سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(130) رفع الیدین کرنا،بلند آواز سے آمین کہنا درست ہے یا نہیں

  • 5637
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 2164

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ نماز میں رفع الیدین کرنا اور تینوں جہری نمازوں میں بلند آواز سے آمین کہنا درست ہے یا نہیں اور جو شخص ان دونوں  پرعمل کرے وہ امام اعظم کے مذہب سے باہر ہوجاتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علمائے حقانی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت رفع یدین کرنےمیں لڑنا جھگڑنا ، تعصب اور جہالت سے خالی نہیں ہے کیونکہ مختلف اوقات میں رفع الیدین کرنا اور نہ کرنا دونوں ثابت ہیں اور دونوں طرح کے دلائل موجود ہیں، شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفرالسعادت میں طرفین کے دلائل بیان کرکے لکھا ہے کہ دونوں طریقوں کو ماننےکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے مولانا عبدالعلی لکھنؤی ارکان اربعہ میں طرفین کے دلائل لکھ کر فرماتے ہیں: ’’اگر نہ کرے تو بہتر ہے اور اگر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے‘‘ لیکن اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بہت سے صحابہ کرام سے رفع یدین ثابت ہے، چنانچہ عراقی نے شرح تہذیب میں اورمولوی سلام اللہ حنفی نےمحل شرح مؤطا میں پنجاہ صحابہ سےرفع یدین نقل کی ہے۔ سیوطی نے تئیس صحابہ سے رفع یدین نقل کی ہے اور مجدالدین فیروز آبادی صاحب قاموس نےسفر السعادت میں لکھا ہے کہ مرفوع احادیث اور آثار و اخبار رفع یدین کے متعلق اکٹھے کئے جائیں تو ان کی تعداد چار سو تک پہنچتی ہے اور رفع یدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ بالکل بلا دلیل ہے۔

رکوع کو جاتے اور رکو ع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا حضرت ابن عمرؓ کے علاوہ مالک بن حویرثؓ، ابوہریرہؓ، علیؓ، ابوحمید ساعدیؓ، ابن عباسؓ، انسؓ، جابرؓ، صہیبؓ، ابوموسیٰؓ، ابوسعیدؓ، سہل بن سعدؓ، محمد بن مسلمہؓ، ابوقتادہؓ، ابوموسیٰ اشعریؓ، عمرولیثی ؓوغیرہ صحابہؓ سے حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے،امام شافعی نے کتاب الامام میں چودہ صحابہ سے رفع یدین کی روایتیں نقل کی ہیں۔ امام بخاری نے رفع یدین کو سولہ صحابہؓ سے روایت کیاہے۔حاکم کہتےہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو عشرہ مبشرہ نے آنحضرتﷺ سے نقل کیا ہے ۔ ولی عراقی کہتے ہیں کہ میں نے تتبع کیا، تو مجھ کو پچاس صحابہ رفع یدین کی روایت نقل کرنے والے ملے، ابوحمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباسؓ کو رکوع میں جاتے اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے  دیکھا ہے۔ عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابوسعید خدریؓ، ابن عباسؓ اور ابن زبیرؓ کو رفع یدین کرتے دیکھا ہے۔ امام حسن اور ابن سیرین رفع یدین کرتےتھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں ۔ حضرت جابرؓ، انسؓ، ابوہریرہؓ، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم، سعید بن جبیر، امام شافعی، احمد،اسحاق اور تمام اہل حدیث رفع یدین کرتے تھے۔ امام ابوحنیفہ اور مالک کی ایک روایت رفع یدین نہ کرنے کےمتعل قہے اور دلیل میں ابن مسعودؓ کی روایت پیش کرتے ہیں کہ ’’انہوں نےآنحضرتﷺ کی نماز پڑھ کر دکھائی اور تکبیر تحریمہ کے سوا اور کسی جگہ رفع یدین نہ کی‘‘ ابوداؤد نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے،ابن مبارک کہتے ہیں یہ حدیث ثابت نہیں ہے ، امام احمد، یحییٰ بن آدم، بخاری، ابوداؤد، ابوحاتم، دارقطنی، دارمی، حمیدی، بیہقی، ابن حبان سب نے  اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ امام نووی نے کہا کہ اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے ، ابن قطان نےکہا: ’’ثم لایعود‘‘ (پھرنہ کرتے) کے الفاظ وکیع نے اپنی طرف سے کہے ہیں، دارقطنی نےکہا ، یہ لفظ ’’لا یعود‘‘ صحیح نہیں ہے، امام ترمذی کرتے ہی کچھ صحابہ سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے ، ابن حزم نے  اس حدیث  کو صحیح کہااور ترمذی نے حسن۔

قصہ مختصر رفع یدین کاثبو ت اورعدم ثبوت دونوں مروی ہیں ، اس اختلاف سے وجوب کی نفی تو ثابت ہوسکتی ہے اس کی عدم سنیت ثابت نہیں ہوتی اور عبداللہ بن عمرؓکا رفع یدین نہ کرنا اس کے مستحب ہونےکے  مستحب ہونے کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ ابن عمر ؓنے کبھی خیال نہ کیا ہوتو استمرار رفع یدین سے انہوں نے انکار کیا ہو اور اس سے زیادہ سے زیادہ نفی وجوب رفع تو ثابت  ہوسکتی ہے، عدم سنت نہیں، رفع یدین کے اثبات کی مندرجہ بالاتقریر سے بخوبی واضح ہے۔ کہ یہ حدیث متواتر ہے ،فیروز آبادی کے قول کے مطابق چار سو حدیثیں ، آثار و اخبار اس کے ثبوت میں موجود ہیں۔

پھر آنحضرتﷺ اپنی آخری زندگی تک رفع یدین کرتے رہے ہیں، چنانچہ امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں حضرت ابن عمرؓ سے حدیث روایت کی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے وقت تک آپ کی نماز رفع یدین سے ہوتی رہی، عبداللہ بن عمرؓ کہتےہیں کہ یہ حدیث میرے نزدیک ہر اس آدمی پر حجت ہے جواس کو سنے، رفع یدین  اپنی صحت اور تواتر اور ایک جم غفیر سے روایت کے بعد منسوخ نہیں ہوئی، آنحضرتﷺ کے بعد بھی یہ صحابہ ؓ اور تابعین کا معمول رہی ہے جیسا کہ معین الدین سندھی نے دراسات اللبیب میں بیان کیاہے اور اگر اس کی زیادہ تحقیق مطلوب ہو تو شاہ اسماعیل شہید کی کتاب تنویر العتیین ملاحظہ فرمائیں، آپ پر حق واضح ہوجائے گا۔

اور ایک دو مسائل میں امام صاحب کےقول کو چھوڑ کر دوسرے اقوال پرعمل کرلینے سے کوئی آدمی ان کے مذہب سے خارج نہیں ہوجاتا چنانچہ اس مسئلہ کی پوری تحقیق معیار الحق میں موجود ہے ، اس کو ملاحظہ کرکے تسلی کریں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہےکہ جمہور اور اکثر علماء کے نزدیک آمین بالجہر کہنا سنت ہے اور ان کے دلائل حسب ذیل ہیں، وائل بن حجر کہتے ہیں کہ  آنحضرتﷺ جب غیر المغضوب علیہم ولاالضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے ، ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ جب ولاالضالین پڑھتے تو آمین کہتے ، جس کو پہلی صف والے سن لیتے ، ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب آپ الحمد کی قرأت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے، اس کی سند بخاری مسلم کی شرائط پر ہے۔ وائل بن حجر کہتےہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے ولاالضالین کہا تو بلند آوازسے آمین کہی، دوسری حدیث میں ہے کہ ہم نے آپ کی آمین سنی، وائل بن حجر کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے ولاالضالین کے بعد آمین بلند آواز اور مد کے ساتھ کہی،ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب آپ نے ولاالضالین کہا تو اتنی آمین کہی کہ پہلی صف والوں نے سن لی پھر صحابہ کی آمین سے  مسجد گونج اٹھی ۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ میں نےنبیﷺ سے سنا کہ جب  ولاالضالین پڑھتے تو آمین کہتے ، ابن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ولاالضالین کے بعد آپ کی آمین سنی۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا:جتنا حسد یہودی تمہاری آمین اور سلام پر کرتے ہیں اتنا اور کسی چیز پر نہیں کرتے، سو تم  آمین بلند آواز سے کہا کرو اور فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہوجائے اس کے پہلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔

پس مقتدی کو چاہیے کہ حضرتﷺ کی اقتداء کرے یعنی جس طرح سے آنحضرتﷺ آمین پکار کر کہتے تھے اسی طرح مقتدی بھی پکارکر کہے کہ اقتداء آنحضرتﷺ کی پائی جائے کیونکہ رسول مقبولﷺ نے فرمایا: صلوا کما رأیتمونی اصلی(ترجمہ) ’’یعنی پڑھو نماز جیسا کہ مجھ کو نماز پڑھتے دیکھا تو نے ‘‘

جب رسول اللہ ﷺ بلند آواز سے آمین کہتے تو ہمیں بھی بلند آواز سے کہنا چاہیےکیونکہ آپ نے فرمایا ہے جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسی ہی نماز تم بھی پڑھا کر، اکثر علماء نےکہا، آمین بلند آواز سے کہنا چاہیے۔

مولانا عبدالعلی ارکان اربعہ میں فرماتے ، آمین آہستہ کہنے کے بارے میں صرف ایک حدیث ہے اور وہ  بھی ضعیف ہے۔آہستہ آمین کہنا ہمارا مسلک ہے مگر اس کے متعلق علقمہ بن وائل کی حدیث کے سوا اور کوئی حدیث نہیں ہے اور وہ  حدیث ضعیف ہے لیکن معاملہ آسان ہے، آمین کہنا سنت ہے اور آہستہ یا بلند کہنا مستحب ہے ،مولانا اسماعیل شہید تنویر العینین میں فرماتے ہیں کہ آمین آہستہ کہنے سے بلند آواز سے کہنا بہتر ہے۔

حاصل کلام کا یہ ہے کہ تامین بالجہر نماز جہریہ میں امام شافعی  وامام احمد جمہور علماء کےنزدیک جائز ہے اور امام ابوحنیفہ و دیگراہل کوفہ کے نزدیک تامین نماز جہریہ میں سرا مطلق جائز ہے اور استدلال جمہو رکا حدیث وائل سے ہے۔                        (سید محمد نذیر حسین)

فائدہ:

مستدرک حاکم میں ہے، بلال کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لا یستغنی بآمین‘‘ یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے ، گو انہوں نےاس کو روایت نہیں کیا  امام احمد بن حنبل ابوہریرہ کی حدیث کی بنا پر بلند آواز آمین کہتے اور مدینہ کے فقہاء کا بھی یہی مذہب ہے۔

واضح ہو کہ حاکم نے جو بلال سے راویت نقل کی ہے ، اس میں دو غلطیاں ہیں ایک تو یہ کہ بلال کے قول کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے یعنی یہ حدیث حقیقت میں موقوف ہے جسے مرفوع بنا دیا گیا ہے اور دوسری غلطی یہ ہے کہ ’’لا تسبقنی بآمین‘‘ (مجھے آمین کہنے لینے دینا) کے الفاظ کو ’’لا یستغنی بآمین‘‘ بنا دیا گیا ہے ، چنانچہ صحیح روایت  میں ’’ لا نسبقنی بامین‘‘ کے لفظ آئے ہیں اور اس کی نظیر ابوہریرہؓ کی حدیث ہے جسے  بخاری نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ اپنے امام علاءبن حضرمی کو آواز دیا کرتے تھے کہ میری آمین فوت نہ ہونے دینا ،ابن عساکر کی روایت میں ہے کہ مجھ سے  آمین پہلے نہ کہہ لینا اس کی وجہ یہ تھی کہ ابوہریرہؓ مروان کے مؤذن تھے، ابوہریرہؓ نے مروان سے شرط کرلی تھی کہ میں اس صورت میں مؤذن بنوں گا کہ ولاالضالین میرے نماز شرو ع کرنے سے پہلے نہ کہہ لینا کیونکہ حضرت ابوہریرہؓ کے ذمہ بحیثیت مؤذن یہ ڈیوٹی بھی تھی کہ صفوں کو درست کریں اور اقامت وغیرہ کہیں اور مروان ابوہریرہؓ کے فارغ ہونے سے پہلے ہی نماز شروع کردیا کرتا تھا، تو ابوہریرہؓ نے اس لیے یہ شرط کی تھی۔

امام احمد بن حنبل کے مذہب کے مطابق امام و مقتدی ترتیب دار بلامہلت آمین کہیں چنانچہ فقولوا کی فاء سے یہ معنی مستنبط ہوتا ہے کہ فاء ترتیب بلامہلت کے لیے آتی ہے۔

عجیب لطیفہ ہے کہ احناف میں سے بعض نے لفظ ’’لا یستغنی ‘‘ کو غنا سے سمجھ لیا ہے اور پھر  یستغنی کا معنی یتغنی قرار دیا ہے یعنی آمین بلند آواز سے نہ کہو یہ بناء فاسد علی الفاسد ہےکہ استغناء کا معنی عربی زبان میں تیغنی کبھی نہیں آیا، جو اس  کا دعوے کرے وہ دلیل بیان کرے یہ صرف کاتب کی غلطی تھی جس سےمطلبق براری کی کوشش کی گئی ہے اور ابوداد کی روایت اس کی شاید ہے، دوسری بات بھی یادرکھنے کے قابل ہےکہ مستدرک کی روایت میں شعبہ ہے اور ابوداؤد کی روایت میں سفیان ہے، جو شعبہ کے قائم مقام ہے، اگر بالفرض اسے  کاتب کی غلطی تسلیم نہ کیاجاوے تو شعبہ کا مقابلہ سفیان سے ہوگا اورحاکم و ابوداؤد کے اختلاف روایت میں ابوداؤد ، حاکم سے مقدم ہے، اسی طرح سفیان شعبہ پرمقدم ہوگا، چنانچہ خود شعبہ کاقول ہے کہ  سفیان مجھ سے زیادہ احفظ ہے ۔ یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ اگرکوئی بھی آدمی سفیان کی مخالفت کرے گاتو قول سفیان ہی کا معتبر ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ مستدرک کی روایت سے جو آمین بالجہر کی ممانعت ثابت کرے وہ غلطی پر ہے۔ واللہ اعلم۔                   (سید محمد نذیرحسین)

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ