السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ایک صاحب حج کی نیت رکھتے تھے۔ اب وہ انتقال کرگئے ہیں۔ مرحوم کی طرف سے ان کے بھائی حج بدل کرانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حج بدل کےلئے کیا یہ لازم ہے کہ ایسا ہی شخص ہوجس نے پہلے اپنے مصارف سے حج کیا ہو یا نہ۔ ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض علماء کا خیال حدیث نبوی ﷺ کے خلاف ہے۔ حضور ﷺ نے ایک حج بدل والے کو فرمایا تھا۔
"حج عن نفسك ثم حج عن شبر مة" (رواه ابوداود وابن ماجة وصححه ابن حبان والرحج عند احمد وقفه (بلوغ المرام)
اول تو ابودائود ابن ماجہ میں مرفوع بھی ہے۔ دوم اگر بالفرض موقوف بھی ہو تو قول صحابی بعض علمائ کے خیال سے راحج ہے۔ پس مقدم حج نائب راحج ہے۔ (ابو سعید شرف الدین دہلوی)
حج کی ایک قسم حج بدل بھی ہے جو کسی معذور یا متوفی کی طرف سے نیابتہً کیا جاتا ہے۔ اس کی نیت کرتے وقت لبیک کے ساتھ جس کی طرف سے حج کےلئے آیا ہے۔ اس کانام لینا چاہیے۔ مثلا ایک شخص حج کےلئے زید کی طرف سے گیا تو وہ یوں پکارے لبیک عن زید نیابۃ ً کسی معذور زندے کی طرف سے حج کرنا جائز ہے۔ اسی طرح کسی مرے ہوئے کی طرف سے بھی حج بدل کرایا جاسکتا ہے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا تھا۔ میرا باپ بہت ہی بوڑھا ہوگیا ہے وہ سواری پر بھی چلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ آپﷺ اجازت دیں تو میں اس کیطرف سے حج کرلوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں کرلو (ابن ماجہ) مگر اس کےلئے یہ ضروری ہے کہ جس سے حج بدل کرایا جائے وہ پہلے خود اپنا فرض ادا کرچکا ہو جیسا کہ مندرجہ زیل حدیث سے ثابت ہے۔
"عن ابن عباس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم سمع رجلا يقول لبيك عن شير مة فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم من شيلومة قال قريب لي قال هل حججت فظ قال لا قال فاجعل هذه عن نفسك ثم حج عن شيرمة" (رواه ابن ماجه)
’’یعنی ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو سنا کہ وہ لبیک پکارتے وقت کسی شخص شبرمہ نامی کی طرف سے لبیک پکار رہا ہے۔ آپﷺ نے یہ دریافت کیا کہ بھائی یہ شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا شبرمہ میرا ایک قریبی ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا تو نے اپنا حج ادا کیا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ ﷺ نے کہا اپنے نفس کی طرف سے حج ادا کر پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا‘‘ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حج بدل وہی کرسکتا ہے۔ جو پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔ بہت سے ائمہ اور امام شافعی وامام احمد کا یہی مذہب ہے۔ لمعات میں ملا علی قاری لکھتے ہیں۔
"الامر يدل بظاهره علي ان النيابة انما يجوز بعد اداء فرض الحج واليه ذهب جماعة من الاعمة والشافعي وحمد"
یعنی امر نبویﷺ بظاہر اس بات پردلالت کرتا ہے کہ نیابت اسی کےلئے جائز ہے۔ جو اپنا فرض حج ادا کرچکا ہو۔ علامہ شوکانی نے اپنی مایہ ناز کتاب نیل الاوطار میں یہ باب منعقد کیا ہے۔ باب من حج عن غیرولم یکن حج عن نفسہ یعنی جس شخص نے اپنا حج نہیں کیا۔ وہ غیر کا حج بدل کرسکتا ہے کہ یا نہیں؟ اس پر آپ حدیث بالا شبرمہ والی لائے ہیں۔ اور اس پر یہ فیصلہ دیا ہے۔
"وليس في هذا الباب اصح منه" یعنی حدیث شبرمہ سے زیادہ اس باب میں اور کوئی صحیح حدیث اس باب میں وارد نہیں ہوئی ہے پھر فرماتے ہیں۔
''اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی طرف سے پہلے حج نہ کیا ہو وہ حج بدل کسی دوسرے کی طرف سے نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ اپنا حج کرنے کی طاقت رکھنے والا ہو۔ یا طاقت نہ رکھنے والا اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے جس شخص کو شبرمہ کی طرف سے لبیک پکارتے ہوئے سنا تھا۔ اس سے آپ نے یہ تفصیل دریافت نہیں کی۔ پس یہ بنمزلہ عموم ہے۔ اور امام شافعی وناصر کا یہی مذہب ہے۔
پس حج بدل کرنے اور کرانے والوں کو یہ سوچ سمجھ لینا چاہیے امر ضروری یہی ہے کہ حج بدل کےلئے ایسے آدمی کو تلاش کیا جائے۔ جو اپنا حج ادا کرچکا ہو تاکہ بلا شک وشبہ ادایئگی فریضہ حج ہوسکے۔ اگر کسی بغیر حج کئے ہوئے کو بھیج دیا تو حدیث بالا کے خلاف ہوگا۔ نیز حج کی قبولیت اور ادایئگی میں پورا پورا تردد بھی باقی رہے گا۔ عقلمند ایسا کام کیوں کرے جس میں کافی روپیہ خرچ ہو۔ اور قیمت میں تردد شک وشبہ ہاتھ آوے۔ ع
چراکارے کند عاقل ک باز آید پیشمانی
مولانا عاشق الہیٰ صاحب میرٹھی حنفی اپنی کتاب زیارۃ الحرمین میں صفحہ 168 پرتحریر فرماتے ہیں۔ ''بہتر یہ ہے کہ حج بدل اس شخص سے کرائے جودیندار اور مسائل سے واقف ہو۔ کہ عوام پرمسائل سے ناواقفیت کے سبب تاوان واجب ہوجاتا ہے۔ اور حج بدل ادا نہیں ہوتا۔ اور پہلے اپنا حج کرچکا ہو کہ جس نے اپنا حج نہیں کیا۔ اگرچہ صحیح روایت (شاید روات فقہی مراد ہے) کے موافق وہ حج بدل کرسکتا ہے۔ (یہ مولانا نے اپنے مسلک کے مطابق تحریرفرمایا ہے۔ ) اور اس پراس سفر سے اپنا حج بھی فرض نہ ہوگا۔ مگراختلا ف سے بچنا افضل ہے۔ ''پس ایک مسلمہ حنفی عالم کے فتوے کے مطابق بھی حج بدل اسی شخص سے کرانا بہتر ہے۔ جو پہلے اپنا حج ادا کرچکا ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب