سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(288) صبح کی نماز گھر پر جبکہ ظہر اور بعض اوقات عصر کی نماز..الخ

  • 4719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 809

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض یہ ہے کہ ہم کئی ساتھی ہر روز ملازمت کے سلسلہ میں مختلف شہروں (لاہور، شاہ کوٹ ، مریدکے ، گجرات وغیرہ) سے گوجرانوالہ آتے ہیں۔ صبح کی نماز گھر پر جبکہ ظہر اور بعض اوقات عصر کی نماز دفتر میں ہی ادا کرنا پڑتی ہے۔ مغرب کی نماز دورانِ سفر ادا ہوتی ہے۔ دورانِ سفر والی نماز تو ہم قصر کرلیتے ہیں۔ معاملہ مقام ملازمت والی نماز ظہر کا ہے، یا پھر کبھی کبھار عصر کی نماز۔ بعض ساتھی فرماتے ہیں کہ یہ بھی قصر کرلیا کرو، فضیلت ہے۔ لیکن کچھ کا خیال ہے کہ کسی معروف عالم سے پوچھ لیا جائے۔ اس میں بہتری ہے۔

ہم آپ کی خدمت میں مذکورہ معاملہ پیش کرتے ہیں اور گزارش کرتے ہیں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں تفصیل سے ہماری رہنمائی فرمادیں۔ اللہ آپ کو اجر دے گا۔ ان شاء اللہ۔

        ظہر کی نماز مکمل یا قصر فضیلت کس میں ہے؟اگر دفتر میں پڑھنا پڑے۔     

                                                (محمد اشرف وڑائچ، سپرنٹنڈنٹ بورڈ آف ایجوکیشن، گوجرانوالہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم دورانِ سفر کسی مقام پر ارادہ بناکر ٹھہرے تو آپ سے چار دن سے زیادہ مدت نماز قصر کرنا ثابت نہیں اور تردد کی صورت میں بیس دن سے زیادہ نماز قصر کرنا ثابت نہیں۔ لہٰذا آپ لوگوں نے مقام ملازمت پر ارادہ بناکر چار دن یا چار دن سے کم ٹھہرنا ہے ، تو آپ نماز قصر پڑھیں اور اگر آپ نے مقام ملازمت پر ارادہ بناکر چار دن سے زیادہ ٹھہرنا ہے تو مقام ملازمت پر پہنچتے ہی نماز پوری پڑھیں قصر نہ کریں۔ اور اگر مقام ملازمت پر پہنچ گئے ہیں ، مگر تردد ہے آج جاتا ہوں، کل جاتا ہوں تو اس تردد کی صورت میں آپ زیادہ سے زیادہ بیس دن نماز قصر پڑھ سکتے ہیں۔ بیس دن کے بعد نماز پوری پڑھیں ، قصر نہ کریں۔

رہا آپ کا سوال کہ دورانِ سفر قصر افضل ہے یا اتمام؟ تو قصر افضل ہے ، کیونکہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم سے کسی ایک سفر میں بھی اتمام ثابت نہیں۔ (( وَخَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ  صلی الله علیہ وسلم )) [ اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد  صلی الله علیہ وسلم کا ہے۔‘‘] واللہ اعلم۔                                                                           ۵ ؍ ۱۱ ؍ ۱۴۲۲ھ


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ