نماز عید کا سلام پھیرنے کے بعد ہی خطبہ کے لیے کھڑے ہو جانا چاہیے دعا نہ کرنا اور خطبہ ایک ہی پڑھنا ثابت ہے یا نہیں؟
اس بارہ میں صراحتہً کسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا کہ سلام پھیرنے کے بعد ہی فوراً خطبہ کے لیے کھڑے ہونا چاہیے یا کچھ دیر بعد، لیکن صحیحین میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
قَالَ خَرجَ رَسُوْل اللّٰہِ ﷺ یَوْمَ الْاَضْحٰی اَوْ فِطْرٍ اِلِی الْمُصَلّی فَصَلیَّ ثُمَّ اَنْصَرَفَ فَقَامَ فَوَعَظَ النَّاسَ۔
یعنی رسول اللہﷺ نے عید الاضحی یا عید الفطر کے دن مصلی میں نماز پڑھائی، پھر وہاں سے علیحدہ ہو کر کھڑے ہو کر لوگوں کو وعظ فرمایا۔
اس حدیث میں لفظ ثم دلالت کرتا ہے کہ نماز کے بعد آپ نے کچھ تاخیر فرمائی اور فی الفور خطبہ کے لیے کھڑے نہیں ہوئے۔ مگر دعا وغیرہ کا کچھ ذکر نہیں، لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ دعا کرنا ہر نماز کے بعد ثابت ہوا ہے۔ خواہ عید ہو یا غیر عید ہاتھ اُٹھا کر کی جائے یا بغیر ہاتھ اٹھائے، صلوٰۃ عید کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے، عیدین میں دو خطبوں کا پڑھنا کسی حدیث سے صحیح ثابت نہیں، صرف اس قدر ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ نے بعد نماز عید خطبہ پڑھا اور وعظ فرمایا۔ دو خطبے پڑھنے والے جمعہ پر قیاس کرتے ہیں۔ واللہ اعلم
(فتاویٰ عمر پوری ص۷)
ایک خطبہ کی بھی صراحت موجود نہیں، ہاں ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں عید کے دو خطبوں کی نص موجود ہے اگرچہ اس کی سند میں کچھ کلام ہے لیکن قیاس کے موافق ہے اور تعامل امت سے تقویت حاصل ہے۔ واللہ اعلم بالصواب وعندہٗ علم الکتاب
حررہ محمد سعیدی ، مہتمم جامعہ سعیدیہ خانیوال