سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) آمین بالجہر کہنے والے کو مسجد سے نکالنا

  • 6050
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-10
  • مشاہدات : 794

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آمین بالجہر کہنے والے کو کسی صورت میں مسجد سے نکالنا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ تفسیراحمدی کی عبارت زیل سے دلیل پکڑتے ہیں۔ کہ انکو مسجد میں  نہ آنے دیا جائے ۔ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨سورة الأنعام

"يعم المبتدع والفاسق والكافر والقعود مع كلهم ممتنع"(تفسیر احمدی ص 255)  از ملاجیون)

’’یعنی قوم ظالمین جن کے پاس اللہ تعالیٰ نے بیٹھنا حرام فرمایا متبدع فاسق اورکافر سب کوشامل ہے۔ لہذاان سب کے پاس بیٹھناحرام ہے۔‘‘ اسی طرح ایسےلوگوں کے متعلق یہ روایت بھی بیان کرتے ہیں

"اياكم واياهم لايضلونكم ولا يفتنونكم۔"

’’یعنی اپن آپ کو ان سے دور رکھو۔ اوران کواپنے سے دورکرو۔‘‘

کیااس آیت اور روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے۔ کہ آمین بالجہر کہنے والے کو مسجدسے نکال دیناچاہیے۔ یا ان کا مطہب اورکچھ ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آمین بالجہر ایک ایسافعل ہے۔ جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے بہت سے فرقوں میں سنت مانا گیا ہے۔ جن چاراماموں کی تقلید کرتے ہیں۔ ان میں بھی اکثر آمین بالجہر سنت مانتے ہیں۔ اس لئے ایسا فعل کرنے والے کو مسجد سے نکالنا کسی طرح جائز نہیں۔ ایسے شخص کوبدعتی سمجھ کر مسجد سے نکال دینا اس کو عبادت مذکورہ کے ما تحت لانے کی کوشش کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو فعل سب ائمہ دین یا اکثر یا بعض کے نزدیک سنت کے درجے تک پہنچ چکا ہواس کے کرنے والے کوبدعتی  کہنے والا سخت غلطی کرتا ہے۔ جسٹس سیدمحمود جج ہائی کورٹالہ آباد نے مفصل بحث کرکے ثابت کیا تھا۔ کہ آمین بالجہر ان فعلوں میں سے ایک ہے جن کےلئے مسجد بنائی جاتی ہے۔ چاہے اس میں کسی امام کا اختلاف بھی ہو۔ پس ایسے فعل کوبدعت کہنے والا  معاذ اللہ سخت مجرم ہے۔ کیونکہ اس کا یہ فتویٰ امام شافعی ۔ اور امام احمدسے لے کر بٖغداد کے بڑے پیر صاحب تک پہمنچتا ہے۔ یہ سب حضرات آمین بالجہر کے قائل ہیں۔ لہذا ایسے فعل کو بدعت ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ بدعت اس فعل کو کہتے ہیں۔ جوشریعت سے ثابت نہ ہو۔ جیسے قبروں پر گنبد بنانا۔ یا چراغ جلانا۔ یا تعزیہ وغیرہ بناناوغیرہ۔ ایسے کام کرنے والے بدعتی ہیں۔ اورعبارات مذکورہ انہی کے حق میں وارد ہیں۔ کہ ان کے ساتھ دوستانہ رنگ میں نشست برخاست نہ  کی  جائے۔ لیکن اگر یہ لوگ اگر مسجد میں نماز پڑھنے آیئں تو ان کو بھی نہ روکا جائے کیونکہ قرآن شریف میں ایسا کرنے سے منع آیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا﴿١١٤ سورة البقرة

پریوی کونسل لندن کا فیصلہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یعنی آمین بالجہر کہنے والے کو مسجد سے نکالنا تو کیا امامت سے علیحدہ بھی نہ کیاجائے۔ ایسے لوگوں کے جواب میں صرف ایک ہی واقعہ کافی ہے۔ کہ دہلی کی جامع مسجد جو کہ گویا سارے ہندوستان کی جامع مسجد ہے۔ ا س میں آمین بالجہر کہنے والے کو کوئی نہیں روکتا۔ چاہے آمین کہنے والا تمام نمازیوں میں اکیلا ہو۔ اس طرح مکہ شریف اور مدینہ شریف بلکہ کل اسلامی ممالک میں آمین بالجہر کہنے سے نہیں روکا جاتا۔ پس مسلمانوں کو ایسے کام سے بچنا چاہیے۔ جس  کو قرآن شریف نے بہت بڑا ظلم قرار دیا ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ  ثنائیہ امرتسری

جلد 01 ص 454

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ