سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(204) کسی شخص کے مر جانے کے بعد چوتھے دن یا

  • 4393
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1398

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی شخص کے مر جانے کے بعد چوتھے دن یا اس کے علاوہ متعین یا غیر متعین دنوں میں کسی مردے کے نام پر قرآن خوانی ک رکے اور غرباء کو کھانا کھلا کر ایصال ثواب کر نا جائز ہے یا ناجائز؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید پڑھ کر یا صدقہ خیرات کر کے میت کے لیے استغفار کرنا جائز بلکہ احسن طریقہ ہے۔ رسمی طور پر دن مقرر نہ کرنا چاہیے۔

تشریح:

… مردے کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب:… اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ قرأۃ قرآن کا ثواب مردہ کو پہنچتا ہے یا نہیں؟ علمائے احناف کے نزدیک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک اور بعض اصحاب شافعی کے نزدیک پہنچتا ہے۔ اور اکثر علمائے شافعیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے۔ جن کے نزدیک مردے کے واسطے ختم قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے(؎۱)۔ا ور جن کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے۔ ان کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ شرح کنز میں ہے:

(؎۱)      ان کے نزدیک ثواب پہنچتا ہے۔

((ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہٖ صلوٰۃ کان او صوماً او حجا او صدقۃ او قرأۃ قراٰن او غیر ذلک من جمیع انواع البر ویصل ذلک الی المیّت وینفعہ عند اھل السنّت))

امام نووی شرح مقدمہ مسلم میں لکھتے ہیں:

((وما قرآۃ القراٰن فالمشھور من مذھب الشافعی انہ لا یصلی ثوابھا الی المیت وقال بعض اصحاب یصلی الی المیت و ثواب جمیع العبادات من الصلوٰت والصوم والقراٰۃ وغیر ذلک))

اور اذکارمیں لکھتے ہیں:

((وذھب احمد بن حنبل وجماعۃ من العلماء وجماعت من اصحاب الشافعی الی انہ یصلی۔ واللّٰہ اعلم))

(حررہ علی محمد عفی عنہ) (سید محمد نذیر حسین)

ھو الموفق:

… متاخرین علمائے اہل حدیث سے علامہ محمد بن اسمٰعیل امیر رحمۃ اللہ علیہ سبل السلام میں مسلک حنفیہ کو ارجح دلیلاً بتایا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ قرآۃ قرآن اور تمام عبادات بدنیہ کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ازروئے دلیل کے زیادہ قوی ہے اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نیل الاوطار میں اسی کو حق کہا ہے۔ مگر اولاد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ یعنی یہ کہا ہے کہ اولاد اپنے والدین کے لے قرأت قرآن یا جس عبادت بدنی کا ثواب پہنچانا چاہے تو جائز ہے کیوں کہ اولاد کے تمام عمل خری مالی ہو یا بدنی اور بدنی میں قرأت قرآن ہو یا نماز یا روزہ یا کچھ اور سب والدین کو پہنچتا ہے ان دونوں علامہ کی عبارتوں کو معہ ترجمہ یہاں نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سبل اسلام شرح بلوغ المرام جلد اول ص ۲۰۶ میں ہے:

((ان ھذہ الادعیۃ ونحوھا نافعۃ للمیّت بلا خلاف وامّا غیر ھا من قرأۃ القراٰن لہ فالشافعی رحمہ اللہ یقول لا یصلی ذلک الیہ وذھب احمد وجماعۃ من العلماء الی وصول ذلک الیہ وذھب جماعۃ من اھل السنۃ والحنفیۃ الی ان للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہٖ کان او صوماً او حجّاً او صدقۃ او قرأۃ قراٰن او ذکر او اَیَّ نوع من انواع القرب وھذا ھو القول الارجح دلیلاً وقد اخرج دارقطنی ان رجلا سٔال النبی ﷺ انہ کیف یبرا یویہ بعد موتھما فاجابہ بانہ یصلہ کھما مع صلوٰتہ ویصوم لھما مع صیامہ واخرج ابو داؤد من حدیث معقل بن یسار عنہ ﷺ اقرأ اوعلیٰ من تاکم سورۃ یٰٓس وھو شامل للمیّت بل ھو الحقیقۃ فیہ واخرج ایشیخان انہ صلی اللّٰہ کان یغمی عن نفسہ بکبش عن امَّتِہٖ بکبش وفیہ اشارۃ ان الانسان یفنعہ عمل غیرہٖ وقد بسطنا الکلام فی حواشی ضوء النھار بما یتضع منہ قوۃ ھذا المذہب انتھیٰ))

’’یعنی یہ زیارت قبر کی دعائین اور مثل ان کے اور دعائیں میت کو نافع ہیں بلا اختلاف اور میت کے لیے قرآن پڑھنا سو امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا ہے۔ اور امام احمد اور علماء کی ایک جماعت کا یہ مذہب ہے کہ قرآن پڑھنے کا یہ ثواب میت کو پہنچتا ہے اور علمائے اہل سنت سے ایک جماعت کا۔ اور حنفیہ کا یہ مذہب ہے کہ انسان کو جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب غیر کو بخشے نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا قرأۃ قرآن یا کوئی ذکر یا کسی قسم کی کوئی عبادت اور یہی قول دلیل کی رو سے زیادہ راجح ہے۔ اور دارقطنی نے روایت کیا ہے کہ ایک مرد نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ان کے مرنے کے بعد کیوں کر نیکی و احسان کرے۔ آپ نے فرمایا اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے نماز پڑھے اور اپنے روزے کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھے۔ اور ابو داؤد میں معقل بن یسار سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے مردوں پر سورۃ یٓس پڑھو اور یہ حکم میت کو بھی شامل ہے۔ فی الحقیقت میت ہی کے لیے ہے۔ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بھیڑا اپنی اُمت کی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک اپنی امت کی طرف سے۔ اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی کو غیر کا عمل نفع دیتا ہے اور ہم نے حواشی ضو ء الہنار میں اس مسئلہ پر مبسوط کلام کیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے، کہ یہی مذہب قوی ہے۔‘‘

نیل الاوطار میں ہے (صفحہ نمبر ۳۳۵ جلد ۳)

((والحق انہ یخصص عموم الایۃ بالصدقۃ من الولد کما فی احادیث الباب وبالحج من تولد کما فی خبر الخثعمیۃ ومن غیر الولد ایضاً کما فی حدیث المحرم عن اخیۃ شبرمۃ ولم یستفصل ﷺ ھل اوصٰی شبرمۃ ام لا وبالعتق من الولد کما وقع فی البخاری فی حدیث سعد خلافا للمالکیۃ علی المشھور عندھم وبالصلوٰۃ من الولد ایضاً لما روی الدارقنی انّ رجلا قال یا رسول اللّٰہ ﷺ انہ کان ابوان ابر ھما فی حال حیاتھما فکیف لی ببرھما بعد موتھما فقال ﷺ ان من البر بعد البر ان تصلی لھما مع صلاتک وان تصوم لھما مع صیامک وبالصام من الولد لھذا الحدیث؟ ولحدیث ابن عباس عند البخاری ومسلم ان امرأۃ قالت یا رسول اللّٰہ ان امی ماتت وعلیھا صوم نذر فقال رأیت لو کان دین علی امک فقضیتہ أکان یؤدی ذلک عنھا قلت نعم قال فصومی عن امک واخرج مسلم و ابو داؤد والترمذی من حدیث بریدۃ ان امرأۃ قالت انہ کان علی امی صوم شھر فاصوم عنھا قال صومی عنھا ومن غیر الولد ایضاً لحدیث من مات وعلیہ صیام، صام عنہ ولیہ متفق علیہ و بقرأۃ یٰٓس من الولد وغیرہ لحدیث اقرؤا علٰی موتاکم یٰٓس وبالدعاء من الولد لحدیث او ولد صلح یدعولہ ومن غیر کالحدیث استغفروا لا خیکم وسئلوا لہ التثبیت ولقولہ تعالیٰ والَّذِیْنَ جَاؤُا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاَخْوَانِ الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَ بِالْاِیْمَانِ۔ ولما ثبت من الدعا وللمیّتعند الزیادۃ الخ وبجمیع ما یفعلہ الولد نوالدبہ من اعمال البر لحدیث ولد الانسان من سعیہ الخ)) (نیل الاوطار طبع جدید مصری جلد ۴ ص ۸۰، راز دہلوی)

’’حاصل و خلاصہ ترجمہ اس عبارت کا بقدر ضرورت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ آیۃ: ((وَاَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی)) اپنے عموم پر نہیں ہے اور اُس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے۔ یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کے لیے جو صدقہ کرے اس کا ثواب الدین کو پہنچتا ہے۔ اولاد اور غیر اولاد کا حج بھی خارج ہے۔ اس واسطے کہ خثعمیہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ اولاد جو اپنے والدین کے لیے حج کرے اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے غلام آزاد کرے تو اس کا ثواب بھی والدین کو پہنچتا ہے۔ جیسا کہ بخاری میں سعد کی حدیث سے ثابت ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے یا روزہ رکھے سو اس کا ثواب بھی والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایک مرد نے کہا کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ تھے میں ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرتا تھا۔ پس ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیوں کر نیکی کروں، آپ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھ اور اپنے روزہ کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی روزہ رکھ اور صحیحین میں ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ میری ماں مر گئی اور اس کے ذمہ نذر کے روزے تھے۔ آپ نے فرمایا اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہو جاتا یا نہیں اس نے کہا کہ ہاں ادا ہو جاتا۔ آپ نے فرمایا: روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے۔ اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ میری ماں کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں آپ نے فرمایا: کہ اپنی ماں کی طرف سے روزہ رکھ اور غیر اولاد کے روزہ کا بھی ثواب میت کو ملتا ہے اس واسطے کہ حدیث متفق علیہ میں آیا ہے کہ جو شخص مر جائے اور اُس کے ذمے روزے ہوں تو اُس کی طرف سے اس ولی روزے رکھے اور سورہ یٓس کا ثواب بھی میت کو ملتا ہے۔ اولاد کی طرف سے اور غیر اولاد کی طرف سے بھی، اس واسطے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے مردوں پر سورہ یٓس پڑھو۔ اور دعا کا نفع بھی میت کو پہنچتا ہے۔ اولاد دعا کرے یا کوئی اور۔ اور جو جو کار خیر اولاد اپنے والدین کے لے کرے سب کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ اس واسطے کہ حدیث میں آیا ہے کہ انسا کی اولاد اس کی سعی سے ہے۔‘‘

 جب علامہ شوکانی اور محمد بن اسماعیل امیر کی تحقیق بھی سن لینا خالی از فائدہ نہیں۔ آپ شرح المنہاج میں فرماتے ہیں:

((لا یصل عندنا ثواب القرأۃ علی المشہور ۔ والمختار الوصول اذا سٔال اللّٰہ ایصال ثواب قرأۃ القرأن علی المشہور وینبغی الجزم بد لانہ دُعاء فاذا جاز الدعاء للمیّت بما لیس الداعی فلا یجوز بما ھو لہ اولیٰ ویبقی الامر فیہ موقوفاً علی استجابۃ الدعاء وھو المعنی لا یختص بالقرأۃ بل یجوی فی سائر الاعمال والظاہر ان الدعا متفق علیہ انہ ینفع المیّت والحی القریب والبعید بوصیۃ وغیرھا وعلی ذلک احادیث کثیرۃ بل کان افضل ان یدعو کا خیہ بظھر الغیر انتھیٰ ذکرہ فی نیل الاوطار))

’’یعنی ہمارے نزدیک مشہور قول پر قرأۃ قرآن کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا اور مختار یہ ہے کہ پہنچتا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ سے قرأۃ قران کے ثواب پہنچنے کا سوال کرے (یعنی قرآن پڑھ کر دعا کرے اور یہ سوال کرے کہ یا اللہ اس قرأۃ کا ثواب فلاں میت کو پہنچا دے) اور دعا کے قبول ہونے یا امر موقوف رہے گا (یعنی دعا اس کی قبول ہوئی تو قرأۃ کا ثواب میت کو پہنچے گا اور اگر دعا قبول نہ ہوئی تو نہیں پہنچے گا) اور اس طرح پر قرأۃ کے ثواب پہنچنے کا جزم کرنا لائق ہے۔ اس واسطے کہ یہ دعا ہے پس جب کہ میت کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا جائز ہے جو داعی کے اختیار میں نہیں ہے تو اس کے لیے ایسی چیز کی دعا کرنا بدرجہ اولیٰ جائز ہو گا۔ جو آدمی کے اختیار میں ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ دعا کا نفع میت کو بالاتفاق پہنچتا ہے اور زندہ کو بھی پہنچتا ہے۔ نزدیک خواہ دور ہو۔ اور اس بارے میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں بلکہ افضل یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرے۔‘‘

واللہ اعلم بالصواب (کتبہ محمد عبد الرحمن المبارک پوری عفا اللہ عنہ) (فتاویٰ نذیریہ ج۱ ص ۲۴۱)

دیگر ہدائے ثواب قرأۃ قرآن للمیت میرے نزدیک صراحۃً کسی مرفوع صحیح حدیث سے ثابت نہیں، نیز صحابہ و تابعین سے بھی ثابت نہیں، اس لیے مجھے اس کی مشروعیت میں تأمل ہے۔ لوگ اہدائے ثواب و نیابت و بدل میں فرق نہیں کرتے۔ ((اقراؤ علٰی موتاکم یٰٓس)) میں موتیٰ کو ابن قیم رحمہ اللہ نے محتضر پر محمول کیا ہے۔ و نیز یہاں اہداء ثواب کی صورت بھی نہین ہے۔

واللہ اعلم (حضرت مولانا) عبید اللہ رحمانی مبارک پوری ۱۹۵۳۔۵۔۱۹، فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۵۳۲)

قرأۃ قرآن سے ایصال ثواب کے متعلق بعد تحقیق یہی فتویٰ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تلاوت کر کے ثواب میت کو بخشے تو اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ بشرطیکہ پڑھنے والا خود بغرض ثواب بغیر کسی رسم و رواج کی پابندی کے پڑھے۔

از مولانا ثناء اللہ امر تسری ۹ جولائی ۳۷ھ۔ الراقم علی محمد سعیدی

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 368

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ