سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے عید گاہ میں لے جانا سنت ہے یا نہیں

  • 4536
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 814

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس زمانہ میں عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے عید گاہ میں لے جانا سنت ہے یا نہیں اور اگر سنت ہے تو اگر کوئی عمداً ترک کرے یا اس سے انکار کرے تو اس شخص کو حق میں کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الجواب وھو الموفق:

… عید کی نماز کے واسطے عورتوں کا جانا بلا ریب سنت ہے اس میں احادیث کثیرہ وارہ ہیں۔ اس سنت کا ترک کرنا بلا ضرورت شدیدہ نہیں چاہیے ہاں جس عورت سے خوف فتنہ کا ہو یا اس پر خوف فتنہ کا ہو یا راستہ میں تراجم رجال ہو یا عید گاہ پر مردوں کا اژدھام ایسا ہو کہ بالکل مردوں اور عورتوں میں اختلاط ہو تو اس موقع پر نہیں جانا چاہیے کیوں کہ اس میں گناہ ہے اور تعمیل سنت کے واسطے گناہ کا مرتکب ہو جانا جائز نہیں کہ ترک سنت میں صورت مذکورہ میں گناہ لازم نہیں آتا اور جانے میں مرتکب گناہ ہوتا ہے۔ خیر الخیرین کو کرنا اور شر الشرین کو چھوڑنا فقاہت فی الدین ہے۔ جو اس میزان سے بے خبر ہیں اس کو دین میں فقاہت نہیں جو لوگ بسبب فساد اہل زمانہ کے اس سنت کے تارک یا اس سنت کے مانع ہیں جیسا کہ عروہ یحییٰ انصاری، قاسم، مالک، ابو یوسف اور ابو حنیفۃ فی قول میں اور بی بی عائشہ کے اس قول سے تمسک کرتے ہیں لو (۱) رَأی رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ مَا اَحْدَثَ النِسَائُ لَمَنَعَھُن الْمَسجٰدِ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بِنِیْ اِسْرَائِیْل تو وہ لوگ ماؤل ہیں اور ماؤل پر مسائل فرعیہ میں خطا اجتہادی کا حکم ہوتا ہے۔ ان کو بدعتی یا فاسق یا گمراہ کہنا سلف الصالحین کے طریق سے بالکل خلاف ہے۔

حررہ الراجی الی رحمۃ ربہ القوی ابوداؤد عبدالجبار الغزنویؒ

(فتاویٰ غزنویہ ص ۹۷)

۱:  اگر جناب رسول اللہﷺعورتوں کی یہ موجودہ حالت جو انہوں نے نئی نکالی ہے، دیکھتے تو ان کو مسجد میں آنے سے ضرور روکتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئی تھیں۔ ۱۲


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 04 ص 184

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ