سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(229) کیا مردوں کو سماع اور علم کا ثبوت ہے؟

  • 4418
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 2397

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مردوں کو سماع اور علم کا ثبوت ہے۔ نیز ان سے مدد طلب کرناجائز ہے یا ناجائز؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جائز ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ ان مردے کفار سے جو قلبی بدر میں پھینکے ہوئے تھے کہہ رہے:

((یا فلان ابن فلان ویا فلان بن فلان الیسرکم انکم اطعتم اللّٰہ ورسولہٗ فانا قدوجہ نا ما وعدنا ربّنا حقّا فھل وجدتم ما وعدکم ربکم حق فقال عمر رضی اللّٰہ عنہ یا رسول اللّٰہ ﷺ ما تکلم من اجساد لا اروح لھا قال النبی ﷺ والذی نفس محمد بیدہ ما انتم باسمع لما اقول منھم وفی روایۃ ما انتم باسمع منھم ولکن لا یجیْبون متفق علیہ مشکوٰۃ المصابیح))(ص ۳۳۷ مطبوعۃ مطبع احمدی دہلی) مترجم

تعاقب بر جواب:… ((اعوذ باللّٰہ من الکفر والشکر والارتداد والخذ لان ومن یھدہ اللّٰہُ فلا مضل لَہٗ ومن یضللہ فلا ھادی لَہٗ ومن یھدی اللّٰہ فھو المھتدیُ مَںْ یضلل فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُرْشِدًا))

مفتی صاحب اصول مناظرہ سے واقف معلوم ہوتے ہیں۔ چونکہ دعویٰ عام ہے یعنی سماع و علم اور استمداد بالموتیٰ اور دلیل خاص ہے جس سے صرف کفار کا سماع ثابت ہے۔ اور وہ بھی صرف ان کا آنحضرت ﷺ کے معجزہ مبارکہ سے یا پھر یہ راوی کی غلطی ہے۔ جیسا کہ اس پر مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول دلالت کرتا ہے۔ جو عنقریب آئے گا۔ انشاء اللہ اس حدیث سے ایسے شخص کے علاوہ کوئی بھی سمع و علم اور استمداد بالموتیٰ کا استدلال نہیں کرتا۔ جو قہر و غضب خداوندی کے شراب سے مست ہو اور اس کے دل پر مہر ہو اور کان میں پردہ ہو۔

{کَذَالِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِ کُلِّ مُتَکَبِّرِ جَبَّارٍ}

ان مشرکین کا اس حدیث سے استدلال تحریف کلمہ اور کتمان حق کی قبیل سے ہے۔ ((قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی))

{ یُخَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَمْ یُرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّطَہِّرَ قُلُوْبَہُمْ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ}

اور اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ لے رکھا ہے کہ میری آیات لوگوں پر بیان کر کے واضح کرو۔

{وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ فَنَبَذُوْہُ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ وَ اشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ}

پس ان لوگوں نے حق کو چھپا لیا ہے۔ اور توحید کو پس پشت ڈال پھینک دیا ہے۔ اور روافض و مشرکین کی طرح شرک کو رواج دے رہے ہیں۔ قال اللہ تعالیٰ:

{فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیْثَاقَھُمْ الخ}

یہ لوگ اللہ سے بھی حیاء نہیں کرتے۔ اور صراحۃً انبیاء و رسل سے مقابلہ کرتے ہیں۔

((صدق رسول اللّٰہ انَّ ممَّا ادرک النَّاس من کلام النبوۃ الاولی اذا لم تستحی فاصنع ما شئت)) (رواہ البخاری)

پس اگراس حدیث سے علم و استمداد موتیٰ پر استدلال صحیح ہے تو اس قسم کے لوگوں کو چاہیے کہ ابو جہل اور اس جیسوں کی طرح کفار اور مشرکین کی قبروں پر جائیں اور اپنے امور میں مدد طلب کریں۔ اور اسے سنت قرار دیں۔ چونکہ جو کچھ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے وہ سنت ہوتاہے۔اور اس کا منکر کافر۔ اور اس کا مسلمانوں میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہے ملحدین کے لیے یہی کافی ہے کہ جمیع مسلمانوں بلکہ صحابہ کرام تابعین اور ائمہ دین کی نسبت ضلالت کی طرف کرتے ہیں:

((نعوذ باللّٰہ من اتباع الھوی والقول فی دین اللّٰہ بالرأی))

اور مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے اس دعویٰ پر استدلال نہیں کیا۔ حالانکہ اسے قرن بعد قرن روایت کرتے رہے ہیں۔

بعدہٗ جاننا چاہیے کہ اس مسئلہ کا جواب تین ابواب میں بیان ہو گا۔ اور ہم اختصار کو ملحوظ رکھیں گے۔ اگر کتاب وسنت کی تمام دلیلیں بالاستعاب ذکر کی جائیں۔ تو کئی جلدوں میں بھی نہ سما سکیںگی۔ کیسے سما سکتی ہیں۔جبکہ تمام انبیاء و رسل اسی مسئلہ کی تردید کے لیے مبعوث ہوئے۔ اور تمام کتابیں اسی مسلک کے اثر کو محو کرنے کے لیے نازل کی گئی۔ اور تمام امت بلکہ جمیع امتیں گذشتہ انبیاء کے پیروکاروں میں سے اس مسئلہ کے بطلان پر متفق ہیں۔ ((لَا حَوْلَ وَلا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم))

پہلا باب سماعی موتیٰ کے بارے میں

ائمہ احناف سماع موتیٰ کی نفی پر متفق ہیں۔ جیسا کہ ’’کتاب الایمان‘‘ میں انہوں نے تصریح کر دی ہے کہ میت کو سماع نہیں۔ یہ تو بالتحقیق معلوم ہوچکا کہ سماع موتیٰ میں اختلاف ہی نہیں ہے۔ البتہ ’’قلیب بدر‘‘ کے کفار کے سماع میں اختلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور اس کے متبعین اس کے منکر ہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ((مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ مِنْھُمْ)) کو سہو و نسیان پر محمول کرتے ہیں۔ اور بعض اسے قبول کر کے اعجاز اور خرق عادت پر محمول کرتے ہیں۔ جیسا کہ ’’مواہب لدنیہ‘‘ وغیرہ میں مذکور ہے۔ مطلق سماع موتیٰ کی نفی میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ ہم اب فقہ کی متد اول کتابوں سے عدم سماع موتیٰ کی فقہی روایات نقل کرتے ہیں۔ ’’درمختار‘‘ میں ہے:

((فلو قال ان ضربتکِ او کسوتکِ او کلمتکِ او دخلت علیکِ او قبلتک تقید کل منھا بالحیات لو علق بھا طلاقاً او عتقا لم یحنث بفعلہا بمیت))

’’یعنی اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا کہ میں تیرے ساتھ کلام کروں، یا تجھے ماروں وغیرہ وغیرہ تو تجھے طلاق اور اس نے اسے موت کے بعد مارا یا کلام کی وغیرہ وغیرہ تو وہ طلاق واقع نہ ہو گی۔‘‘

علامہ سید محمد امین المعروف بابن عبادین رد المختار حاشیہ در مختار میں لکھتے ہیں:

((قولہ تقید کل منھا بالحیات اھ اما الضرب فلانہ اسم لفعل لو لم یتصل بالبدن او استعمال اٰلۃ التادیب فی محل یقبلہ۔ والایلام والتادیب لا یتحقق فی المیت ولا برد تعذیب المیت فی قبرہ لانہ توضع فیہ الحیات عند العامۃ بقدر مَا یحسن بالالم والجثۃ لیست بشرط عند اھل السنۃ بل یجعل الحیات فی تلک الاجزاء المتفرقۃ التی لا یدرکھا البصر الی ان قال واما اکللام فلان المقصود منہ الافھام والموت ینا فیہ ولا برد ما فی الصحیح من قولہ ﷺ لا ھل قلیب بدر ھل وجدتم ما وعدکم ربّکم حقا فقال عمر رضی اللہ عنہ أتکلم المیت یا رسول اللّٰہ ﷺ فقال والذی نفسی بیدہ ما انتم باسمع من ھٰؤلاء او منھم فاجات عنہا المشائخ بانہ غیر ثابت یعنی من جھۃ المعنی وذالک لان عائشۃ ردتہ بقولہ تعالیٰ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ وَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمُوْتٰی وانہ انما قال علی وجہ الموعظہ للاحیاء وبانہ مخصوص باولئک تضعیفا للحسرۃ علیھم وبانہ خصوصیۃ لہ علیہ السلام معجزۃ لکن یشکل علیھم ما فی مسلم ان المیت لیسمع قَرع نعالھم اذا انصرفوا الا یخصوا ذالک باول الوضع فی القبر مقدمۃ للسوال جمعا بینہ وبین الاٰیتین فانہ شبہ فیھما الکفار بالموتی لا فادۃ عدم سماعھم وھو فرو سامع الومتی ھذا حاصل ما ذکرہ فی الفتح ھھنا وفی الجنائز ومعنی الجواب الاول انہ وان صح سندہ لکنہ معلوم من جھۃ المعنی بعلۃ یقتضی عدم ثبوتہ عندہ علیہ السلام وھی مخالفۃ للقراٰن فافھم اھ))

’’جامع صغیر‘‘ (للامام محمد رحمہ اللہ) میں ہے:

((وکذٰلک الکلام لان معناہ الافھام والموت ینافیہ الاثری الی قولہ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ اھ))

’’ہدایہ‘‘ میں ہے:

((من قال ان ضربتک فعبدی حرفمات فضربہ فھو علی الحیات لان الضرب اسم لفعل مؤلم یتصل بالبدن والایلام لا یتحقق فی المیت ومن یعذب فی القبر یوضع فیہ الحیات فی القول العامۃ وکذا الکلام والدخول لان المقصود من الکلام الافھَام وذا بالاسماع وذا (الاسماع) لا یتحقق بعد الموت اھ))

اور ’’شرح المواقف‘‘ میں علم و قدرت اور سماع موتیٰ وغیرہ کا جواب معتزلہ کا مذہب قرار دیا گیا ہے۔الفاظ یہ ہیں:

((الصالحۃ اصحاب الصُالحی وھذا مذھبھم انھم جوزا قیام العلم والقدرۃ والارادۃ والسمع والبصر بالمیت ویلزمھم جوازان ان یکون الناس مع اتصافھم بھذہ الصفات امواتا وان لا یکون تعالیٰ حیا اھ))

علامہ تفتازانی کی ’’شرح المقاصد‘‘ میں مرقوم ہے:

((اما قولہ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ فتمثیل لحال الکفرۃ بحال الموتی ولا نزاع بان الموتیٰ لا تسمع اھ))

اور ’’الغرائب فی تحقیق المذاہب‘‘ میں ہے:

((رأی الامام الاعظم ابو حنیفۃ مَن یأتی قبور اھل الصلاح فیسلم ویخاطب ویتکلم ویقول یا اھل القبور ھل لکم من خبر وھل عندکم من اثرانی اتیتکم ونادیتکم من شھور ولیس سوالی منکم الا الدعاء فھل دریتم ام غفلتم فسمع ابو حنیفہ یقول یخاطبہ لھم فقال ھل اجأبوا لک قال لا فقال سحقًا لک وتربَت یداک کیف تکلف اجسَا والَا یستطیعون جوابا ولا یملکون شیئًا ولا یسمعون صوتاً وقرأ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ اھ))

اور ’’شرح الفصول من علم الاصول‘‘ میں ہے:

((لو حلف لا یکلم فلانا وکلم بعد الموتہ او ضربہ بعد الموت لا یحنث لعدم معنی الافہام والایلام اھ))

اور ’’نظم الدلائل‘‘ میں ہے:

((من حلف لا یکلم فلاناً فکلم بعد الموت لا یحنث لعدم الا سماع اھ))

اور ’’تفسیر در منشور‘‘ میں ہے:

((اخرج ابو سھل السدی بن سہل الجنید النیشاپوری فی الخامس من حدیثہ من طریق عبد القدوس عن ابی صالح عن ابن عباس رضی اللہ عنہ فی قولہ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ قال کان النبی ﷺ یقف علی القتلی یوم بدر ویقول ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا یا فلان یا فلان الم بربک الم تکذب بنیک الم تطع برحمک فقالوا یا رسول اللّٰہ الیسمعون ما تقول فقال ما انتم باسمع منھم لما اول فانزل اللّٰہ وَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ اھ))

علامہ بیضاوی اپنی تفسیر ’’انوار التنزیل والاسرار التاویل‘‘ میں رقم طراز ہیں:

((انما یستجیب الذین ای یستجیب الذین یسمعون بفھم وتأمل کقولہ تعالیٰ وَاَلْقِیْ السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ وَھٰٓؤُلَائِ کَالْمَوْتٰی الَّذِیْنَ لَا یَسْمَعُوْنَ اھ))

اور’’جامع البیان‘‘ میں آیت کریمہ: {وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ} کے تحت لکھتے ہیں:

((ای الکفار کالموتی لا یسمعون اھ))

اور اسی آیت کے تحت تفسیر ’’جلالین‘‘ میں ہے:

((ای الکفار شبھھم بھم فی عدم السماع اھ))

اور تفسیر نیشا پوری اور ’’کشاف‘‘ میں آیت کریمہ: {اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ} کے تحت لکھا ہے:

((اِنَّھُمْ لفرط اِعْرَاضھم عما یدعون الی اللّٰہ کالمیت الذی لا سبیل الہ سماعہ والصم الذی لا یسمع اھ))

اور ’’کافی شرح وافی‘‘ میں ’’باب احکام الیمین فی الضرب والقتل و غیر ذلک‘‘ میں ہے:

((رجل قال ان ضربتک او کسوتک او کلمتک او دخلت علیک او قال لأمرتہ او وطیتک او قبلتک فعبدہ حریتقید بالحیات حتی لو فعل ھذہ الاشیاء بعد الموت لا یحنث لان الضرب اسم لفعل مؤلم ولامیت لا یتألم بضرب بنی أدم وانما ذالک مما یتفرد بہ اللّیہ تعالیٰ کما فی عذاب القبر فانہ ثقابت عند اھل السنۃ وان اختلفوا فیما بینہم فقال بعضہم نؤمن باصل الکتاب ونسکت عن الکیفیۃ ان الواجب علینا تصدیق ما ورد بہ السنۃ المستفیدۃ وھو التعذیب بعد الموت فنؤمن بہ ولا نشغل بکیفیۃ وعند العامۃ یوضع فیہ الحیات بقدر ما یتألم لا الحیاۃ المطلقۃ وقیل یوضع فیہ الحیات من کل وجہ ومعنی کسوتک ملکتک عند الاطلاق یقال کسا الامیر فلانا ای ملکہ وھو المراد بقولہ تعالٰی اَوْ کِسْوَتُھُنَّ والتملیک من المیت لا یتحقق لان الموت ینای فی بملک فلان ینای فیا بتداء ان ینوی الستر فحینئذ یصدق لان فیہ تشدید او قیل ان کانت یمینہ بالفارسیۃ یحنث لا نہ یعلم یراد بہ الالباس والمقصود من الکلام الافھام وذا الا یتحقق بعد الموت قال اللّٰہ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمُوْتٰی فان قیل روی ان قتلی بدر من المشرکین لما القوا فی القلیب قال رسول اللّٰہ ﷺ علی رأس القلیب وقال ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا فقال عمر رضی اللہ عنہ تکلم الجنۃ فقال ما انتم باسمع من ھٰؤلائِ قلنا غیر ثابت فانہ لما بلغ عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قال کدبتم علی رسول اللّٰہ ﷺ قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وقال اللّٰٰہ تعالیٰ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ علی انہ کان علیہ السلام مخصوصاً بہ والغرض من الدخول علیہ اکرامہ لتعظیمہ اوا ھانتہ بتحقیرہ او زیارتہ ولا یتحقق الکل بعد الموت لا نہ لا یزار المیت وانما یزار قبرہ قال علیہ السلام کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور الا فتزوروھا لان المیت کالغائب من لمحاف بباب رجل لم یعد زائرا لہ فھھنا اولی والغرض من الوطی والتقبیل قضاء الشھوۃ وذالا یتحقق بعد الموت اھ))

اور ’’فتح القدیر‘‘ (ہدایہ کی شرح) کے باب الیمین فی القتل و الضرب وغیر ذالک میں ہے:

((قولہ وکذالک الکلام یعنی اذا حلف لا یکلم اقتصر علی الحیات فلو کلمہ بعد موتہ لا یحنث لان المقصود منہ الافھام ولاموت ینا فیہ لانہ لا یسمع فلا یفھم وا ورد انہ علیہ السلام قال لاھل القلیب قلیب بدر ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا فقال عمر رضی اللہ عنہ اتکلم المیت یا رسول اللّٰہ فقال رسول اللّٰہ ﷺ والذی نفسی بیدہ ما انتم باسمع من ھٰٓؤلائج لما اقول منھم واجیب بانہ غیر ثابت یعنی من جھۃ المعنی والا فھو فی الصحیح وذالک بسبب ان عائشۃ رضی اللہ عنہ ردتہ بقولہٖ تعالیٰ وَمَا اَنْتَ بُِسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرَ۔ وَاِنّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وبانہ انما قال علی وجۃ الموعطۃ للاحیاء لا لافھام الموتی کما روی عن علی رضی اللہ عنہ قال السَّلام علیکم دارقوم مؤمنین اما نسائکم فنکحت واما اموالکم فقسمت واما دورکم فسکنت فھذا خبرکم عندنا وما خبرنا عندکم وبانہ مخصوص باولئک تضعیفا للحسرۃ علیھم لکن بقی انہ روی انہ علیہ السلام قال ان المیت لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا ولینظر فی کتاب الجنائز من ھذا الشرح وایضاً فی فتح القدیر فی کتاب الجنائز ھذا عند اکثر مشائخنا وھو ان المیت لا یسمع عند ھم علی ما صرحوا فی کتاب الایمان فی باب الیمین بالضرب لو حلف لا یکلم فکلم میتاً لا یحنث لانھا یتقید علی ما حیث یفھم والمیت لیس کذا لک لعدم السماع وورد قولہ علیہ السلام فی اھل القلیب ما انتم باسمع لما اقول منھم واجابوا تارۃ بانہ مردود من عائشۃ رضی اللہ عنہ قالت یقول علیہ السلام ذالک واللّٰہ تعالیٰ یقول وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَتارۃً بان تلک خصوصیۃ علیہ السلام معجزۃ وزیادۃ حسرۃ وتارۃ بانہ من ضرب المثل کام قال علی رضی اللہ عنہ ویشکل علھم ما فی مسلم ان المیت یسمع قرع نعالھم اذا انصرفوا الا ان یخصوا ذالک باول الوضع فی القبر مقدمۃ للسوال جما بینہ وبین الاٰیتین فانھما تفید ان تحققی عدم سماعھم فاتہ تعالیٰ شبہالکفار بالموتی لعدم الافادۃ بعدم اسماعھم وھو عدم سماع الموتیٰ اھ))

اور کنز کی شرح عینی میں یہ عبارت مرقوم ہے:

((ھکذا فی الیمین فی الضرب والقتل وغیر ذالک ولو قال رجل ان ضربتک فعبدی حروان کسوتک فعلی کذاوان کلمتک فامراتی طالق وان دخلت علیک فامتی حرۃ تقید بھںہ بحیاۃ فالمخاطب لو فعل بہ ھذہ الانبیاء بعد موت المخاطب لم یحنث لان ھذہ الاشیاء لا یتحقق فی المیت لان الضرب ایقاع الالم وبعد المیت لا یتصور ومن یعذب فی القبر توضع الحیاۃ علی الصحیح وان اختلفوا فی کیفیتھا الی ان قال والکلام للافھام فلا یتحقق فی المیت فان قلت قال علیہ السلام لقتلی بدر من المشرکین ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا قلت ردتہ عائشۃ رضی اللہ عنہ وقالت قال اللّٰہ اِ نِّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ولئن ثبت فھو مختص بالنبی ﷺ ویجوز ان یکون لوعظ الاحیاء علی سبیل الخطاب الموتی اھ))

اور ’’کنز الدقائق‘‘ کی شرح ’’المستخلص‘‘ میں اس طرح مرقوم ہے:

((لو قال ان کلمتک فعبدی حر فکلمہ بعد موتہ لا یحنث لان المقصود من الافھام وذالا یتحقق فی المیت فان قیل قد روی انہ النبی ﷺ قد حکم اصحاب القلیب من اھل البدر من الکفار حین القاھم فی القلیب قام علی رأس القلیب وقال علیہ السلام ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا فقال عمر رضی اللہ عنہ اتکلم بالمیت یا رسول اللّٰہ فقال رسول اللّٰہ ﷺ ما انتم باسمع من ھٰٓؤلائ۔ قلنا ھذا غیر ثابت لقولہ تعالیٰ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وقولہ تعالیٰ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْر وِان ثبت فھو معجزۃ لرسول اللّٰہ ﷺ وقیل بل المقصود من ذالک وعظ الاحیاء لا افہام الموتیٰ اھ))

اور ہدایہ کی شرح ’’کفایہ‘‘ میں ہے:

((قولہ وکذالک الکلام بان حلف لا یکلم فال ناولاً یدخل دار فلان یتقید بالحیاۃ لان المقصود من الکلام الافھام وذا بالاستماع وذالا یتحقق بعد الموت فان قیل روی ان قتلی بدر من المشرکین لما القوا فی القلیب قال رسول اللّٰہ ﷺ علی رأس القلیب وقال ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا قال عمر رضی اللہ عنہ اتکلم المیت یا رسول اللّٰہ ﷺ ما انتم باسمع من ھٰؤلائ۔ قلنا غیر ثابت فانہ لما بلغ ھذا الحدیث عائشۃ قالت قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی تشبیہ بالکفار بالموتی ونحن لا ننکران المیت لا یسمع اھ))

اور عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم قتادہ سے آیت کریمہ {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمُوْتٰی} کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ یہ ضرب المثل ہے جسے اللہ نے کفار کے لیے بیان کیا ہے یعنی جس طرح میت نہیں سنتی اسی طرح کفار بھی نہیں سنتے، اور نہ نفع حاصل کرتے۔اور آیت {لَا یَسْمَعُ الصَّمَّ الدَّعَائَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ} قتادہ نے کہا اگر بہرہ آدمی منہ پھیر کر چلا جائے تو پھر آپ اسے پکاریں جیسے وہ نہیں سن سکتا۔ اسی طرح کفار بھی نہیں سن سکتے اگر سن لیں تو نفع نہیں حاصل کر سکتے۔ اھ

اور امام رازی رحمہ اللہ نہایۃ العقول میں رقم طراز ہیں کہ قرآن کی آیت {وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ} کے ساتھ انہوں نے تمسک کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس آیت کے سیاق کی غرض کفار کو مردوں سے تشیبہ دینا ہے اور ہم اعتراف کرتے ہیں۔ جو لوگ قبروں میں ہیں وہ نہیں سن سکتے۔ جب تک مردے رہیں۔ پس آیت مذکورہ سے ان کا استدلال ساقط ہو گیا۔ اھ

اور علامہ عینی حنفی شرح بخاری میں ابن متین سے ناقل ہیں کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ اور آیت کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے۔ چونکہ مردے بلا ریب سنتے ہیں ہاں اگر کسی ایسی چیز کو سنانے کا ارادہ جس کی شان سننا نہیں ہے۔ تو یہ ممتنع نہیں ہے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰاتِ الاٰیَۃِ اھ}

او خفاجی ’’حاشیہ بیضاوی‘‘ میں لکھتے ہیں: ((فَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الخ)) یہ سابقہ کلام سے مفہوم کی علت ہے گویا کہ ا س طرح کہا گیا ہے کہ تیری نصیحت سے یہ ابتداء فائدہ کیوں نہیں اُٹھاتے۔ ((فَاِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوتٰی اھ))

ابن ہمام کہتے ہیں کہ ہمارے اکثر مشائخ اس پر ہیں کہ مردے سنتے نہیں ہیں استدلال اس آیت سے ہے اسی لیے قبر کو تلقین کرنے کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کسی نے حلف اٹھایا کہ وہ فلاں سے کلام نہیں کرے گا۔ اور اس نے موت کے بعد ا س سے کلام کیا تو حانث نہ ہو گا۔ اور ان پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قلیب بدر کے مردوں کے بارے میں فرمایا کہ تم ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ اس کا ایک جواب تو یہ دیا گیا ہے کہ مائی عائشہ صدقہ رضی اللہ عنہا نے اسے رد کیا ہے دوسرا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے۔ اھ۔

اور جملہ فقہائے احناف اس پر متفق ہیں کہ مردوں کو سماع نہیں ہے۔ ((جزاھم اللّٰہ خیرا وجعل سعیھم مشکوراً)) جیسا کہ ان کی عبارات اوپر مذکور ہو چکی ہیں۔ (؎۱)، بلکہ بعض علماء تو کہتے ہیں کہ کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے کہ مردوں کو نہیں سنتا۔ خصوصاً علماء حنفیہ پس ان معترضین مخذولین بڑا تعجب ہے کہ علماء احناف کے اجماع کو توڑتے اور جمیع علماء احناف کی صریح مخالفت کرتے ہیں اور باوجود اس کے خود کو امام ابو حنیفہ کے مسلک پر سمجھتے ہیں اور احناف کے مذہب کو تسلیم کرتے ہیں۔ اور جو عدم سماع موتیٰ کا قائل ہو اسے وہابی اور کافر کہتے ہیں۔

(؎۱)      ان سب عبارات کا خلاصہ ایک ہی ہے کہ مردوں کو سماع نہیں ہے تفصیل ابھی ابھی ابن ہمام کے الفاظ کے ترجمے میں گذری سب کی عبارتیں اس سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے الگ الگ ترجمے کی ضرورت محسوس نہیںہوئی۔ امید ہے قارئین سمجھ لیں گے چونکہ طوالت کا خوف تھا۔ (مترجم)

پس ان کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور س کے متبعین کو وہابی اور کافر قرار دینا مبارک ہو۔ اور استدلال اسی حدیث عمر رضی اللہ عنہ سے کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے:

 ((فقال عمر رضٰ اللّٰہ اتکلم من اجساد لا رواح لھا فقال رسول اللّٰہ ﷺ والذی نفس محمد بیدہ ما انتم باسمع لما اقول منہم))

’’کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا کہ آپ بے روح مردوں سے کلام فرماتے ہیں تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا کہ تم میری بات ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔‘‘

قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں زندہ کر دیا تھا۔ حتی کہ انہوں نے آپ کی اس ذلت، نقمت، حسرۃ اور توبیخ والی یہ بات سن لی۔ لیکن معترضین خیانت کرتے ہیں۔ چونکہ قتادہ کے یہ الفاظ ان کے مقصد کے خلاف ہیں نیز بخاری میں ہشام اپنے باپ سے مائی عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بیان کرتے ہیں کہ ((انہم لیسمعون ما اقول)) کا مطلب ہے کہ اب وہ جان رہے ہیں کہ میں نے ان سے جو کہا تھا۔ وہ حق ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت تلاوت کی:

{اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی۔ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ}

یعنی جب انہوں نے آگ سے اپنے ٹھکانے پکڑے لیے تو آپ انہیں سنا نہیں سکتے۔ ایک دوسری حدیث بسند عثمان عن عبدۃ عن ہشام عن ابیہ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ہے کہ آنحضرت نے قلیب بدر کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا ((ھل وجدتم ما وعدکم ربکم حقا)) نیز فرمایا کہ اب میری بات کو سن رہے ہیں۔ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس کا ذکر ہوا تو مائی صاحبہ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ وہ اب میری بات کے حق ہونے کو جان رہے ہیں۔ اور یہ آیت پڑھی: {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی الخ} حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ مائی صاحب کی آیت کریمہ اور حیدث کے درمیان توفیق و تطبیق ان کے کمال علم اور قوۃ فہم پر دلالت ہے۔ (خیر الجاری) نیز اسی حاشیہ میں کرحانی سے نقل کرتے ہیں قول عائشہ کی توجیہ میں صاحب کشاف {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اللہ نے کفار کو زندہ ہونے کے باوجود مردوں سے تشبیہ دی ہے۔ چونکہ ان کا حال مردوں کی طرح ہے اور آیت {وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ای الذین ھم المقبورین اھ}

اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اس کے متبعین اور جمیع احناف وہابی ہیں تو ہم بھی وہابی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ جب انہیں رافضی ہونے کا الزام دیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

 ان کان الرفض حب صحب محمد

فلیشھد الثقلان انی رافض

اللہ تعالیٰ رحم فرمائے امام احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (شیخ الاسلام) پر جب انہیں ناصبی ہونے کا الزام دیا گیا تو انہوں نے فرمایا: شعر۔

 ان کان نصب حب صحب محمد

فلیشہد الثقلان انی ناصب

راضی ہو اللہ ابن القیم سے آپ فرماتے ۔ ع

 ان کان تجسیما ثبوت صفاتہ

وتنزیھا عن عیب کل مفتری

فان بحمد اللّٰہ ربی مجسم

ھلموا شھودا واحضروا کل محضر

وصلی اللہ علی خیر خلقہٖ محمد وآلہٖ واصحابہ اجمعین

(فتاویٰ صاعقۃ الرحمان علی حزب الشیطان، ص نمبر ۲۸ تا نمبر ۴۱ (قلمی)

از مولانا محمد بن حسن القاضی الخانفوری المولود ۱۲۷۰ھ ۴ شعبان والمتوفی ۶ جمادی الآخر ۱۳۴۸ھ تلمیذ میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی قدس سرہ العزیز

 تصدیقات

(سید نذیر حسین محدث دہلوی ۔ ۱۰ رجب م ۱۳۲۰ مطابق ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ئ)

(ڈپٹی سید احمد حسن محدث دہلوی ۔ م ۱۳۳۸ھ مطابق ۱۹۲۰ئ)

(سید شریف حسین محدث دہلوی۔ م ۱۳۰۴ھ مطابق ۱۸۸۸ئ)

(سید عبد الواحد الغزنوی۔ م ۱۲۹۲ھ)

(محمد بن عبد اللہ الغزنوی )

رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ وغیرہم (فارسی سے اردو ترجمہ)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 396-384

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ