارسول الله انى اسلمت فادنى شيئا ازدادبه يقينا قال ما تريدقال ادع تلك الشجرة فلتا تك قال اذهب اليها فادعها وقل لها اجيبى رسول الله صلى الله عليه وسلم فمالت فقطعت عروقها وفروعها حتى اتت النبى صلى الله عليه وسلم فقالت السلام عليك فقال حسبى قال فمرها فلترجع فرجعت فدلت عروقهانى ذلك المكان ثم استوت كما كانت فقال ايذن ان اقبل راسك ورجليك فاذن له صلى الله عليه وسلم فقبل راسه ورجليه قال اذن لى ان اسجد لك قال لا يسجد احد لاحد ولوكنت امر احد ان يسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجهاتعظبما لحقه،  رواه الحاكم فى المستدرك وابن الاعرابى رسالته فى التقبيل والمعانقة والمصافحة الحافظ بن حجر فى فتح البارى وقال الحافظ فى فتح البارى وقدجمع الحافظ ابوبكربن المقرى جزءفى التقبيل سمعناه وادردفيه

کے پاس آیا اور اس نے کہا یا رسولؐ اللہ میں اسلام لے آیا ہوں مجھے ایسی چیز دکھائیے جس سے میرا یقین زیادہ ہوجائے آپؐ نے فرمایا تیرا کیا ارادہ ہے، اس نے  کہا میں اس درخت کو بلاوں پس وہ آپؐ کے پاس آجائے آپؐ نے فرمایا اچھا اس درخت کی طرف جاو اور اسے کہو رسول کریم ﷺکو جواب دے پس وہ درخت جھک گیا تو اس انسان نے اس کی شاخیں اورجڑیں کاٹ کر رسول کریم ﷺکے پاس لے آیا پس انہوں نے آکر کہا آپؐ پر سلام ہو اس انسان نے کہا  پس مجھے اتنی نشانی کافی ہے آپؐ نے فرمایا اسے حکم دے کہ لوٹ جائے پس وہ گئیں پس اس کی جڑیں اس جگہ میں مائل ہوگئیں پھر سیدھی ہوگئیں پس اس انسان نے عرض کی کہ رسول اللہ ﷺمیرے لئے اجازت مرحت فرمائیں کہ میں آپؐ کے سر اور پاوں کو بوسہ دیا اس نے کہا میرے لئے آپؐ کو سجدہ کرنے کی اجازت عطا فرمائیں آپؐ نے فرمایا کوئی انسان دوسرے کو سجدہ نہ کرے اور اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کا حکم دیتا تو میں عورت کواس کے خاوند کے لئے سجدہ کا حکم دیتا اس خاوند کے حق کی تعظیم کے لئے الحدیث، اسے حاکم نے مستدرک میں نکلا ہے اور ابن الاعرابی اپنے رسالہ التقبیل والمعافتہ میں اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری میں اور تحقیق حافظ ابوبکر بن المقری جزء فی التقبیل سمعناہ نامی رسالہ جمع کیا ہے اور اس میں انہوں نے بہت

احاديث كثيرةواثارافمن جيدها حديث الزارع العبدى وكان فى وفدعبدالقيس قال فجعلنا نبادرمن رواحلنا فنقبل  يد النبى صلى الله عليه وسلم ورجليه اخرجه ابوداودمن حديث مزيدة العصرى مثله ومن حديث اسامة بن شريك قال قمنا الى النبى صلى الله عليه وسلم فنقبل  يده- وسنده قوى ومن حديث جابر ان عمر قام الى النبى صلى الله عليه وسلم فنقبل  يده- ومن حديث بريدة فى قصة الاعرابى والشجرة فقال يا رسول الله ايذن لى ان اقبل راسك ورجليك فاذن له – واخرج البخارى فى الادب المفرد من رواية عبدالرحمن بن رزين قال اخرج لنا سلمة بن الاكوع كفا ضحمة كانها كف بعير فقمنا اليها فقبلنا ها – وعن ثابت انه فبل يدانس و اخرج ايضا ان عليا قبل يدالعباس ورجله – واخرج ابن المقبرى واخرج من طريق ابى مالك الاشجعى قال قلت لابن ابى اوفى نادلنى يدك التى بايعت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم

سی احادیث وارد کی ہیں ان تمام سے عمدہ حدیث زراع عبدی کی ہے اور وہ عبدالقیس کے وفد میں تھا راوی کہتا ہے پس شروع ہوئے ہم اپنی سواریوں سے سبقت لے جاتے تھے تاکہ رسول کریمؐ کے ہاتھ پاوں کا بوسہ لیں ۔ اورامام ابی داود مزیدہ العصری کی حدیث اس طرح کی لائی ہیں اور امسامہ بن شریک بھی وہ کہتے ہیں ہم رسول کریمﷺکی طرف کھڑے ہوئے پس ہم نے اپنے ہاتھ کا بوسہ لیا ۔ اور اس کی سند قوی ہے اور جابرؓ کی حدیث سے کہ بیشک حضرت عمر ؓ فاروق رسول کریمﷺکی طرف کھڑے ہوئے اور آپؐ کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ اور بریدہؓ والی حدیث اعرابی اور سنجرہ  (درخت) والے قصہ والی اس اعرابی نے کہا، یا حضرت ﷺمجھے اپنے سر اور پاوں کو بوسہ دینے کی اجازت دیجیئے آپؐ نے اجازت اسے عطا فرمادی، اور امام بخاری الاب المرد میں عبدالرحمن بن رزین کی حدیث لائے ہیں راوی کہتے ہیں ہمارے لئے سلمہ بن اکوع نے ایک موٹی ہتھیلی تھی نکالی ہم اس کی طرف کھڑے ہوئے اور اس کو بوسہ دیا، اوراسے ابن المقری لائے ہیں اور ابی مالک اشجعی کے طریق سے لائے ہیں روای کہتا ہے میں نے ابن ابی اوفی ؓ سے کہا مجھے اپنا وہ ہاتھ پکڑاجس سے آپ نے رسول کریمﷺ

فنا ولنيها فقبلتها وعن عمرانهم لمارجعوامن الغزوحيث فرواقالوانحن الفرارون فقال بل انتم العكادون وانا فئة المومنين قال فقبلنا يده وقبل ابو امامة وكعب بن مالك وصاحباه يد النبى صلى الله عليه وسلم حين تاب الله عليهم ذكره الابهدى وقبل ابوعبيدة يدعمر حين قدم وقبل زيد بن ثابت يدابن عباس حين اخذابن عباس بركابه قال الابهرى وانماكرهها مالك اذاكانت على وجه التكبيروالتعظيم واما اذاكانت على وجه القربة الى الله لدينه اولعلمه اولشرفه فان ذلك جائز انتهى كلام الحافظ بن حجر قى فتح البارى وقال فى فتح البارى ايضا قال لانووى تقبيل يدالرجل لزهده وصلاحه او علمه اوشرفه اوصيانته او نحوذلك من الامور الدينية لايكره

کی بیعت کی ہےپس اس نے وہ ہاتھ پکڑا یا پس میں اس کو بوسہ دیا اور حضرت عمر فاروق رضى الله عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ اس لڑائی سے واپس آئے جہاں وہ بھاگ گئے تھے، تو صحابہ (رضوان اللہ علیہ اجمعین) نے کہا کہ ہم تو بھاگنے والے ہیں تو رسول الله صلى الله عليہ وسلمٍ نے فرمایا بلکہ تم تو دوبارہ حملہ کرنے والے ہو اور میں مومنوں کے لئے بمتطرلہ غنیمت کے ہوں روایؓ کہتے ہیں، پس ہم آپؐ کے ہاتھ کو بوسہ دیا، اور ابوامامہ اورکعب بن مالک اوع اس کے دونوں ساتھیوں نے  جب کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی تو رسول کریم ﷺ کے ہاتھ کو بوسہ دیا اسے ابھری نے ذکر کیا ہے اورحضرت ابع عبیدہؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے آنے کے وقت ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابن عباس ؓ کے ہاتھ کو بوسہ دیا جب کہ انہوں نے ان کے گھوڑے کی رکاب پکڑی تھی ابھری فرماتے ہیں اور امام مالک نے اسے صرف اس وجہ سے مکروہ خیا ل کیا ہے جب کہ یہ بڑے بننے اور تعظیم کے لئے ہو اور لیکن جب یہ نیکی کے لئے ہواللہ سے اس کے دین علم اور شرف کی وجہ سے تو تحقیق یہ جائز ہے امام نووی فرماتے ہیں کہ آدمی کے ہاتھ کا بوسہ اس کے زہد، اصلاح، علم شرفاورپاکدامنی کی وجہ یا کسی اور دینی کام کی وجہ سے تو پھر مکروہ نہیں بلکہ

بل يستحب فان كان لغناه اوشوكته اوجاهه عنداهل الدنيا فمكروه شديدالكراهة وقال ابوسعيدالمتولى لايجوزانتهى - واخرج ابوداود من حديث عائشة فى قصة الافك قالت ثم قال النبى صلى الله عليه وسلم  البشرى ياعائشة فان الله قدانزل عذرك وقرأعليها القران فقال ابواى قومى فقبلى راس رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت احمدالله عزوجل لااياكما واخرج ابوداود من حديث الشعبى مرسلاان النبى صلى الله عليه وسلم تلقى جعفر بن ابى طالب فالتزمه وقبل مابين عينيه - واخرج ابوداود ايضا من حديث اياس بن دغفل قال رايت ابانضرة قبل خداالحسن رضى الله عنه واخرج ابوداود من حديث البراء قال دخلت مع ابى بكراول ما قدم المدينة فاذاعائشة ابنته مضطجعة قداصابتها حمى فاتاهاابوبكرفقال

مستحب ہے اور اگر اس کی مالداری شوکت اورمرتبہ کی وجہ سے ہودینا والوں کے نزدیک تو پھر سخت مکروہ ہے اور ابوسعید متولی کا تو کہنا ہے کہ یہ جائز ہی نہیں، اور امام ابعداود حضرت عائشہ کی حدیث  قصہ الافک کے بارے میں لائےہیں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریمﷺنے کہا اے عائشہ خوش ہوجا تحقیق اللہ تعالی نے تیرا عذراتارااورآپؐ نے حضرت عائشہ پر قرآن پڑھا تو میرے والدین نے مجھے کہا کھڑی ہورسول کریمﷺکے سر کو بوسہ دے تو میں نے عرض کی کہ میں تو اللہ عزوجل کی تعریف کرتی ہوں نہ کر تمہاری، اورابوداودشعبی کی حدیث لائے ہیں مرسل کہ بیشک رسول اللہ ﷺحضرت جعفر بن طالب سے ملے پس اسے چمٹ گئے اور اس کی پیشانی کا بوسہ کیا، اورامام داودنیز ایاس بن دغفل کی حدیث بھی لائے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے ابانضرہ کو حضرت حسنؓ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا اور امام ابی داود براءکی حدیث لائے ہیں وہ کہتے ہیں جب میں مدینہ میں پہلے پہل آیا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ داخل ہو ا اچانک ان  کی بیٹی حضرت عائشہ لیٹی ہوئی تھی انہیں بخار ہوگیا تھا، تو اس کے پاس حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لے گئے اور اسے کہا اے بیٹی تیرا کیا حال ہے اورا س کے رخسار کا بوسہ لیا،

واخرج ابوداودفى باب قبلة الجسد من حديث اسيدبن حضير رجل الانصار قال بينماهويحدث القوم وكان فيه مزاح بينا يضحكهم فطعنه النبى صلى الله عليه وسلم فى خاصرية بعودفقال اصبرنى قال اصطبر قال ان عليك قميصا ليس على قميض فرفع النبى صلى الله عليه وسلم فى تميصه فاحتضنه وجعل يقبل كشحه قال انما اردت هذا يارسول الله –

واخرج الحافظ ابوسعيد احمدبن محمدالمعرف بابن الاعرابى تلميذابى داود راوى سننه عنه فى رساته كتاب القبل والعانقة والمصافحة من حديث ابى ثعلبة الخشبنى قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذاقدم من سفر اوغزوبدابالمسجد فصلى ركعتين ثم ثنى لفاطمة رضى الله  عنها ثم بازواجه قال فتلقنه فاطمة رضى الله  عنها فاعتنقنه فجعل يقبل فاه وعينيه قال ان الله بعث اباك بامرلايبقى بيت مدرولاشعر الاادخله الله

اور امام ابوداود جسم کے بوسہ دینے کے باب میں انصار کے انسان اسید بن حفیر کی حدیث لائے ہیں راوی کہتے ہیں میں قوم سے بات کررہا تھا جس میں واضح مذاق تھا، جو انہیں ہنسارہا تھا تو رسول کریمﷺنے اس کے پہلومیں ایک لکڑی سے ضرب لگائی تو راوی نے کہا مجھے قصاص دیجئیے آپؐ نے فرمایا قصاص لے لو اس نے  کہا آپؐ پر تو قمیض ہے اور مجھ پر قمیض نہیں تھی پس رسول کریمﷺنے اپنے جسم سے کپڑے کو اٹھایا پس وہ آپؐ سے چمٹ گیا اور آپؐ کےپہلو کا بوسہ لینے لگا اس نے عرض کی یا رسول ؐاللہ میں نے تو اس کا ارادہ کیا تھا، اور حافظ ابو سعید احمدبن محمد المعروف بابن اللعرابی امام ابی داود کے شاگرد اور ان کی سنن کے راوی ان سے، اپنے رسالہ کتاب القبل والمعانقتہ والمصافتہ میں ابی ثعلبہ خشنیؓ کی حدیث لائے ہیں راوی کہتے ہیں  رسول کریمؐ جب کسی سفر یا لڑائی وغیرہ سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں آئے اور وہاں دورکعات ادا فرماتے پھر حضرت فاطمہؓ کے پاس پھر اپنی بیویوں کے ہاں راوی فرماتے ہیں آنحضرت ؐ سے حضرت فاطمہؓ الذہرؓ ملی پس اس نے آپؐ سے معانقہ کیا پس آپؐ اس کی آنکھ اور منہ کو بوسے دینے لگے آپؐ نے فرمایا بیشک اللہ تعالی نے تیرے ابا جان کو ایسے کام کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے کہ نہ کوئی مکان اور نہ کوئی خیمہ باقی رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس کی وجہ سے اسے

به عزاوذلاحتى يبلغ حيث بلغ وفيه باسناده عن عكرمة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان اذا قدم من سفر من مغازيه قبل فاطمة رضى الله  عنها وفيه باسناده ان خلدبن الوليد استشاراخته فى شئى فاشارت عليه فقبل فاها وفيه فى باب قبلة البطن والجسد باسناده عن الحسن بن على مرسلا ان النبى صلى الله عليه وسلم تقى رجلامختضباباصفرة وفى يد النبى صلى الله عليه وسلم جريدة فقال النبى صلى الله عليه وسلم حط حط ورس قال فطعن بالجريدة فى بطن الرجل فقال الم انهك عن هذاافاثر فى بطنه حتى ادماه فقال الرجل القوديارسول الله فقال من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقتص فقال مالبشرة احدفضل على بشرتى قال فكشف النبى صلى الله عليه وسلم عن بطنه ثم قال اقتص فقبل الرجل بطن النبى صلى الله عليه وسلم وقال ادعها لعلك تشفع لى بها يوم القيمة –

عزت یا ذلت دے گا حتی اپنے مبلغ کو پہنچ جائیگا، اور اسی میں اس سند سے عکرمہؓ سے روایت ہے کہ جب رسول کریمﷺبعض لڑائیوں کے سفر سے واپس تشریف لاتے تو حضرت فاطمہؓ الزہراؓ کابوسہ لیتے اور اسی کتا ب میں اسی اسناد سے ہے کہ تحقیق حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اپنی بہن سے کسی کام سے مشورہ طلب کیا پس اس نے آپؐ پر اشارہ کردیا پس حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے منہ کو بوسہ دیا، اسی طرح ابوسعید کے راسالے کتاب القبل  والمعانقتہ والمصافتہ کے باب قبلتہ البطن والجسدامیں بمع سند مروی ہے حضرت حسن بن علی کی مرسل روایت ہے کہ آنحضرت ؐ ایک ایسے آدمی سے ملے جس نے زرد رنگ استعمال کیا ہوا تھا،  آنحضرت ؐ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپؐ نے اسے کہا کہ ورس (بوٹی) کا اتاردو، اتاردواوریہ کہتے ہوئے کہ میں تجھے اس رنگ سے روکانہ تھا اس کے پیٹ پر چھڑی ماری حتی کہ زخم ہوگیا، اس آدمی نے قصاص کامطالبہ کیا آپؐ نے فرمایا رسول خدا سے قصاص لوگے کیا ؟  تو وہ کہنے لگا کہ میرے جسم پر کسی کے جسم کو فضیلت حاصل نہیں ہے آنحضرتؐ نے پیٹ ننگاکرتے ہوئے فرمایا کہ قصاص لے لو اس شخص نے بڑھ کرآنحضرتؐ کا پیٹ چوم لیا اور کہنے لگا کہ میں قصاص اس لئے چھوڑ دیتا ہوں کہ آپؐ اس کو عوض قیامت کہ میری  شفاعت فرمائیں،

وفيه باب قبلة السرة عن عمربن اسحاق قال كنت امير مع الحسن بن على فى بعض طرق المدينة فلقيه ابوهريرة فقال جعلنى الله فداك اكشف لى عن بطنك حتى اقبل الموضع الذى رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبله فكشف عن بطنه فقبل سرته –

فهذه الاحاديث والاثارالواردة عن الصحابة فى تقبيل اليدوالرجل والجسد والفم والخدوالبطن والسرة والكشح كلها صريح تقبيل هذه المواضع المذكورة فهى مقدمة على ما رواه ابن ابى شيبة من النهى عن تقبيل عضومن اعضاءالانسان على فرض صتحته اومحمول على مااذاكان لغيرغرض دينه اونحوامراداوامراة اجنبية والله سبحانه وتعالى اعلم – واماقول السائل كثرالله فوائدة وهل وردفى كيفية تقبيل الرجل حديث فجوابه

اسی طرح باب : قبلتہ السرۃ:میں عمر بن اسحاق کی روایت ہے کہ میں مدینہ منورہ کی کسی گلی میں حسن بن علی کے ساتھ جارہا تھا راستے میں حضرت ابوہریرۃؓ ملے فرمانے لگے میر ی جان آپ پر قربان آپ پیٹ ننگا کیجئیے تاکہ میں اس جگہ بوسہ دوں جہاں نبی اکرمؐ بوسہ دیتے ہوئے میں نے دیکھا ہے حسن نے اپنا پیٹ ننگا کیا تو ابوہریرہ نے اس کی ناف کا بوسہ لیا، صحابہ کرام ؓ سے مروی یہ احادیث واثارہاتھ، پاوں، جسم، منہ، رخسار، پیٹ ناف اور کمر کے بوسے کے بارے میں بالکل صریح ہیں اور ان مقامات کے بوسے کے جواز پر دال ہیں ابن ابی شیبہ کی روایت کو بالغرض صیح بھی مان لیا تو یہ روایا ت بوجہ کثرت اس پر مقدم ہونگی،  (جس میں ہر انسانی عضو کے بوسے کی ممانعت آتی ہے) یا پھر غیر دینی اغراض اور اجنبی عورت اور امرلڑکے پر محمول ہوگی واللہ سبحانہ وتعالی اعلم:،

اور یہ سوال کہ پاوں چومنے کی کیفیت کیا ہے کیا اس بارے میں کوئی حدیث ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ۔

لم اقف على ذلك لكن معرفة ذلك بالاستقراءغيرمخفية وهو انه لايحصل الا بانحناءغيران الفقهاءذكروافى كيفية تقبيل الحجرالاسودوالركن اليمانى بان يضع الرجل شفتيه على ماذكرمن غيردفع صرته بذلك وذلك لايحصل بدون الانحناءفهناكذلك والله سبحانه وتعالى اعلم و و صلى الله على خير خلقه محمدواله وصحبه وسلم –

حرره امجيب الحقير الفقير الى احسان ربه الكريم البارى حسين بن محسن الانصارى اليمانى السعدى الخزرجى عفاالله عنه – امين

نورالعین فتاوی شیخ حسین ص ۲ تا ص۴۰

مجھے کسی حدیث کا علم نہیں ہے، البتہ استقراءسے اس کی معرفت آسان اور واضح ہے کہ وہ انحناء (جھکاو)  کے بغیر ممکن نہیں ہے فقہائے حجراسوداوررکن یمانی کے بوسے کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اس پر آدمی اپنے ہونٹ رکھے اور تھوک نہ لگنے دے انحناءکے بغیر تو یہ بھی ہوسکتا پاوں کو اسی پر قیاس کیا جائیگا،  وصلى الله على خير خلقه محمدواله وصحبه وسلم،

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 200-221

محدث فتویٰ

تبصرے