سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) آمین بالجہر سے متعلق علماء کرام سے سوالات

  • 6080
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-13
  • مشاہدات : 1086

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضور ﷺ و آنجناب کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  ودیگر آئمہ و بزرگان دین جس کے اسمائے ہائے مبارک زیل میں درج ہیں۔ ان کی نسبت جواب کو سوال کے محاذ ارقام فرمایئں۔اورثواب دارین حاصل کریں۔

1۔بحالت  نماز جماعت خلف امام سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے یا نہیں؟

2۔آیا آپ بحالت نماز جماعت ختم قراءت فاتحہ آمین بالجہر کہتے تھے یا نہیں۔؟

3۔آیا بحالت نماز رفع الیدین کے قائل تھے یا نہیں۔؟ آیا بھالت نماز زیر ناف ہاتھ باندھتے تھے یا سینہ پر ؟

4۔ماہ رمضان لمبارک میں  تراویح معہ وتر کتنی رکعت پڑھتے۔ حوالہ کتب معتبرہ شرعیہ سے تحریر فرمایا جاوے۔ حضورﷺ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ حضرت عمررضی اللہ تعا لیٰ عنہ  حضرت عثمان رضی اللہ تعا لیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ حضرت امام حسنرضی اللہ تعا لیٰ عنہ  حضرت امام حسینرضی اللہ تعا لیٰ عنہ  حضرت امام زین العابدینرضی اللہ تعا لیٰ عنہ  شیخ عبد لقادر جیلانی ؒ ا۔امامابو حنیفہ ؒ۔امامالک۔امام شافعی۔امام احمد بن حنبلؒ حضرت خواجہ معین الدین چشتی۔حضرت نظام الدین اولیاء حضرت امام غزالی۔(14 دسمبر 1932ء)(از مولوی نور الہیٰ صاحب نور گرجاکھی خطیب شیخو پورہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید بتا رہا ہے کہ رسول خدا ﷺ کوئی حکم اپنی مرضی سے نہیں دیا کرتے تھے۔ بلکہ وہی فرماتے تھے جس کا حکم اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرفسے صادر ہوتا تھا۔

2۔رسول خدا ﷺ احمد مجتبیٰ ﷺ نے بحکم خداصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو ارشاد فرمایا۔

"لا تقروا بشئ من القران اذا جهرت الامام القران "(ابو دائود)

’’جب میں جہری نمازوں میں قراء ت پکار کر پڑھوں۔ تو تم اس وقت سورۃ فاتحہ کے اور کوئی سورت قرآن کی میرے پیچھے نہ پڑھا کرو۔‘‘

"فان لا صلوة لمن لمن يقرء بفافحة الكتاب" (مشکواة باب القراة فی الصلواة)

’’کیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ امام کے پیچھے نہ پڑھے۔ اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘

4۔آثار صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  اپنے پیارے رسول ﷺ کے احکام عالیہ کی  تعمیل بڑے تپاک سے کرتے تھے۔ آپﷺ کا فرمان سن کر حاضرین میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا۔ جو فاتحہ خلف الامام کا قائل نہ ہو۔

5۔چنانچہ امام ترمذی حدیث عبادہ ک ما تحت فرماتے ہیں۔ 

"والعمل علي هذا الحديث في القراءة خلف الامام عند اكثر اهل العلم من  اصحاب  النبي صلي الله عليه وسلم واتابعين وهو قول مالك بن انس وابن الملبارك والشافي واحمد واسحق يرون القراةخلف الامام"

اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  اور تابعین کا عمل فاتحہ خلف الامام پر تھا۔ اور امام مالک اور شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ سب فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ (ترمذی ص43)

6۔ حارث اور یزید اب شریک فرماتے ہیں۔

امرنا عمر ابن الخطاب نقراء خلف الامام کہ ہم کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حکم دیا۔ کہا امام کے پیچھے پڑھا کریں۔ (جز القراۃ للبیہقی ص96۔،مستدرک حاکم ص231 کنز العمال ص187 جلد 3)

"وعن علي انه كان يامر ان يقرا خلف المام"

’’اور حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  شیر خدا بھی فاتحہ خلف الامام کا حکم کیا کرتے تھے۔‘‘(جز القراۃ ص62)

"وعن الحسن انه يقول اقراء واخلف الامام في كل صلوة بفاتحة الكتاب في نفسك" (جز القرات للبیہقی)

’’اور امام حسن فرماتے ہیں  کہ امام کے پیچھے ہر ایک نماز (خواہ سری ہو یا جہری) سورہ فاتحہ پڑھا کرو۔‘‘

9۔امام غزالی بھی فاتحہ خلف الامام کئے قائل ہیں۔ اور فرماتے ہیں جو شخص امام کے پیچھے الحمد نہ پرھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (دیکھو احیا ء العلوم مصنفہ امام غزالی)

10۔ امام ابو حنیفہ بھی سری نمازوں میں فاتحہ کے جواز کے قائل تھے۔ اور جہری نماز میں بھی اکثر سکتات میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں (عمدۃ الرعایہ ص 173)

11۔ملاجیون حنفی مصنف نور الانوار اپنی  تفسیر احمدی میں  فر ماتے ہیں۔

"فان الطائفة الصوفية والمشائخين الحنفية تراهم يستحسنون قراءة الفاتحة للموتم كما استحسنه محمد احتياط فيما روي عنه"

صوفیا کرام اور مشائخ حنفیہ بھی امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد کی طرح فاتحہ خلف الامام کو مستحسن اور اچھا سمجھتے تھے۔ احتیاط جس طرح ہدایہ وغیرہ میں بھی ہے۔

12۔امام نووی فرماتے  ہیں کہ احتیاط واجب ہے۔ اس کے بغیر نماز  نہیں ہوتی۔ یہی مذہب ہے امام مالک اور امام شافعی  اور جمہور علماء اور تابعین اور تبع تابعین کا (نووی شرح مسلم ص 170)

3۔ پیر عبد القاد جیلانی فرماتے ہیں کہ سورہ فاتحہ ارکان نماز میں سے ہے۔ (غنیہ ص 10)اگر کوئی رکن جان بوجھ کر چھوڑدے۔ یا بھول جاوے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔(لہذا فاتحہ ضرور پڑھنی چاہیے۔) (غنیۃ الطالبین ص12)

4۔عبد اللہ بن مبارک شاگرد امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں۔ "انا اقرء خلف الامام والناس يقرون الاقوم من الكوفيين" کہ میں امام کے پچھے پڑھتا ہوں۔اورتمام لوگو پڑھتے ہیں۔ مگر کوفیوں کی  قوم نہیں پڑھتی۔ (ترمذی)

15۔ خلاصہ تمام مضمون کا یہ ہے کہ رسول خدا ﷺ نے باامر اللہ تعالیٰ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کو فرمایا میرے پیچھے سورہ فاتحہ ضرور پڑھا کرو۔ ورنہ تمہاری نماز باطل ہوجائے گی۔یہ حکم سن کر تمام جانثاران فاتحہ خلف الامام کے قائل وفاعل تھے خصوصا حضرت عمر فاروق وعلی المرتضیٰ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  تو حکماً پڑھوایا کرتے تھے۔ اسی طرح تابعین بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔ اور ائمہ کرام میں سے امام مالک۔اامام شافعی۔امام احمد۔ امام غزالی ۔اور امام حسن اوردیگرآئمہ بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے۔(17 مئی 1935ء)

1۔رسول خدا ﷺ ہمیشہ آمین بالجہر  بعد قراءت فاتحہ کہا کرتے تھے۔وائل بن حجر کہتے ہیں۔"صليت خلف النبي صلي الله عليه وسلم فلما قال ولا الضالين قال امين ومدبها صوته" ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے جب کبھی نماز پڑھی آپ ﷺ نے والا الضالین کے بعد آمین دراز آواز سے کہی۔‘‘ (ترمذي۔ص 34۔ابودائود۔ص136 ۔ابن ماجہ۔ص 62۔ تلخیص الجیر ص89 منتقی ص59 دارمی۔ص106۔دارقطنی ص127 ۔مشکواة ص80)

2۔ایک روایت ہے۔"اذا قراولا اضالين قال امين رفع بها صوته"  ’’کہ رسول اللہ ﷺ نے فاتحہ ختم کی توآپ ﷺ نے بلند آواز میں آمین کہی‘‘(ابودائود۔ص136 وعون المعبود ص351)

3۔ایک روایت میں ہے۔ "انه صلي  خلف النبي  صلي الله عليه وسلم فجهر بامين"  (ابودائود ص1301)

’’کہ وائل نے رسول خدا ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپﷺ نے آمین بالجہر کہی۔‘‘

4۔علامہ ابن حجر فرماتے ہیں۔ کہ اس حدیث کو ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے۔ وسنده صحيح او ر سند اس کی صحیح ہے۔وصححه الدار قطني اورصحیح کہا اس کو دارقطنی نے  (تلخیص الجیر 89)

5۔امام ترمذی  فرماتے ہیں۔حديث وائل بن حجر حديث حسن کہ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ جس میں رسول اللہﷺ کا آمین پکار کر کہنے کا زکر ہے۔حسن ہے۔ (ترمذی 34)

6۔اس حدیث کے آگے امام ترمذی فرماتے ہیں۔

"وبه يقول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون ان يرفع الرجل صوته باتامسن ولا يخفيها وبه يقول الشافي واحمد واسحق"

اور بہت سے اہل علم صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  اور تابعین اور  تبع تابعین فرماتے ہیں کہ آمین پکار کر کہی جائے۔اور آہستہ نہ کہی جائے۔ اور اس طرح اامام شافعی اورامام احمد اور اسحاق فرماتے ہیں۔ کہ آمین بالجہر کہنی چاہیے۔(ترمذی ص 34)

7۔حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  فرماتے ہیں۔

"ان انبي صلي الله عليه وسلم كان اذا قرء ولا الضالين رفع صوته بامين"

’’رسول اللہ ﷺ جب ولاالضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہہ کر پکارتے۔‘‘

(علام المعوقعین جلد2 ص4 کنز العمال جلد 3 ص187)

اور تحفۃ الاحوذی میں مولانا عبد الرحمٰن فرماتے ہیں۔

"ولم يثبت من  احد ن ا لصحابة الاسرار بالتامين بالسند الصحيح"

کہ رسول اللہﷺ کے ایک صحابی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ  سے بھی صحیح سند سے آمین آہستہ کہنا ثابت نہیں۔ (تحفۃ لاحوذی ص209)

9۔حضرت عطاء فرماتے ہیں۔

"ادركت ماتين من الصحابة اذا قال الامام والا الضالين رفعواصواتهم با مين"

’’کہ میں نے مدینہ منورہ کی مسجد میں دو سو صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کو دیکھا جب امام سورۃ فاتحہ ختم کرتا۔ توسب کے سب بلند آواز سے آمین کہتے۔ اور مسجد میں گونج پیدا ہوجاتی۔‘‘(بہقی جلد 2 ص 59۔اعلام جلد 2 ص5 قسطلانی جلد2 ص 85)

10۔پیر عبد لقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ "والجهر بالقراءة وامين" کہ جہری نمازوں میں جب قراءۃ بلند آواز سے پڑھی جائے۔ اس میں آمین بھی پکا ر کرکہی جائے۔ (غنیۃ الطالبین ص10)

11۔امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ آمین بالجہر کو سنت قرار دیتے ہیں۔ (احیائ العلوم)

12 ۔ خلاصہ مضمون یہ  ہے کہ رسول خدا ﷺ نمازوں میں سورۃ فاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین پکا ر کر کہا کرتے تھے۔ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کا یہی دستور تھا۔ آئمہ اسلام متبع سنت اس طرف گئے ہیں۔ امام حسن وحسین و زین العابدین ؒ اپنے نانا حضرت حضرت محمد رسول اللہﷺ کے خلاف عمل نہیں کرتے تھے۔ حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ۔ اور نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا حال مجھے معلوم نہیں۔کسی صاحب کو معلوم  ہو تو لکھ دیں۔

آمین بالجہر کے متعل زیادہ تفصیل منظور ہو تو میرا رسالہ اثبات آمین بالجہر جس میں تین سو حوالے دیئے گئے ہیں۔مطالعہ  فرمایئں۔ (نورحسین گھرجاکھی از شیخو پوری 28 جون 1935ء اہل حدیث امرتسر)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 487

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ