سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(416) سلفی حضرات کے پیچھے حنفی مقلد کی نماز

  • 6213
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-20
  • مشاہدات : 1520

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص قرات فاتحہ خلف الامام ورفع یدین آمین بالجہر کا قائل ہے۔ اس کے پیچھے حنفی المذہب کی نماز  جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ تینوں مسائل آئمہ ہدلی میں تو اختلافی ہیں مگر اکثر کے نزدیک مستعمل ہیں۔ اس لئے ان مسائل پر عمل کرنے والے کے پیچھے نماز قطعاً جائز ہے۔ در مختار وغیرہ میں یہ مسئلہ مصرح ملتاہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کا ف فتویٰ بھی یہی ہے۔ (19 جمادی الاول 64ہجری)

فتاویٰ ۔ کیا اہل حدیث امام کے پیچھے نماز جائز ہے؟

اہل بدعت یہ مشہور کیا کرتے ہیں کہ حنفی علماء کا فتویٰ ہے کہ جماعت اہل حدیث کا کوئی فرد نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ بلکہ بس چلے تو اہل حدیث کومسجد سے نکال دینا چاہیے۔ ایسی باتیں مشہور کرکے اہل اسلام میں تفرقہ بازی کیا کرتے ہیں۔ اور جہلا یہ سن کر  ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔ تمام حنفی علماء کا یہ فتوی ہے۔ ہمارے ایک نامہ نگار نے قلمی اتفتاء بھیجا ہے۔ جس پر مولانا کفایت اللہ صاحب ناظم جمعیۃ العلماء ہند دہلی اور سید سلیمان صاحب ندوی کے دستخظ ثبت ہیں۔ ہمارے بھائی کی درخواست ہے۔ کہ اس کو بغرض افادہ عوام اخبار میں شایع کیا جائے۔ چنانچہ مندرجہ زیل سوالات کے جوابات مفتی صاحب کے الفاظ ہیں۔ بجنسہ درج کیے جاتے ہیں۔

1،۔ اہل حدیث اہل حدیث کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ 2۔ ان کے ہاں بچوں کی شادی بیاہ جائز ہے یا نہیں؟3۔ ان سے سلام کلام درست ہے یا نہیں؟4۔ ان کو نماز جماعت سے نکال دینا جائز ہے یا نہیں؟5۔ اہل حدیث کو مارنا اور نماز سے روکنا کیساہے۔ ؟6،۔ آمین بلند آوازسے اوررفع یدین کا کیا حکم ہے ؟7۔ اہل حدیث ہمارے ساتھ اور ہم ان کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ 8۔ ہماری حنفیوں کی صف میں کھڑا ہوکر کوئی شخص اونچی آواز سےآمین کہے تو ہمارے لئے موجب فساد نماز یا کراہت نماز کا سبب ہے یا نہیں؟ (سائل غالباً حنفی ہے۔ )

الجواب۔ 1۔ ،درست ہے۔ 2۔ درست ہے۔ 3۔ درست ہے۔ 4۔ نماز یا جماعت سے روکنا جائز نہیں۔ 5۔ گناہ ہے اور سخت گناہ ہے۔ 6۔ آمین  بالجہر اورفع یدین اگرچہ حنفیہ کے نزدیک مسنون نہیں۔ ورنہ وہ ترک نہ کرتے۔ تاہم ان افعال کو بنظر حقارت دیکھنا درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم  اجمعین و تابعین اور ائمہ مجتہدین ان کو سنت سمجھتے ہیں۔ 7۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ 8۔ کسی کا حنفیوں کی جماعت می شریک ہوکر آمین بالجہر کہنا حنفیوں کی نماز کے لئے نہ موجب فساد ہے۔ نہ موجب کراہت نماز۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ الہ ۔ یہ جوابات صحیح ہیں۔ (سید سلمان ندوی)

مفتی!

 نیز قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی مالابد میں رفع یدین کی بابت لکھتے ہیں۔ کہ اکثر  فقہاء محدثین اثبات آں مے کنند۔ اور مولوی عبد لمومن صاحب دیو بندی مرھوم مولانا عبدالئی صاحب لکھنوی کے شاگرد  تھے  ان کی روایت تھی کہ مولانا مرحوم رفع یدین کیا کرتے تھے۔ مولوی عبد الحق صاحب ملتانی۔ مولانا انورشاہ صاحب دیو بندی مرحوم کے شاگرد ہیں۔ ان کی روایت ہے۔ کہ میں نے شاہ صاحب کو رفع یدین کرتے دیکھا۔ اسی طرح شاہ صاحب کے اور شاگردوں سے بھی سننے میں آیا ہے۔ کہ فرمایا کرتے تھے۔ رفع یدین عمر میں کبھی کر لینا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سنت کے بارے میں سوال ہو باقی جوابات درست ہیں۔ (18 فروری 1938ء)

مولانا انورشاہ مرحوم (رفع یدین) کے منسوخ کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ اپنے شاگردوں کو فرمایا کرتے تھے۔ کہ گاہے بگاہے اس پر عمل کرلینا چاہیے تاکہ قیامت میں یہ سوال ن ہو کہ اس سنت کو کیوں چھوڑا اس کے گواہ مولوی عبد الکبیر صاحب کشمیری ھال امرتسری ہیں۔ (اہل  حدیث 11 رمضان المبارک  1365ہجری)

تشریح فتویٰ 1

مندرجہ اخبار اہل حدیث بابت 10 زی قعدہ سنہ رواں سال سوال یہ ہے ککہ جمعہ وعیدین کے خطبہ ہوتے وقت جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو۔ اس وقت کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں خظبہ سننے والے یا خظیب و علیکم السلام کہتے ہیں یا نہیں؟

اس کا جواب مفتی صاحب مدظلہ العالی نے دیا ہے کہ ''اگر امام خطبے میں قرآن پڑھ رہا ہو تو داخل ہونے والا۔ ۔ ۔ السلام و علیکم نہ کہے''الخ یہ جواب چونکہ بہت مجمل ہے۔ لہذا تشریح وتوضیح کے لئے ذیل کا مضمون ملاحظہ کریں۔

ناظرین کرام! س مسئلہ میں کہ ''اثناء خطبہ میں سلام کا جواب دینا یا چھنکنے والا الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں یرحکم اللہ کہنا چاہیے یا نہیں ؟علماء کا اختلاف ہے بعض جائز کہتے ہیں اور بعض ناجائز چنانچہ جامع ترمزی شریف میں ہے۔

’واختلا وافي رد السملام وتشميت العاطس ورخص بعض اهل العلم في رد السلام وتشميت العاطس ولامام يخطب وهو قول احمد واسحاق وكره بعض اهل العلم من التابثعين و غير هم وذلك  اهو قول الشافعي ’

’’یعنی سلام کا جواب دینے اور چھینکنے والا الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے کے  بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ پس بعض اہل علم نے سلام کے جواب دینے اور عاطس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے کو جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو جائز بتایا ہے۔ اور یہی قول امام احمد اور ااسحاق کا ہے۔ اور بعض اہل علم تابعین وغیرہم نے اس کو مکروہ کہا ہے اوریہی قول امام شافعی کا ہے۔ ‘‘

 (واضح ہو کہ بقول ابن  العربی امام شافعی سے بھی جواز کا قول منقول ہے اور امام ابو حنیفہ نے   کہا ہے کہ سلام کا دل میں جواب دینا چاہیے۔ (کزا فی تحفۃ الاحوزی ج11 ص 366) جو علمائ اثناء خطبہ میں سلام کے جواب دینے اور عاطس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنے کو ناجائز بتاتے ہیں۔ ان کا ستدلال آیۃ ۔

 وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا﴿٢٠٤ سورة الأعراف

 اور حدیث

"اذا قلت لصاحبك انصت فقد لغوت"

 سے ہے ۔ چنانچہ علامہ عینی نے شرح بخاری میں لکھا ہے۔

"وقال اصحابنا اذا اشتغل الامام بالخطبة ينبغي للمستمع ان يجتنب ما رجتنبه في الصلوة لقوله تعالي فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا وقوله صلي الله عليه وسلم اذا قلت لصحاك انصت الحديث فاذا كان كذالك يكره له رد السلام وتشميت العاطس انتهي "

یعنی  ہمارے اصحاب  (علماء احناف)  نے کہا ہے کہ جب امام خظبہ دینے میں مشغول ہوجائے۔ تو سننے والے کو چاہیے کہ ان کاموں سے پرہیز کرے۔ جن سے وہ نماز میں پرہیز کرتا ہے۔ بحکم آیت۔ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا ۔ ۔ (جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنو اور چپ رہو) اور حدیث میں آتا ہےکہ"اذا قلت لصاحبك انصت الخ۔" ’’جب تم نے خطبہ میں اپنے ساتھی سے کہا کہ چپ رہ تو تم نے بہہودہ کام کیا‘‘ پس جب ایسا ہے تو اثناء خطبہ میں سلام کا جواب دینا اور عاطس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا مکروہ ہے۔ علمائے مجوزین اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آیت ۔ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا ۔ اور حدیث اذا قلت لصاحبك انصت الخ سے اثناء خطبہ میں سلام کے جواب نہ دینے اور عاطس کے جواب میں یرحمک اللہ نہ کہنے پر استدلال صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں ''مکالمۃ الناس'' (بات چیت) سے منع کیا گیا ہے۔ لہذا اثناء خطبہ میں بات چیت نہ کرنا چاہیے۔ ہاں آہستہ زبان سے سلام کا جواب دینا یا عاطس کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا جائز ہے۔ علماء حنفیہ نے بھی لکھا ہے کہ خطیب جب آیت۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۔ آیت پڑھے۔ تو اس وقت تمام سامعین کو آہستہ زبان سے آپﷺ پر درود بھیجنا چاہیے۔ کیونکہ اس  سے خطبہ سننے میں خلل نہیں واقع ہوگا۔

اور حضرت مولانا محمد عبد الرحمٰن صاحب محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی ص366 ج11 میں تحریر فرمایا ہے۔

والا ولي عندي في الجمع بين هذه الموما ت المتارضة ان بقال اممراد باليهي عن المتكلم في حال الخطبة الذي عن مكالمة الناس وكذا المراد بلا نصاف السكوت عن مكالمة الناس دون ذكرالله كنا اختاره ابن خزيمة فاذاي سكت في حال الخطبة عن مكالمة الناس ورد السملام سرا في نفسه او شمطت العاطس سرا اوصلي علي انبي صلي الله عليه وسلم عند ذكر يكون عاملابكل ما ذكر من النهي والامروهذا كما قال الحنفية بجواز الصلوة علي انبي صلي الله عليه وسلم  سرا قي نفسه  في الحال الخطبة عند قراءة الخطيب قوله تعالي. ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٥٦ سورة الأحزاب قال العيني في البناية فان قلت فوجه عليه امران احد مما صلوا عليه وسلمة ا والا مر الاخر قوله تعالي:  وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤سورة الأعراف.. قال مجاهد  نزلت في الخطبة و الاشتفال باحدهما يفوت الاخر قلت اذا صلي في نفسه وانصت وسكت يكةن انيا بموجب الامرين انتهي "

 (کتبہ ابو الصمصام عبد السلام المبارکپوری الاعظمی عفا للہ عنہ۔ (13 زی قعدہ 58ہجری9 (اہل حدیث امرتسر ص 25 19 جنوری 1940ء)

----------------------------------------------------

1۔ تشریح طفب فتویٰ اسی تشریح بیان میں آگیا ہے فقط  (راز)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 594-600

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ