سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) قربانی و فطرہ کے روپیہ مخلوط کرکے ایک مسجد تیار کی

  • 5599
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 853

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں  کہ ایک شخص نے سود خوار سے سودی روپیہ قرض لے کراور اس میں  قربانی و فطرہ کے روپیہ مخلوط کرکے ایک مسجد تیار کی، اور اس کے قریب ڈیڑھ سو ہاتھ کے فاصلہ پر دوسری مسجد موجود ہے، آیا یہ مسجد جدید حکم مسجد کا رکھتی ہے یا نہیں اور اس میں  نماز جائز ہے یا نہیں ا گر قرض ادا کردے تب   بھی کیا نماز جائز ہے یا نہ۔ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سود خوار سے سودی قرض لینا اور اس سے مسجد بنانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مال حرام ہے اور مال حرام اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ صحیح مسلم میں  ہے: عن  [1]ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم ان اللہطیبلا یقبل الاطیبا ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی شرح مشکوٰۃ  میں  فرماتے ہیں، معنی حدیث آن است کہ چون دے تعالےٰ پاک است و رزق حلال رابسسبب پاک بودن اواز چرک حرمت چون بجانب اقدس او نسبتے است قابل آن است کہ بوے تقرب بجانب عزت او توان کرد و حرام کہ ضدادست قابل آن نبود انتہی۔

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔ از مال حرام تصدق کردن چیزے نیست و ثوابے ندارد۔ اور موطا امام مالک میں  سعید بن بسیار سےمرفوعا مردی ہے ، من[2] تصدق بصدقۃ من کسب طیب ولا یقبل اللہ الا طیبا کانما یضعہا فی کف الرحمٰن محلی شرح مؤطا میں  اس حدیث کے تحت میں  مرقوم ہے  فیہ [3]نص علی ان غیر الحلال غیر مقبول انتہی اور جومسجد حرام و ناپاک مال سے بائی جائے وہ حکم میں  مسجد ضرار کے ہے، جیساکہ تفسیرکشاف و مدارک میں  ہے کل[4] مسجد بنی مباھاۃ اوریاء او سمعۃ او لغرض سوی ابتغاء وجہ اللہ او بمال غیرطیب فھو لا حق بمسجد الضرار انتہی۔

اور قربانی اور فطرہ کے روپیہ سے بھی مسجد بنانا شرعاً ممنوع ہے اس واسطے کہ  چرم قربانی اور فطرہ حق مساکین ہے ۔ عالمگیر یہ میں  ہے ۔ ولا[5] یجوز ان یبنی بالزکوٰۃ السمجد وکذا القنا طیرو السقایات واصلاح الطرقات و کری الانہا ر و الحج والجہاد و کل مالا تملیک فیہ انتہی۔ اور قربانی اور فطرہ کا روپیہ اگرچہ پاک و حلال ہے، مگر سود کے روپیہ کے ساتھ مخلوط ہونے کی وجہ سے اس کی طہارت باقی نہیں رہی، بلکہ حکم حرمت کا آگیا الاشباہ و النظائر میں  ہے، اذا[6] اجتمع الحلا و الحرام غلب الحرام انتہی۔ پس عبارات بالا سے ظاہر ہے کہ مسجد جدید حکم مسجد کا نہیں رکھتی ہے بلکہ حکم مسجد ضرار کا رکھتی ہے، لہٰذا جو شخص اس میں  نماز پڑھے گا، اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی اور اگر سود خوار کا روپیہ ادا کردے، جب بھی اس میں  نماز جائز نہیں کیونکہ بنامسجد کی مال حرام سے ہے اور چونکہ مسجد جدید کے قریب دوسری مسجد موجود ہے لہٰذا مسجد جدید باعث ضرر مسجد قدیم ہے۔ اس وجہ سےبھی مسجدجدید کابنانا اور اس میں  نماز پڑھنا جائز نہیں، تفسیر کشاف میں  ہے۔ لما[7] فتح اللہ الامصار علی عمر رضی اللہ عنہ امر المسلمین ان ینبوا المساجد وان لا یتخذوا فی المدینۃ مسجدین یضار احدھما الاخر انتہی۔ واللہ اعلم بالصواب۔ حررہ محمد حمید الرحمن میمن سنگ                             ( سید محمد نذیر حسین)



[1]   آنحضرتﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز ہی کو قبول کرتا ہے۔

[2]   جو آدمی پاک کمائی سے کوئی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک چیز ہی کو قبول فرماتے ہیں، پس گویا اس نے وہ صدقہ خدا کے ہاتھ میں  رکھا۔

[3]   اس میں  صراحت ہے کہ حرام غیر مقبول ہے۔

[4]   ہر وہ  مسجد جو فخر، ریا اور سمعہ یا خدا کی رضا مندی کے بغیر کسی اور غرض سے یا ناپاک مال سےبنائی جائے وہ مسجد ضرار کے حکم میں  ہے۔

[5]   جائز نہیں ہے کہ زکوٰۃ سے کوئی مسجد بنائں یا سقائے تیار کئے جائیں یا سڑکوں کی مرمت اور نہروں کی پٹڑیاں درست کی جائیں یا حج اور جہاد کا سامان مہیا کیا جائے۔ اور ہر وہ چیز جن میں  تملیک نہیں ہے۔

[6]   جب حلال اور حرام اکٹھے ہوجائیںتو حرام غالب آجاتا ہے۔

[7]   جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو فتوحات عنایت فرمائیں تو آپ نے  مسلمانوں کو حکم دیا کہ مسجدیں بناویں اور ایک ہی شہر میں  دو مسجدیں تعمیر نہ کریں کہ ایک سے دوسری کونقصان پہنچے۔

 


فتاوی نذیریہ

جلد 01 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ