کیا فرماتے ہیں علمائے دین متین اس میں کہ ایک شخص تکبیرات عیدین سات تکبیر قبل قرأۃ کہتا ہے۔ سوا تکبیر تحریمہ کے اس طریق پر کہ اوّل تکبیر افتتاح کی کہتا ہے بعد اُس کے سبحانک اللھم یا غیرہ پڑھتا ہے، پھر سات تکبیریں کہہ کر قرأۃ شروع کرتا ہے اور متصل تکبیر افتتاح کے وضع دست راست برچپ کرلیتا ہے اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قبل قرأۃ کہہ کر چھٹی تکبیر رکوع کی جب کہتا ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ اور محمد بن اسمٰعیل نے کہا اور دوسرا شخص سات تکبیریں مع تکبیر افتتاح کے کہتا ہے اور متصل تکبیر افتتاح کے چھ تکبیر کہتا ہے۔ اور بعد تکبیروں سبعہ کے قرأۃ شروع کرتا ہے۔ اور سبحانک اللھم نہیں پڑھتا اگر پڑھنے کا قائل بھی ہے تو بعد سات تکبیر متصلہ کے اور رفع یدین نہیں کرتا وقت تکبیرات سبعہ کے بلکہ ارسال کرتا ہے جب قرأۃ ثانیا پڑھے تو وضع یدین کرتا ہے تکبیروں میں قول ابن قیم رحمہ اللہ کا پیش کرتا ہے اور ارسال میں قائل ہے بسبب نہ پانے دلیل جدید کے دونوں میں کس کا قول قرین ثواب ہے؟ بینوا توجروا
حدیثوں کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت میں سات تکبیریں مع تکبیر افتتاح کے ہیں رسول اللہﷺ عید الفطر اور عیدالضحیٰ میں اور اوّل رکعت میں سات تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں پانچ، اس حدیث کو ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور تکبیر افتتاح کے سات تکبیروں کے خارج ہونے کے واسطے کوئی بین دلیل چاہیے اور جب کوئی دلیل بین (ظاہر) نہیں پائی جاتی تو صاف ظاہر ہے کہ تکبیر افتتاح انہی سات تکبیروں میں داخل ہے۔ زادالمعاد میں ہے کہ رسول اللہﷺ تکبیر افتتاح کے سمیت سات تکبیریں پے در پے کہتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ ابن قدامہ مقدسی حنبلی نے عمدہ میں لکھا ہے کہ آپ پہلی رکعت میں مع تکبیر تحریمہ کے سات تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں تکبیر قیام کے سوا پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ ابن ابی زید مالکی جو کہ اکابر متقدمین مالکیہ سے ہیں اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ نمازی پہلی رکعت میں مع تکبیرات تحریمہ کے سات تکبیریں کہے اور دوسری میں تکبیر قیام کے سوا پانچ تکبیریں۔ اور تکبیر تحریمہ کے بعد دعا استفتاح پڑھنے کے وقت ہاتھ باندھنا افضل اور بہتر ہے۔ جس طرح سے کہ اور نمازوں میں کیا جاتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک بھی پسندیدہ قول یہی ہے۔ کبیری شرح منیہ میں لکھا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھوں کو زیر ناف رکھے اور دعا استفتاح شروع کرے، شرح منہاج میں امام نووی رحمہ اللہ شمس الدین محمد بن احمد شافعی نے لکھا ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان داہنے ہاتھ کا بائیں ہاتھ پر سینہ کے نیچے رکھنا مستحب ہے جیسا کہ تکبیر تحریمہ میں کیا جاتا ہے۔ حنابلہ نے ہر قیام میں ہاتھ باندھنے کو اختیار کیا ہے۔ قیام بعد الرکوع میں بھی حنابلہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ امام ابو القاسم رافعی نے شرح و جیز غزالی رحمہ اللہ میں لکھا ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک درمیانی آیت کی مقدار ٹھہرنا چاہیے یہ شافعی رحمہ اللہ کے لفظ ہیں، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول اور فعل بھی اسی طرح نقل کیا گیا ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص میں لکھا ہے کہ میں کہتا ہوں اس حدیث کو طبرانی اور بیہقی نے موقوف روایت کیا ہے اور سند اس کی قوی ہے اور اسی بارہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ اور ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ علامہ ابن قدامہ مقدسی نے عمدہ میں لکھا ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ دونوں ہاتھ اٹھاوے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمد کرے اور رسول اللہﷺ پر دورد بھیجے۔ محمد بن عبدالوہاب نے اپنی کتاب مختصر میں لکھا ہے دعا افتتاح یعنی سبحانک اللھم وغیرہ پڑھی جائے اول ان کے میں اور درمیان ہر دو تکبیروں کے اللہ کی حمد کی جائے اور ثنا کہی جائے اس پر اور نبیﷺ پر درود بھیجا جائے۔ منہاج میں لکھا ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک درمیانی آیت کی مقدار ٹھہرے اور لا الہ الا اللہ پڑھے اور اللہ کی بڑائی اور بزرگی بیان کرے۔ اور تحفہ شرح منہاج میں لکھا ہے کہ اس کو بیہقی نے عبداللہ بن مسعود سے قولاً و فعلا نقل کیا ہے اور سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کا پڑھنا اچھا جانا ہے۔ اور تحفہ شرح منہاج میں لکھا ہے کہ اگر یہ پڑھے جس کو لوگ پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے اللہ اَکْبَر کِبَیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا سُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃ وَّاَصِیْلاً وَصَلَی اللّٰہ عَلَی سَیِّدَنَا مُحَمَّد تسلیم کثیرا تو بہت اچھا ہے۔ ابن الصباغ نے اس کو کہا ہے اور روض شرح زاد میں لکھا ہے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان یہ کہے اَللّٰہُ اَکْبَر کِبَیْرًا وَالْحَمْدُ اللّٰہِ کَثَیْرًا وَّسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً وَصَلَی اللّٰہُ عَلی سَیِّدَنَا مُحَمَّد النبی وَاِلٰہ وَسَلم تَسْلِیْمًا کیوں کہ عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن مسعود سے سوال کیا کہ تکبیرات عید کے بعد کیا کہے تو اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور رسول اللہﷺ پر درود بھیجے۔ اس کو اثرم اور حرب نے روایت کیا اور امام احمد رحمہ اللہ نے اسی کے ساتھ حجت پکڑی ہے۔
خلاصہ چونکہ ثناء اور حمد کا پڑھنا صحابہ کرام] مثل عبداللہ بن مسعود و حذیفہ اور ابو موسیٰ سے قولاً و فعلاً صحیح اسنادوں کے ساتھ ثابت اور دوسری نمازوں میں تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا اور حمد پڑھنے کے وقت ہاتھوں کا باندھنا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔ لہٰذا اس پر قیاس کرکے اور جمہور امت کی اقتداء کے لحاظ سے قول راجح ہاتھوں کا باندھنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
حررہ عبدالجبار بن عبداللہ الغزنوی عفی اللہ عنہما
(فتاویٰ غزنویہ ص ۹۲،۹۳)
عیدین میں لڑکیوں یا بہنوں کو خوشی سے نقد یا اور کچھ تحفہ دینا نہ لازم ہے نہ ممنوع، مباح ہے بدعت کسی امر غیر مشروع کو امر شرعی بنا کر باعث ثواب قرار دینا ہے۔ سو یہ اس سے خارج ہے۔ خلاصہ یہ کہ زید کی بات غلط اور باطل ہے وہ بالکل کج رو ہے۔ طالب دنیا معلوم ہوتا ہے نہ طالبِ حق۔ فقط والسلام
الراقم ابو سعید محمد شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ دہلی ۲۵؍ ذوالحج ۱۳۶۰ھ نقل از مکاتیب شرفیہ