سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81) اس سوال کا جواب جو حگولیہ مذہب کی طرف مائل ہونے پر مشتمل ہے

  • 6539
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1170

سوال

(81) اس سوال کا جواب جو حگولیہ مذہب کی طرف مائل ہونے پر مشتمل ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جواب عن سوال تضمن المیل الی مذھب الحلولیتہ

اس سوال کا جواب جو حگولیہ مذہب کی طرف مائل ہونے پر مشتمل ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسم الله الرحمن الرحيم-الحمدلله رب العالمين والعاقبة للمتقين ولاعدوان الاعلى الظلمين- الجوابواللهاالمرفق لاصابة الصواب لايخفى ان هذا السوال قداشتمل على الفاظ قبيحة موحشة تدل على الميل الى مدهب الحلولية مثل قوله ان الله قديم تلبس بالحاديث الخ ومنها ان الله ليس بجسم فان ارادانه ليس بجسم كالاجسادفصحيح واماقوله ولاباسم فان ارادان الذات المقدسة ليس لها اسم فغير صحيح لانه مخالف لصريح الايات القرانية والاحاديث النبوبة قال الله تعالى ولله الاسماء الحسنى فادعوه بها وفى الحديث الصحيح ان لله تسعة وتسعين اسما مائة الاواحدامن احصاها دخل الجنة ومنها تفسيره لااله الاالله بان الاصنام وات الله تعالى عن ذلك علواكبيرا وفيها قوله اى احدى بلباس احمدى الخ وفيها ان معنى قوله صلى الله عليه وسلم ان امتى ستفترق

میں اللہ رحمن ورحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں سب تعریفیں پروردگار جہان کے لئے ہیں اور تفرت پرہیزگاروں کے لئے ہے اور زیادتی کرنیوالوں پرہی ہوگی، الجواب:۔ اور اللہ ہی درستگی تک پہنچنے کی توفیق دنیوالا ہے پوشیدہ نہ رہے کہ بیشک یہ سوال تحقیق بہت قبیح الفاظ پر مشتمل ہے جو کہ حلویہ مذہب کی طرف مائل ہونے پر دلالت کرتے ہیں مثلا مسائل کا قول، کہ بیشک اللہ قدیم ہے اور احادث کے ساتھ ملتبس ہے اور ان میں سے یہ بھی کہ بیشک اللہ جسم نہیں ہے پس اگر اس نے ارادہ کیا ہے کہ وہ دوسرے اجسام کی طرح جسم نہیں تو صیح ہے اور لیکن اس کا یہ کہنا کہ اللہ نام کے ساتھ نہیں، پس اگر اس نے مراد لیا ہے  کہ بیشک ذات مقدسہ کے لئے نام ہی نہیں، پس یہ غیر درست ہے کیونکہ یہ صریح قرآن کی آیات اور احادیث نبویؐ کے مخالف ہے فرمان خدا ہے اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہے پس اسے ان ناموں سے پکارو  (الایتہ) اور صیح حدیث میں ہے کہ بیشک اللہ کے لئے ۹۹نام ہیں ایک کم سوجس نے ان تمام کو شمار کیا جنت میں داخل ہوجائینگے اور انہی میں سے سائل کا لااله الاالله کی تفسیر کرنا ہےکہ بیشک بت اللہ کی ذات ہیں اللہ تعالی اس سے بہت بلند ہے اور انہی میں سے ایک احد کو احدی پڑھنا احمدی کے

ثنتان وسبعون فرقة كلها فى النار الاواحدة وان المرادبهذا الفرقة الواحدة الوجودية اى اهل وحدة الوجود وان علماء اشرعية الماشين على ظاهر الشرعية والمنكرين لوحدة الوجود ضلال على مازعمه وغيرذلك مما حواه السوال من الاباطيل المزخرقة فهذا كله يدل على جهله ومما يخشى على قائله الكفر بذلك ان لم يتب ومنها قوله ان العالم عين ذاته عزوجل فان ذلك كفر صريح للفرق بين القديم والمحدث فان العالم حادث وكل حارث كيف يكون عين القديم سبحانك هذابهتان  عظيم- وارتكائه لهذه الالفاظ القببيحة الواهية المزكورة فى السوال مبنى على القول بوحدة وان كل شئى عين الحق بكل ذلك ضالال قبيح وانك صريح وعدم معرفته بوحدة الوجود التى تفوه بها كثير من جهلة الصوفية من غير معرفة حقيقها فلنذ كرما قاله المحققون فى ذلك حتى يتضح لك جهل مرتكب هذه الاقوال القبيحة فنقول قال

طرح الخ:اور انہی میں سے یہ ہے کہ بیشک رسول کریمﷺکے فرمان میری امت عنقریب بہتر فرقے بن جائے گی تمام کے تمام آگ میں ہوں گے مگر صرف ایک کے متعلق کہنا کہ بیشک اس ایک فرقہ سے مراد وجودیہ گروہ ہے یعنی وحدت الوجودکے قائل، اور بیشک علماءشریعت ظاہر شریعت پر عمل کرنیوالے اور وحدت  الوجود کے منکر گمراہ ہیں اس کے گمان کے مطابق اوردوسرے باطل خرافات جن پر اس کا سوال مشتمل ہے پس یہ تمام اس کی جہالت پر دال ہیں اور ان کے قائل پر کفر کا خطرہ ہے ان کی وجہ سے اگر توبہ نہ کرے تو اور انہی میں سے اس کا کہنا، کہ بیشک عالم اللہ کا عین ہے پس ا س کا اعتقاد رکھنا صریح کفر ہے کیونکہ قدیم اور حادث میں بڑا فرق ہے کیونکہ سارا عالم حادث ہے اور ہر وہ چیز جو حادث ہو وہ قدیم کا عین کیسے ہوسکتی ہے پاک ہے تو اللہ یہ بڑا بہتان ہے، اور سوال میں جن بیہودہ اور قبیح الفاظ کا ذکر ہے ان کا ارتکاب کرنا، وحدت الوجود کااعتقاد رکھنے پر مبنی ہے اور ہر چیز اللہ کا عین ہے کے اعتقاد پر پس یہ سب کچھ قبیح گمراہی ہے اور صریح جھوٹ ہے اور سائل کا وحدت الوجودکو نہ سمجھنا ہے جس کی حقیقت پہچننے کے بغیر اکثر جاہل صوفی بولتے ہیں اس بارے میں کچھ محققین نے فرمایا ہم اسے آپ کے سامنے پیش کریں گے تاکہ ان قبیح اقوال کے مرتکب کی جہالت آپ کے لئے واضح ہوجائے پس ہم عرض کرتے ہیں، کہ شرح عقائد میں علامہ شیخ ابراہیم کردی فرماتے

العلامة الشيخ ابراهيم الكردى فى شرح العقائد مالفظه وقولنا لااله الاالله ولاخالق لما يشاء الاالله ولاواجب لذاته الاالله ولاوجودفى الازل الاالله دال على ان وجوب الوجود وبقية الكمالات التابعة للوجود كلها الله سبحانه بالذات فقددلت على انه كان ولم يكن شئى غيره وعلى انه كان قبل كل شئى كما وردفى الصحيح فليس للمكنات الموجود شئى فى الازل سوى الثبوت فى علم الحق سبحانه وتعالى من غيرافتتاح ولااختتام بالدوام لانه الاول والاخرمن غيرطار له ولازوال كما هومعلومه وهو بكل شئى على الدوام عليم- فالتوحيد افرادالقديم من المحدث فى جميع المراتب وما يتفرع منها التى يتضمزمالااله الاالله امافى الازل فالحق له الوجود الممكن له الثبوت فى علم الله  وامافيهالايزال فالحق له الوجود لذاته والممكن الوجود بالله لابذاته وليس له من الكمالات كالعلم والقدرة وغير هما

ہیں ان کے الفاظ یہ ہیں اور ہمارا کہنا، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ کے بغیر جو چاہے اسے پیداکرنیوالا کوئی نہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی واجب الذات نہیں اور اللہ کے سوا ازل میں کوئی موجود نہیں، دلالت کرتا ہے کہ بیشک تمام صفات واجب الوجود ہونا اور دوسرے کمالات جو کہ وجود کے تابع ہیں اللہ سبحانہ کے لئے بالذات ہیں پس تحقیق ان دلائل نے دلالت کی کہ بیشک اللہ تعالی تھا اور اس کا غیر نہ تھا اور اس پر بھی کہ وہ ہر چیز سے پہلے تھا جیسے کہ صیح میں آیا ہے پس اللہ تعالی کے علم میں ثبوت کے علاوہ ان موجودہ ممکنات میں سے کچھ بھی ازل میں نہ تھی سوائے شروع اور ہمیشہ تک ختم ہونیکے کیونکہ وہ اللہ تعالی ہی زوال اور ختم کے ہونے بغیر اول واخر جیسے کہ وہ معلوم ہیں اور ہمیشہ چیز کو جاننے والا ہے پس توحید نام ہے قدیم کے محدث سے تمام مراتب میں اور  تمام ان اشیاء میں جن کو کلمئہ شہادت مشتمل ہے متفرد ہونیکا لیکن ازل میں تو اللہ کے لئے وجود ہے اور ممکن کے لئے علم اللہ میں ثبوت ہے اور لیکن اس میں مو ہمیشہ نہ رہے پس اللہ کے لئے وجود لذاتہ ہے اور ممکن کا وجود اللہ کے وجود کے سبب ہے بذات نہیں ہے اور اس کے لئے علم وقدرت اور دوسرے کمالات صرف وہی حاصل ہیں، مگر جو اللہ تعالی نے اسے دیئے جو اس کے لئے لائق تھے، اللہ کی حکمت میں کیونکہ یہ ممکنات ازل میں حقیقتین ہیں اللہ سبحانہ کے

الامااعطاه الله بحسب مايليق به الحكمته الالهية فانهااى الممكنات حقائق فى الازل ثابتة فى علم الحق سبحانه متصفة بالعدم الخارج قابلة للوجوداذارادالحق ايجادهافيه و كلما كان كذلك فلاوجودله الابغيره فالوجود لذلك الغيرلاله وهوواضح فلاموجود فى الحقيقة الاالله وكلماسواه من الممكنات فانماهى موجودة به تعالى ولولاه لم يكن فهو معدوم لزاته موجودبالله فلاحول ولاقوة لاحدمن لممكنات الابالله وكذلك سائرالكمالات و انرادالقديم من المحدث فى جميع هذه المراتب التى يتضمنها لااله الاالله لاينافى وحدة الوجودوقول المحققين كالامام الغزالى وغيره يس فى الوجود غيره المرادمنه كما سيتضح انه ليس معه غيره موجود ثان مستقلاباموجود ولاشك ان وجود الممكن لكونه مفاضا من الحق سبحانه وتعالى ليس وجودامستقلاثانيالوجودالحق حتى يوصف الحق سبحانه وتعالى بانه معه غيره وان كان متحيزاعنه فى الاحكام فان افرادالقديم من المحدث فيما يقع به التمييزبينهما من الاحكام لايستلزم ان يكون وجود الممكن مستقلاثانيا لوجود الحق

علم میں ثابت ہیں عدم خارجی کی صفت سے موصوف ہیں جب اللہ تعالی ان کے ایجادکرنیکا ازل میں ارادہ کرے تو وجود کو قبول کرنے والی ہیں اور جب کہ یہ اس طرح ہوئیں تو ان کا وجودبغیرہ ہوپس  وجود ان کا غیر کے لئے ہوا بذات نہ ہوا اور یہ واضح ہے پس حقیقت میں صرف اللہ ہی موجودہے اور اس کے سوا تمام ممکنات اللہ کے ساتھ ہیں اور اسی طرح تمام کمالات اور قدیم کا محدث سے ان اشیاءمراتب سے الگ ہونا جن پر لااله الاالله مشتمل ہے یہ وجودکے ایک ہونے کے منافی نہیں ہے اور امام غزالی وغیرہ محقیقین کا قول کہ وجودمیں اس کے سوا کوئی نہیں اس سے مراد یہ ہے جیسے کہ آپ کے لئے واضح ہوگا کہ اس کے ساتھ کو ئی دوسرا مشتمل وجودوالا نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی طرف منسوب کرنے کے ساتھ ممکن کے وجودکا ہونا یہ کوئی اللہ تعالی کے لئے دوسرا مشتمل وجودنہیں ہے تاکہ اللہ کی صفت میں کیا جائے کہ بیشک اس کے ساتھ اس کا غیر بھی ہے اگرچہ وہ اس سے احکام میں الگ ہے کیونکہ قدیم کا محدث سے ان احکام میں جن سے ان کے مابین تمییزواقع ہوتی ہے الگ ہونا ممکن کے ثانی مستقل موجود ہونے کو مستلزم نہیں ہے تاکہ اس کی صفت کہ اس کے ساتھ اس کا غیرہے صیح ہوسکے اوریہ اس لئے کہ جب کہ ازل میں اللہ کے سوا کوئی موجودبھی نہیں ہے اور وہ محص عین موجود ہے

حتى يصح ان يوصف بان معه غيره وذلك لانه اذالم يكن فى الازل الاالحق وهوعين الوجود المحض وكل ماظهرفى الوجود من المحدثات فانمااستفاد الوجودمنه يكون وجودها الفائض من اشعة انواروجوده مستقلاثانيا لوجوده سبحانه وتعالى هذا ممالاخفاءفيه عندالالتفات اصلاوللامام الغزالى رحمه الله تعالى فى مشكوة الانوار كلام يوضح هذه المقام وحاصله ان وجودالعام لكونيه ليس وجودمستقلابل فائضامنه تعالى كمالايتضف بكونه عين الحق لكونه مبداكذلك لايتضف بانه غيره مغايرة تامة بحيث يتصف بانه موجود تان مستقلامعه فان الله كما كان فى الازل ولاشئى معه لكونه الاول قبل كل شئى فكذلك الان كما كان لان العام الحدث لكونه من فيض وجوده لا يتصف بكونه موجودامعه بل موجود به فليس له مرتبة المعية بل رتبة التبعية ولهذا انفى ان يكون الله اكبر ان معناه اكبر من غيره اذليس غيره معه مستقيلافمحال ان يكون افعل التفضيل بمعناه المعروف من كون المفضل عليه مغايراللمفضل مغايرة مستقلة يصح ان

اورمحدثات میں سے جس کا وجود بھی ظاہر ہوا ہے سوائے اس کے نہیں ان سے اس وجود کا فائدہ حاصل کیا ہےان ممکنات کا وجود مستقل دوسرا اللہ کے وجودکے انوار کی شعاوں سے نکل کر   التفات کے وقت اس چیز میں کوئی پوشیدگی نہیں ہے اور مشکاۃ الانوار میں امام غزالی کا کلام اسی مقام کی وضاحت کرتا ہے اور اس کا ماحاصل یہ ہے کہ بیشک ممکن وجود ہونے کے لئے کوئی مستقل وجودنہیں ہے بلکہ اسی سے فیض حاصل کرنے والا ہے جیسے کہ یہ عین الحق کی صفت کے ساتھ موصوف نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ ممکن ایجاد کیا گیا ہے جیسے کہ اسے پوری مخالفت کے ساتھ متصف نہیں کرسکتے اس حثیت سے کہ اسے موجود ثانی کے ساتھ مستقل متصف کرسکیں پس بیشک جس طرح اللہ ازل میں تھا اور اس کے ساتھ کوشئی نہ تھی پس اس طرح اب ہے کیونکہ عالم حادث نے اس کے وجود سے فیض پایا ہے پس اس لئے اسے اس کے ساتھ موجودہے کی صفت سے موصوف نہیں ٹھہراسکتے بلکہ اس کے سبب وجودہے کی صفت سے موصوف ہے پس حادث کے لئے معیت  کا مرتبہ نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تبعیت کا مرتبہ ہے اور اسی لئے اللہ اکبر کا معنی غیر سے اکبر کرنے کی نفی ہے کیونکہ اس کے ساتھ کوئی غیر مستقل ہے ہی نہیں پس افعل التفصیل کا یہاں اپنے مشہور معنی مفضل علیہ کا مفضل کے پوری

يتصف بكونه موجودامع المفضل واذاانتفت المغايرة التامة المسقلة لم يبق الاان يكون من بات هذابرااطيب منه ورطباولله المثل الاعلى كمايوضحه قوله تعالى اولم يروا ان الله الذى خلقهم هو اشدمنهم قوة مع قوله تعالى ان القوة لله جميعا وتوله تعالى ماشاءالله لاقوةبالله وليس معنى وحدة الوجودان العالم عين الحق حتى يتوهم من مقالات المحققين انهم خرجو عن دائرة الشرع وانما المرادان العالم ليس موجودا ثانيا مستقلا كما تقدم انتهى كلام الشيخ بن حسن الكروى وحمهما الله تعالى- اذاعلمت ذلك اتضح لك ان كل ماسلكه هذا الحديث بعهدبالاسلام فى هذاالسوال المذكور كله خبط وزوروبهتان نشأ من عدم معرفته حقيقة وحدة الوجودوان العالم ليس عين الحق كمازعمه وبنى عليه القناطرالوايهة وزعم ان معنى لااله الاالله كما زعم تعالى الله عن ذلك علواكبيرافكلها خيال وادهام خارجة عن دائرة الشرع والعرفان بل معنى لااله الاالله لامعبودبحق فى الوجودالاالله فالمنفى المعبودبحق لانفس المعبودبغير قيدالحقية كمالايخفى واماعلى ماسلكه من ان علماء

طور پر مخالف ہونا کہ اسے مفضل کے ساتھ موجود ہونے کے ساتھ متصف کرنا صیح ہوا اور جبکہ مستقل پوری مخالفت ختم ہوگئی تویہ هذا ابرااطيب منه طباولله المثل الاعلىکےباب سے باقی رہ گیا جیسے کہ اللہ کا یہ قول اس کی وضاحت کرتا ہے کہ بیشک ان کواللہ نے پیدا کیا ہے وہ قوت میں ان سے برتر ہے اللہ کے اس قول کے باوجود بیشک تمام قوت اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالی کا قول جو اللہ چاہے اللہ کے سوا کوئی طاقت نہیں ہے اور وجود کے ایک ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ بیشک عالم اللہ کا عین ہے حتی کہ محققین کے مقالات سے وہم پڑے کہ وہ دائرہ شرح سے نکل گئے ہیں اور سوائے اس کے نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ عالم دوسرا مستقل موجود نہیں ہے جیسے مذکور ہوچکا شیخ ابراہیم بن حسن کروی کاکلام ختم ہوا اور جب آپ نے یہ جان لیا تو آپ کے لئے واضح ہوجائیگا کہ بیشک ہو وہ چیز ٹانواں ٹویاں جھوٹ اور بہتان ہے جس کو وہ سوال کے جواب میں اس حدیث کو چلایا ہے اور اس انسان کے وحدت الوجود کی حقیقت کو نہ پہنچاننے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور یہ بھی واضح ہوگا کہ بیشک عالم اللہ کا عین نہیں ہے جیسے کہ اس نے گمان کیا ہے اور اس پر کمزور پیش اس نے بناڈالیں اور اس نے بیشک جس طرح

الشريعة لم يفهم وامعنى لااله الاالله يلزم على مناسلكه ان عبادة المشركين لماسوى الله من الاصنام والملائكة والجن وغيرهم صحيحة وانهم موحدون لله عزوجل وان بعثة الرسل وائزال الكتب الامرة بافراد المعبودونفى الشرك وقتال المشركين على عدم ترك ذلك واقع غير موتعه وهذاباطل لاقائل به سبحانك هذا بهتان عظيم بل كتب الله وبعثت رسله ناطقة بخلاف مايدعيه هذاالمفترى الضال والله يهدى من يشاء الى صراط مستقيم من يهده الله فلامضل له ومن يضلله فلاهادى له والله سبحانه وتعالى واماقوله ان سجودالمريدين بين يدى المشائخ جائز فجوابه قدافترى على الله الكذب ومن اظلم ممن افترى على الله الكذب

لااله الاالله کا معنی گمان کیا ہے خدا تعالی اس سے بہت برتر ہے پس یہ تمام دائرہ شرع سے نکلنے والے اسکے خیالات واودھام ہیں اور عرفان سے خارج ہونے والے، بلکہ

لااله الاالله کامعنی یہ ہے کہ اللہ کے بغیر کوئی معبود نہیں پس نفی معبود برحق کی ہوئی نہ کہ حقیقت کی قید کے علاوہ نفس معبود کی،  جیسے کہ پوشید ہ نہیں ہے اور لیکن جو وہ اس مسلک پر چلا ہے کہ بیشک علمائے شریعت نے لااله الاالله کا معنی نہیں سمجھا تو اس کے مسلک کے مطابق تو لازم آتا ہے کہ بیشک مشرکین کا ماہوائی خدا کے غیر بتوں، فرشتوں اور جنا ت وغیرہ ہم کی عبادت کرنا صیح ہے اور بیشک وہ الله عزوجل کی توحید کرنے والے ہیں اور بیشک رسولوں کی بعثت اور کتابوں کا اتارنا جو کہ معبود کو ایک جاننے اور شرک کی نفی کرنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کے نہ چھوڑنے پر مشرکین سے لڑائی کا حکم دیتے ہیں یہ اپنے موقع کے علاوہ دوسری جگہ پر واقع ہیں اور یہ بالکل باطل ہے اس کا کوئی بھی قائل نہیں، پاک ہے تو اللہ یہ بڑا بہتان ہے بلکہ اللہ کی کتب اور رسولوں کی بعثت اس کذاب وگمراہ کے دعوی کے خلاف بولنے والی ہیں اور اللہ ہی جس کو چاہے سیدھے راہ کی ہدایت کرتا ہے جسےاللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جیسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ سبحانہ، تعالی زیادہ عالم ہے اور لیکن اس کا قول کہ بیشک مشائخ کے سامنے مریدوں کے سجدے جائز ہیں پس اس کا جواب یہ ہے کہ تحقیق اس نے اللہ پر جھوٹ

قال العلامة ابن حجر المكى فى كتابه الاعلام بقواطع الاسلام مالفظه قدصرحوابان سجودجهلة الصوفية بين يدى مشائخهم حرام فى بعض صورة وفى بعض صورة مايقتضى الكفر فعلم من كلامهم ان السجود بين يدى الغير منه ما هو كفر ومنه ماهو حرام غير كفر فالكفران يقصد السجود للمخلوق والحرام ان يقصدلله معظما به ذلك المخلوق من غير ان يقصد به اولايكون له قصد انتهى والله سبحانه وتعالى اعلم و صلى الله على سيدنامحمدواله وصحبه وسلم-

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 193-200

محدث فتویٰ

تبصرے