سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) اختلاف کرنے والے مسجد میں نماز پڑھنے کا حق رکھتے ہیں یانہیں

  • 5610
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 788

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں  کہ مسجد میں  متولی یامنتظم مسجد یا اہل محل دوسرے محلہ کے مسلمانوں اہل سنت کو خصوصاً جو لوگ نماز میں  رفع الیدین اور آمین پکار کر اپنے رسول کا طریقہ سمجھ کر کرتے ہیں ان کو اس فعل مذکور کے کرنےسے روک سکتے ہیں یا نہیں اور یہ لوگ امین و  رفع الیدین نماز میں  کرنے والے مسجد میں  نماز پڑھنے کا حق رکھتے ہیں یانہیں اور رفع الیدین اور آمین پکار کر کہنے سے رفع الیدین نہ کرنے والوں اور آمین پکار کر نہ کہنے والوں کی نماز میں  ہرج آتا ہے یانہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

در صورت مرقومہ معلوم کرنا چاہیے کہ مسجد کسی کی ملک نہیں ہے، اس میں  کل مسلمانوں کا حق ہے اور سب نماز پڑھنے کے اس میں  مجاز و مختار ہیں، کوئی کسی کو روک نہیں سکتا، خواہ اس میں  کوئی  آمین رفع الیدین کرے یانہ کرے، سب کا حق اس میں  واسطے نماز کے متعلق ہے۔ علاوہ اس کے خود بانی مسجد کسی کو روک نہیں سکتا۔ پھر متولی اورمنتظم وغیرہ کو کیا اختیار ۔ اگر مسجد کابانی اس ارادہ سے مسجد تعمیرکرے کہ سوائے اہل محلہ کے دوسرے محلہ والے اس میں  نماز نہ پڑھیں تو یہ ارادہ اس کا شرعاً لغوو باطل ہے، بلکہ اہل محلہ اور غیراہل محلہ سب اس میں  نماز پڑھنےکا اختیاررکھتے ہیں اور روکنا مسجد سے نمازی کو گناہ کبیرہ ہے اور اصرار اس پرکفر ہے جیسا کہ  نہایہ حاشیہ ہدایہ اور فتاوے عالمگیری اور البحرالرائق وغیرہ میں  مذکور ہے۔

(ترجمہ)’’متقدمین میں  قرآن مجید کو غلاف میں   بند کرنا مکروہ سمجھتے تھے تاکہ تلاوت قرآن سے منع کی صورت نہ بن جائے اور مسجد سے روکنا تو اس سے بھی بدتر ہے کیونکہ قرآن تو کسی آدمی کی ملکیت ہوتا ہے اور مسجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتی اور اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ کسی آدمی کومسجد میں  داخل ہونے سے روکا جائے، خصوصاً کسی دنیوی عداوت سے یہ سب جہالت کی باتیں ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ یہ کبیرہ گناہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’مسجدیں اللہ کی ہیں‘‘ تو کسی آدمی کو جائز نہیں کہ کسی مسجد سے مسلمان کو عبادت کرنے سے روکے ، کیونکہ مسجدیں تو بنائی ہی اس لیے جاتی ہیں ، مثلاً نماز، اعتکاف، شرعی تعلیم و تعلم اور قرآن کی تلاوت کے لیے ، اگر کوئی آدمی کسی خاص محلہ والوں کے لیے مسجد بنائے تو  دوسرے محلہ والوں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ اس میں  آکر نماز پڑھ لیں۔‘‘

اور آمین و رفع الی دین احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،کما لا یخفی علی الماہر  بالصحاح الستۃ اور علمائے حنفیہ بھی ان کے صحیح ہونےکے قائل ہیں اور فقہاء نےبھی لکھا ہے کہ آمین و رفع الیدین مفسد صلوٰۃ نہیں ہیں پس عاملین بالحدیث کو مسجد میں  نہ جانے دینے کی کیا وجہ سوائے عداوت و تعصب مذہب کے اور کوئی وجہ نہیں ہے۔

(ترجمہ) ’’ رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں سنت ہیں اور ہرایک مسلک کو صحابہ، تابعین اور بعد کےلوگوں کی ایک جماعت نے پسند کیا ہے، یہ ان مواقع میں  سے ایک ہے جن میں  مدینہ  اورکوفہ والوں کا اختلاف ہے اور فریقین کے پاس دلائل ہیں، میرےنزدیک صحیح یہ ہے کہ دونوں سنت طریقے ہیں اور اس کی مثال ایک یا تین رکعت و تر پڑھنا ہے، البتہ رفع الیدین کرنے والے مجھے نہ کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہیں کیونکہ رفع الیدین کرنے کی حدیثیں زیادہ بھی ہیں اور صحیح بھی ہیں۔‘‘

مولانا بحرالعلوم حنفی رفع الیدین کے بارہ میں  رفع اور عدم رفع کی حدیثیں نقل کرکے اپنی کتاب ارکان اربعہ میں  فرماتے ہیں:

(ترجمہ) ’’آنحضرتﷺ اور صحابہؓ کا عمل اس میں  مختلف رہا ہے ہاں نماز شرو ع کرتے وقت رفع یدین کرنے میں  اختلاف نہیں ہے اور اس  کےعلاوہ اورجگہوں میں  اگر رفع یدین نہ کرے تو بہتر ہے اور اگر کرے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔‘‘

اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب صراط مستقیم میں  طرفین کے استدلالات بیان کرکے یوں کہتے ہیں ، پس  چارہ نیست از سنیت ہردو  فعل انتہی۔

(ترجمہ) ’’رفع یدین کرنےسے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ نماز اس فعل سے فاسد ہوتی ہے جس سے خدا  کا قرب حاصل نہ ہو (گویا رفع یدین کرنے سے خدا کا قرب نصیب ہوتا ہے)‘‘                                      (سید محمد نذیر حسین)

ھوالموفق:

مولانابحرالعلوم عبدالعلی حنفی نے  نفس تامین کو سنت ٹھہرایا ہے اور بالجہر اور بالسر دونوں کو مندوب بتایا ہے ،چنانچہ ارکان اربعہ میں  فرماتے ہیں:

(ترجمہ) ’’امام اور مقتدی کا آمین کہنا تو حضرت ابوہریرہؓ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول  اللہﷺ نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو جائے گی، اس کے پہلے گناہ معاف ہوجائیں گے ، ہمارا مذہب یہ ہے کہ آمین آہستہ کہی جائے اور اس کی دلیل علقمہ بن وائل کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی ، جب آپ ولاالضالین پر پہنچے تو آہستہ آواز سے آمین کہی اور یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس امر میں  وسعت ہے سنت صرف آمین کہنا ہے اور آہستہ کہنا یابلند آواز سے کہنا دونوں ٹھیک ہیں۔‘‘

کتبہ محمد عبدالرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ