سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) اولیاءاللہ ظاہری آنکھوں خدا تعالی کا دیدار کرنا؟

  • 6508
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1183

سوال

(51) اولیاءاللہ ظاہری آنکھوں خدا تعالی کا دیدار کرنا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اولیاءاللہ ظاہری آنکھوں سے بیداری کی حالت میں بغیر کسی تاویل کے خدا تعالی کو دنیا میں دیکھ سکتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں نہیں دیکھ سکتے ۔ اور اس پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے۔ اور اس کا دعوی کرنے والاجھوٹا ہے۔ چنانچہ منہج الازہر میں مسئلہ پر پوری بحث کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں  میرے پاس ۔ مبدرجہ بالا مضمون کا ایک سوال آیا ۔ میں اپنی صوابدید کے مطابق اسی پر جواب لکھا۔ اور اس اہل سنت والجماعت کے تمام ائمہ کا اجماع ہے۔ کہ عقلی طور دنیا اور آخرت میں اللہ تعالی کی روئیت ظاہری آنکھوں سے جائز ہے اور آخرت میں نقلاوسمعاثابت فى اعتقادنا فاسد وزعم كا سدوفى حضين منلال وتضليل وفى مطعن وبيل وبعيد عن سواء السبيل فقد قال صاحب التعريف وهو كتاب لم يصنف مثله فى التصوف اطبق المشائخ كلهم على تضليل من قال ذلك وتكذيب من ادعى هنالك و منفوافى ذلك كتباورسال منهم ابوسعيد الخزاروالجنيدومرحوابان من قال ذلك المقال لم يعرف الله الملك المتعال واقره الشيخ علاء الدين القونوى فى شرحه وقال ان صح عن احد دعوى نحوه فيمكن تاويله بان غلبة الاحوال يجعل الغائب كا لشاهداذاكثراشتغال الشى بشى واستحضاره له كانه حضر بين يديه انتهى ديويده حديث ان تعبدالله كانك تراه وكذاحديث عبدالله بن عمروحال الطواف كنا نرى الله تعالى ـ وقال صاحب العوارف فى كتابه اعلام الهدىوعقيدةارباب التقى ان روية العيان متعزرة فى هذا لاالدار لا نها دارالفناوالاخرة دارالقرار فلقوم من العلماء نصيب من علم اليقين فى الدنيا والاخرين من اعلى منهم رتبة نصيب من عين اليقين كما قال قائل راى قلبى دبى انتهى ـ والحاصل ان الامة قداتفقت على ہے۔ اور دنیا میں روئیت ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ اس کے متعلق اختلاف ہے اکثریت کا خیال کہ جائز ہے دوسرے اس کا انکار کرتے ہیں ۔ لیکن جو اس کے جواز کے قائل ہیں ۔ وہ صرف اس وجہ سے قائل ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خدا تعالی کو معراج کی رات دیکھا ہے۔ اوردوسرے کسی کے لئے اس کو ثابت نہیں کرتے اور آنحضرت ﷺکے دیکھنے کے متعلق بھی تو سلف میں اختلاف تھا۔ صیح یہی ہے ۔ کہ آنحضرت ﷺ نے خدا تعالی کو اپنے دل سے دیکھا  ہے۔ آنکھ سے نہیں دیکھا ۔ چنانچہ شرح عقاید میں اس کی تصریح ہے ۔ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں نے اللہ تعالی کو خواب میں دیکھا ہے ۔ تویہ جائز ہے ۔ کیونکہ وہ ظاہر ی آنکھ سے انه تعالى لايراه احدفى الدنيا بعينه ولم يتناذعوافى ذلك الانبينا صلي الله عليه وسلم حال عروجه على ماصرح به فى شرح عقيدة الطحاوى ثم هذا ان قبل التويل السابق فيها والافان كان مصمما على مقوله ولم يرجع بالنقول عن ةعقوله يجب تعزيره وتشهيزه بما يراه الحاكم الشرعى وقال بعض ارباب العقائد المنظومة من قال فى الدنيا يراه بعينه فذلك زنديق طغى وتمر دوخالفاالله و الرسول وزاع عن الشرع الشريف قدقال ابن الصلاح وابوشامة انه لا يصدق مدعى الروية فى الدنيا حال اليقظة ومنع كليم الله موسى على نبيناوعليه الصلوة والسلام ـ واختلف بهذا المرام بنبينا صلي الله عليه وسلم فى ذلك المقام كيف تسمع لمن يصل الى مقامه انتهى ـ كلامهما وقال الكورشى فى سورة النجم متقدروئية الله تعالى مهنا بالعين لغير محمد صلي الله عليه وسلم غير مسلم وقال الاردبيلى فى كتابه الانوارولوقال انى راى الله تعالى عيانا فى الدنيا كفر انتهى لكن الا قدام على التكفير بمجرددعوى الروية من اصحاب الحطرفان الخطاءفى افتاء الف كا فراهون من الخطاءفى افتاء مسلم فالصواب ما قد مناه انه ان الضسب الى الدعوى ما يخرج عن عقيدة اهل التقى فحكم علية بانه من دیکھنا نہیں ہے ۔ بلکہ تصورات شایہ اور تمثیلات خیالیہ کا دیکھنا ہے۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے خدا تعالی کی صفات کے مظاہر دیکھے ہیں تویہ ٹھیک ہے۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے بذات خودخدا تعالی کو دیکھا ہے تو پرلے درجہ کا بےدین اورگمراہ ہے ۔ اس کو تعزیر لگانی چاہیے اور شہر میں پھرانا چاہیے صاحب تعرف کا قول ہے۔ یہ کتاب تصوف کے مضمون میں بے مثال ہے مشائخ طریقت کا اس پر اجماع ہے۔ کہ دنیا میں کوئی شخص اللہ تعالی کوظاہری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا روئیت اهل الضلاله والردى والسلام على من اتبع الهدى انتهى ما فى ضح اه زهر شرح فقه اكبر ملا على قارى ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

داظہرسن الشمس است کہ برکاہ خطاب لن ترانی بموسی علیہ السلام داردشد۔ پس احادامت بصفت لن ترانی چگو نہ موصوف نہ شودونعم ماقیل۔

جلوہ یارگراں بارکہ برداشتہ است

کمر طاقت کوہ وکمر مور یکے است

ومنشورلامع النورـ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَ‌ةٌ  إِلَىٰ رَ‌بِّهَا نَاظِرَ‌ةٌ هى وجوه المومنين يومذيوم القيمة ناضرة حسنة ناعمة الى ربها ناظرة ..................شعرومخبربديداررب غفاردرعقبی است۔ یعنی درجنت نہ دردنیازیراکہ احساس و قوی ودنیا ازبس ضعیف در معرض  است ازیں راہ گزردیدارالہی بداردنیامتعدر بخلاف احساس و قوی دارالبقا کہ اقوی دابقی خواہدبود بتقویت رب العزت وقوائے سرمدیت دیدارحضرت صمدیت میسر خواہدبودکلمات طیبات آن سرور کائنات ستون ربكم يوم القيمةبخطاب عالمتب دربارہ دیدار بعین البصر لیسوئے ہمہ صحابہ کرام کہ خلفائے راشدین درین خطاب داخل اندداروداین چنین نفر مودند کہستون ربكم يوم القيمة كما ترونه فى الدنياپس ازآئیت و حدیث  واضح گردید کہ دنیائے فانی مقام دیدنی انیست وازیخجا تمام اہل سنت وجماعت اتفاق کردند بدین مسئلہ کہ کسے ازاحاداست

خدا وندی کا محل آخرت ہے دنیا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ایسا دعوی کرے۔ تو وہ زندیق ملحد شریعت کا منکر اور سنت کا مخالف ہے۔ جب موسی علیہ السلام کو یہ جواب ملتا ہے کہ تو مجھے کھبی نہیں دیکھ سکتا ۔ تو اور کون ہے جو روئیت کادعوی کرسکے۔ ملا علی قاری کی سخ الازہر شرح فقہ اکبر میں تمام تفصیل موجود ہے۔ پھر یہ بھی غور طلب ہے ۔ کہ خداوند تعالی نے فرمایا وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَ‌ةٌ  إِلَىٰ رَ‌بِّهَا نَاظِرَ‌ةٌ توروئیت کو قیامت کے دن پر معلق کیا اگر دنیا میں بھی روئیت ہوسکتی ۔ تو قیامت کے دن کی قید بالکل بے

بخشم ظاہری دربیداری ورداردنیا خدائے تعالی رانمی بنیدونخواہد دیددمدعی آن کا ذب است۔

قيدها بالقيامة اشرة الى ان الدرية الاخرة دون الدنيا كذافى فتح البارى والكومانى والعينى شروح البخارى۔ وپارہ حدیث درصیح بخاری ازابوموسی الشعری  این است کہ فرمود آنحضرت ﷺومابين القوم وبين ان ينظر والى وبهم الارداءالكبرياءعلى وجهه فى جنت عدن اى جنة اقامة وهوظرف للقوم لالله تعالى وقوله فى ت الجنة متعلق بمعنى الاستقرار فى الظرف فيفيد المفهوم انتفاءهذا الحصرنى غير الجنة واليه اشارالشيخ التور بشتى بقوله يريران المومن اذا تبوأ مقعده فى الجنة تبوأ والحجب مرتفعة والموانع التى تبجبه عن النظرالى ربه مضمحلة الامايصدهم من هيبة الجلال وسبحات الجمال وابهة الكبرياءفلايرتفع ذلك منهم الابرافته ورحمته تفضلامنه على عباده قال الحافظ ابن حجر  وحاصلة ان رداءالكبرياءمانع لرويته فكان فى الكلام حرف تقديره بعد قوله الارداءالكبرياءفانه يمن عليم برفعه فيحصل لهم الفوز بالنظراليه فكان المدا دان المومنين اذاتبووامقاعدهم من الجنة لولاماعندهم من هيبة الجلال لماحال بينهم وبين لورية حائل فاذااراداكرامهم خصهم برافة وتفضل عليم تبقويتهم على النظر اليه سبحانه وتعالى انتهى مافى ارشادالسارى مختصراوقال النودى اعلم ان مذهب اهل السنة قاطبة ان روية الله تعالى ممكنة غير مستحيلة واجمعو ايضا على وقوعها

معنی تھی اور آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم  قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھوگے۔ اگر دنیا میں بھی دیدار خداوندی ممکن ہوتا ۔ تو قیامت کے دن کی قید لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ اسی طرح فرمادیتے کہ تم جس طرح دنیا میں خداتعالی کو دیکھتے ہو۔  آخرت میں بھی دیکھوگے۔ امام نوویؒ کا ہے کہ تمام اہل سنت کا عقیدہ ہی ہے  کہ روئیت خداوندی دنیا میں نہیں ہوسکتی ۔ آخرت میں ہوگی۔ اور اس  میں متکلمین کے سلف اور خلف  بھی متفق ہیں واللہ اعلم بالصواب۔

فى الاخرة نقلاوروية الله تعالى فى الدنيا ممكنة لكن الجمهودمن السلف والخلف من المتكلمين وغيره هم انها لاتقع فى الدنيا انتهى المرقاة مختصرا والله اعلم بالصواب فاعتبروايااولى الالباب فقط نعم المولى ونعم النصير ـ  (سید محمد نذیر حسین) (سید شریف حسین) (سید احمد حسین)   (خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین)  فتاوی نذیریہ جلد اول ص

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 10 ص 94

محدث فتویٰ

تبصرے