سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(277) نیت نماز پر تفصیلات

  • 6065
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 1109

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کی نیت زبان سے  پڑھنا حدیث شریف سے ثبوت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زبان سے نیت کرنے کا ثبوت نہیں نیت دل کا فعل ہے۔ زبانی الفاظ بولنے سے فقہاء نے بھی منع کیاہے۔ نیت صرف یہ ہے کہ دل میں قصد کرے کے نماز پڑھنے لگا ہوں۔ فرض ۔ سنت ۔ نفل۔

حضرات!

 جمیع اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو امر کتاب وسنت سے ثابت ہو قابل تسلیم ہے۔ اس کے ماسوائے پر بعض کا اتفاق ہے اور بعض کا نہیں۔ پس میں شق اول پر رہ کر کچھ کلام کرنا چاہتا ہوں۔  پس معلوم کرنا چاہیے کہ  اسلام میں جمیع اعمال کی مقبولیت نیت پ منحصر ہے پس ہرعامل اپنے عمل کا ثمروہ با اعتبار نیت کے پائے گا۔

"كما في الصحيح عن عمر ابن  خطاب قال قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلم انما الاعمال با النيات و انما لامر مات= نوي الحديث"

پس جب اعمال کی قبولیت نیت پر  منحصر ہے۔ تو اب معلوم کرنا چاہیے کہ ''بالنیات'' جو حدیث میں وارد ہے اس کا کیا معنی ہے۔ پس اولا اس کی تحقیق کتب لغات س کی جاتی ہے۔ تاکہ معنے لٖغوی کے سمجھنے سے معنی شرعی کاسمجھنا آسان  ہوجاوے۔ پھر اس کے بعد علماءے حقانی کی تحقیق درج کی جاتی ہے۔ اور اس بات کا کافی ثبوت دیاجاتا ہے۔ کہ جو نیت عوام میں مشہور اور مروج ہے۔ سو یہ نو ایجاد ہے۔ شریعت حقہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اس کا مبنی قیاس ہے۔ پس معلوم کرنا چاہیے کہ نیات جمع ہے۔ نیت کی اور نیت کے جو معنی کتب لٖغات میں لکھے گئے ہیں یہاں پردرج کئے جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو صراح جو لٖغت کی ایک مشہور اور معتبر کتاب ہے۔ اس میں لکھتے ہیں۔ نوی نیت آمنگ کردن دانتواء کذالک ص 593) (یعنی لوے اور نیت اور انتوا ء کے معنی نیت کرنا) قاموس میں ہے۔ نوی الشی ینویہ نیۃ دخفف قصدہ کانتواہ''(ص 299 جلد ثانی )  اسی طور پر لغات فیروزی عربی میں ہے۔ نیت دل کا ارادہ قصد۔ ص 308 ) لغات فیروزی فارسی میں ہے۔ نیت دل کا ارادہ قصد دلی خواہش   (ص 401)

صراح اور قاموس میں نوے اور نیت کے اور بھی چند معنی لکھے ہیں۔ لیکن سب مجاز ہیں۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ اذا مكن الحقيقة لا يصار الي المجاز۔ پس نیت بااعتبار لغت کے متعین ہوگیا ارادہ قلبی کو۔ دیگر یہ کہ ان معنی کا بھی تعلق جیساکہ ارادہ قلبی کو ہے۔ بولنے کو نہیں۔ اور ارادہ قلبی منافی ہے۔ قول کے پس بعض علماء کا یہ قول کے نیت دل اور زبان سے کرنااٖفضل ہے۔ تاکہ زبان دل کے موافق ہوجائے۔ اور ظاہر باطن کے مطابق بے دلیل ہے۔ ایسا قیاس نص کے مقابلہ حجت نہں بلکہ نیت باعتبار لغت کے ارادہ قلبی ہے۔ اور بس پس معنی لغوی اور شرعی میں ضرور کوئ مناسبت ہونا چاہیے۔ لہذا جو معنی شرعی علماء حقانی نے نیت کے بیان کئے ہین ان کو زکر کیاجاتاہے۔

ملاحظہ ہو

"وقال النووي النية القصد وعزيمة  القلب وايضا قال البيضاوي النية عبارة عن انبعاث القلب نحو ما يراه موافقا لغرض ن جلب نفع او دفع ضر حالا ومالا والشرع خصصه بالا راوة التوجخ نحوالفعل لا بتفاء رضا الله وامتثال حكمه والنية في الحديث محمول علي المعني اللغوي الخ"

(فتح الباری پارہ اول ص 7) اورکہا امام نووی (شارح صحیح مسلم)  نے نیت کا قصد کرنا دل کی پختہ بات اور کہا بیضاوی نے نیت عبارت سے ابھارنا دل کاس امر کی طرف جو اپنی غرض کے موافق دیکھتا ہے تحصیل نفع کےلئے یا دفع ضرر کےلئے حالا و مالا اورشرع نے خاص کردیا۔ فعل کے بجا لانے کے ارادہ کو اللہ  کی رضا جوئی کے لئے اور اس کے امرکی بجا آوری کے لئے اور نیت مذکورہ حدیث میں محمول ہے معنی لغوی پر ۔ انتھیٰ

یہ عبارت کسی تفصیل کی محتاج نہیں۔ بلکہ ڈنکے کی چوٹ اس امر کو ثابت کرتی ہے۔ کہ حدیث میں جو نیات وارد ہے۔ اس سے معنی لغوی یعنی کسی فعل کے بجا لانے کا ارادہ کرنا ہی مراد ہے۔ دیگر ہیچ۔

بایں وجہ اس حدیث کو بعض محدثین نے جملہ شریعت اور بعض نے نصف اور بعض نے ثلث قرار دیا ہے۔ جیس کہ عون الباری شرح صحیح البخاری میں ہے۔

قال ابن معدي ايسضا ينبغي ان يجعل هذا الحديث راس كل باب ووجه البيعقي كزنه ثلث العلم بان كسب العبد يقع بقلبه ولسانه وجوارحه فالنية احد اقسامه اثلاثة وارجحها الانها قد تكون عبادة مستقلة وغيرا يحتاج اليها ومن ثم وردنيه المومن خير من عمله وكلاك الامام احمد يدل علي ايه اراد بكون ثلث الاعلم انه احد قواعده ثلاثه التي ترد اليها جميع الاحمام(ص43 برحاشیہ نیل لاطار)

’’اور کہا ابن مہدی نے لائق ہے کہ اس حدیث کو ہر باب کا سر قرار دیا جاوے۔ اور بیہقی نے اس حدیث کے ثلث علم ہونے کی توجیہ بیان کی گئی ہے۔ کہ بندہ کا فعل یا  تو دل سے ہوتا ہے۔ یا زبان جوارح سے  پس نیت ان تین سے ایک ہے۔ اور ان کی ارجح ہے۔ کیونکہ یہ عبادت مستقللہ ہے۔ اور اس کے ع لاوہ افعال جوارح ،لسان اس کے محتاج ہیں اس واسطے وارد ہوا مومن کی نیت بہتر ہے۔ اس  کے عمل سے اور امام احمد کا کلام بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نیت ایک ہے دین کے قواعد ثلاثہ کی جن کی طرف احکام راحج ہوتے ہیں۔‘‘

اس عبارت سے بخوبی روشن ہوگیا کہ نیت فعل قلب ہے۔ نہ فعل لسان کیونکہ  فعل عہد تو مقسم ہے۔ اور ہرسہ افعال اس کی اقسام ہیں۔ اور یہ بالبداہت ثابت ہے۔ کہ قسم شے کی اس کی قسم کے مٖغائر ہے پس اگر نیت کو بولا  بھی جائے گا تو فعل لسان ہوجائےگا۔ نہ فعل قلب یا حقیقت مستعملہ کا بدلنا لازم آئے گا۔ وھما  محذوران ۔ پھر آگے اس کی لغوی تحقیق لکھتے ہیں۔

''یعنی نیات جمع ہے نیت کی باب ضرب سے بمعنی قصد کرنا۔ اور کہا جاتا ہے نومی سے بمعنی دوری کے اور اور اول معنی اولیٰ ہے اور نیت کی جو جمع آئی ہے باعتبار انواع کے ہے کیونکہ مصدر کی جمع ا کی انواع کے اعتبار سے آسکتی ہے۔ باعتبار مقاصد نیت کرنے والوں کے مثل قصد کرنے اللہ کی رضا کے یا اس کے وعدہ حاصل کرنے کے یا س کی وعید سے ڈرنے کا اور معظم الروایہ میں نیت باعتبار اصل کے مفرد آیا ہے۔ واسطے اتحاد محل کے اور وہ قلب ہے جیسا کہ اس کا واحد مرجع ہے۔ یعنی اخلاص وحدہ لاشرک کا پس اس کا مفر د آنا مناسب ہے۔ بخلاف اعمال کے پس وہ متعلق ہے۔ ظواہر کے اور متعدد ہے۔ بایں وجہ اس کی جمع آنا مناسب ہے اور نیت یہاں محمول ہے۔ معنی لغوی پر انتہیٰ

پاس قطعی فیصلہ ہوچکا کہ حدیث میں جو نیت وارد ہے۔ اور جس پر عمل کی قبولیت کا مدار ہے۔ بمعنی ارادہ قلبی ہے۔ اور بس اگرزبان سے بولنے کی قید زائد کو بھی اس کے ساتھ ملحق کیا جاوے گا۔ توضرور معنی لغوی  میں تغیر پید ا ہوجاوے گا۔ پس جیسا کہ نماز کے اور اور اخواط (1)۔ میں نیت بلفظ باللسان کو غیر مشروع کہا جاتا ہے۔ اس میں بالاولیٰ کہنا چاہیے۔ اسی واسطے شیخ عبد الحق مرھوم محدث دہلوی نے اس کے بارہ میں بہت اھچا فیصلہ کیا ہے۔ (از محمد ابو المنصور صاحب کھڈیلہ ضلع جیپور شیخاواٹی 4  رجب 43ہجری)

-----------------------------------------------------------------

1۔ روزہ حج زکواۃ وغیرہ 12 منہ

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 474

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ