کسی عارضہ کی وجہ سے عورت کو حیض کا خون آنا اور اس کے نماز پڑھنے کا حکم
اسلام علیکم۔ یا شیخ، ایک سوال تھا کہ: اگر کسی بیماری، جیسے کینسر، کی وجہ سے عورت کو، حیض کا جگہ خون جاری ہو جائے، تو کیا وہ نماز پڑھ سکتی ہے؟ اور کیا وہ حج و عمرہ کر سکتی ہے؟ (یہ حیض نارمل حیض نہیں ہے، بلکہ کینسر کی وجہ سے ہے!) جلد سے جلد جواب دیں، جزاک
جواب: عورت کو جو خون حیض کے علاوہ بیماری سے جاری ہو، اسے اصطلاح میں استحاضہ کہتے ہیں اور اس بیماری کے خون کے جاری ہونے کی وجہ سے عورت اپنے نماز، روزہ، حج اور عمرہ وغیرہ سے نہیں رکے گی بلکہ ہر نماز کے لیے علیحدہ سے وضو کر لے۔ شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: سوال : اگر عورت كو بہت زيادہ خون آتا ہو كہ وہ استحاضہ والى ہو تو وہ عورت نماز كس طرح ادا كرے گى ؟ الحمد للہ: استحاضہ والى عورت كى تين حالتيں ہيں: پہلى حالت: استحاضہ كا خون آنے سے قبل اسے ماہوارى معلوم ہو، ايسى عورت اپنے حيض كى مدت معلومہ ميں نماز روزہ كى ادائيگى نہيں كرے گى اور ان ايام ميں حيض كے احكام لاگو ہونگے، اور ان ايام كے علاوہ استحاضہ كا خون ہوگا اور اسے استحاضہ كے احكام ديے جائينگے. اس كى مثال يہ ہے: ايك عورت كو ہر ماہ كى ابتدا ميں چھ يوم حيض آتا رہا اور پھر اسے استحاضہ كى بنا پر مسلسل خون آنا شروع ہوا تو ہر ماہ كے ابتدائى چھ روز حيض ہو گا، اور اس كے علاوہ باقى ايام استحاضہ شمار كيا جائيگا. اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے. عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ فاطمہ بنت حبيش رضى اللہ تعالى عنہا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے استحاضہ كا خون آتا ہے اور ميں پاك نہيں ہوتى تو كيا ميں نماز ترك كر دوں ؟ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہيں، يہ رگ كا خون ہے ، ليكن پہلے تجھے جتنے روز ماہوارى آتى تھى اتنے ايام نماز ترك كيا كرو، اور پھر غسل كر كے نماز ادا كرلو "
صحيح بخارى.
اور صحيح مسلم ميں ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا:
" تمہيں جتنے ايام حيض آيا كرتا تھا اتنے ايام ٹھرى رہو اور پھر غسل كر كے نماز ادا كرو "
اس بنا پر وہ عورت جسے حيض كے ايام معلوم ہوں اور بعد ميں استحاضہ آنا شروع ہو جائے تو وہ اپنى ماہوارى كے معلوم ايام نماز روزہ ترك كرنے كے بعد غسل كر كے باقى ايام نماز ادا كرے گى، اور اس وقت اسے خون آنے كى پرواہ نہيں كرنى چاہيے.
دوسرى حالت:
استحاضہ آنے سے قبل اسے معلوم ايام ماہوارى نہ آتى ہو، وہ اسطرح كہ ابتدا ہى سے اسے استحاضہ آ رہا ہو جب سے خون آنا شروع ہوا اسى وقت سے استحاضہ بھى شروع ہو گيا، تو ايسى عورت خون كى رنگت اور كيفيت اور بو كے ساتھ حيض اور استحاضہ ميں امتياز كرے گى، كہ خون سياہ ہو، يا گاڑھا ، يا پھر اس كى بدبو ہو تو يہ حيض كا خون ہے اسے حيض كے احكام ديے جائينگے، اور اس كے علاوہ صفات والے خون كو استحاضہ كے احكام ديے جائينگے.
اس كى مثال يہ ہے كہ:
ايك عورت كو جب بلوغت كے بعد خون آنا شروع ہوا تو خون مسلسل آتا رہا، ليكن دس يوم تك سياہ رنگ كا خون اور باقى ايام سرخ رنگ كا خون آتا ہے، يا پھر دس روز تك تو گاڑھا اور باقى ايام پتلا خون آتا ہو، يا پھر دس يوم تك تو بدبودار جو حيض كى بو ہوتى ہے اور باقى ايام بغير بو كے خون آئے، تو پہلى مثال ميں سياہ، اور دوسرى ميں گاڑھا، اور تيسرى مثال ميں بدبودار خون حيض ہوگا، اور اس كے علاوہ باقى ايام استحاضہ ہے.
كيونكہ فاطمہ بن حبيش رضى اللہ تعالى عنہا كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
" اگر حيض كا خون ہو تو وہ سياہ ہے اور پہچانا جاتا ہے، اس ليے اگر ايسا ہى ہو تو تم نماز ادا نہ كرو، اور اگر كوئى اور خون ہو تو وضوء كر كے نماز ادا كرو، كيونكہ وہ رگ كا خون ہے "
اسے ابو داود، نسائى نے روايت كيا اور ابن حبان اور حاكم نے صحيح قرار ديا ہے.
اگرچہ اس حديث كى سند اور متن ميں كچھ اعتراض ہے، ليكن اہل علم نے اس پر عمل كيا ہے، اور اسے عام طور پر عورتوں كى عادت پر لوٹا اولى ہے.
تيسرى حالت:
نہ تو اس كى ماہوارى كے ايام معلوم ہوں، اور نہ ہى خون كى كوئى امتازى علامت ہو جس سے استحاضہ ميں پہچان ہو سكے، كہ اسے بلوغت كے بعد سے ہى استحاضہ آنا شروع ہوا اور خون بھى ايك ہى طرح كا ہو، يا پھر كئى صفات كا ہو ليكن اس كا حيض ہونا ممكن نہ ہو، تو يہ عورت عام عادت پر عمل كرےگى.
يعنى عام عورتوں كو جتنے ايام ماہوارى آتى ہے وہ اس كى ماہوارى شمار كى جائيگى، تو اس طرح ہر ماہ عمومى عورتوں كى چھ يا سات روز ماہوارى آتى ہے، تو يہ عورت بھى چھ يا سات روز خون آنے كى ابتدا سے حيض شمار كرے گى اور اس كے علاوہ باقى ايام استحاضہ كا خون ہوگا.
اس كى مثال يہ ہے كہ:
ابتدا ميں اسے مہينہ كى پانچ تاريخ كو خون آنا شروع ہوا اور پھر خون مسلسل آتا رہا اس ميں كوئى رنگ وغيرہ كى امتيازى علامت نہ پائى گئى تو اس كى ماہوارى ہر ماہ كى پانچ تاريخ سے چھ يا سات يوم شمار كى جائيگى.
كيونكہ حمنہ بنت جحش رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے بہت زيادہ استحاضہ آتا ہے آپ كى كيا رائے ہے كہ كيا يہ مجھے نماز روزہ سے منع كرتا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں تجھے روئى استعمال كرنے كا طريقہ بتاتا ہوں، اسے آپ وہاں ركھو وہ خون چوس لےگى. تو وہ كہنے لگى: خون اس سے بھى زيادہ ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " بلا شك يہ شيطان كا كچوكہ ہے تم اللہ كے علم ميں چھ يا سات روز تك حيض شمار كرو، پھر غسل كرو حتى كہ جب ديكھو كہ تم پاك ہو گئى ہو تو چوبيس يا تئيس يوم تك نماز ادا كرو اور روزہ ركھو "
اسے امام احمد، اور ابو داود اور ترمذى نے روايت كيا اور صحيح كہا ہے اور امام احمد سے اس كى صحت منقول ہے، اور امام بخارى سے حسن.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
چھ يا سات يوم، يہ بطور اختيار نہيں، بلكہ بطور اجتھاد ہے كہ جو عورتيں اس كى عمر اور خلقت كے مشابہت ہيں انہيں جتنے يوم حيض آئے وہ بھى اس كے مطابق چھ يا سات يوم شمار كرے، اگر چھ قريب ہو تو وہ بھى چھ يوم كرے اوراگر سات زيادہ قريب ہو تو وہ بھى سات يوم ماہوارى شمار كرے. انتہى.
ماخوذ از: رسالۃ فى الدماء الطبيعيۃ للنساء تاليف شيخ ابن عثيمين.
چنانچہ جس وقت ميں يہ حكم لگايا جائے كہ يہ حيض كا خون ہے تو وہ عورت حائضہ شمار ہوگى، اور جس وہ حيض ختم ہونے كا حكم لگائے تو وہ طاہر اور پاك صاف ہے غسل كر كے نماز روزہ كى ادائيگى كرنا ہوگى اور خاوند بھى اس سے تعلقات قائم كر سكتا ہے.