جو لوگ مرنے کے بعد رسم قل، دسواں، چالیسواں وغیرہ کرتے ہیں کیا اس میں کسی اہل توحید کا شامل ہونا اور اس میں سے کچھ کھانا جائز ہے یا وہ کھانا حرام کے حکم میں ہے؟
دسواں، چالیسواں وغیرہ جو مروج ہے بدعت ہے اور بدعت میں کسی اہل توحید کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔ شامل ہونے والا گناہ گار ہو گا۔ کھانے کے حرمت ثابت نہیں کیوں کہ فی نفسہٖ اس پر اس کا اثر کوئی نہیں پڑتا۔
(اہل حدیث سوہدرہ جلد ۳ ش ۴۴)
… یہ جو قول ہے: ((طَعَامُ الْمَیَّتِ یُمِیْتُ الْقَلْبَ)) ’’یعنی میت کا کھانا دل کو مردہ کرتا ہے۔‘‘تو یہ قول حدیث نہیں۔ بلکہ بعضے تجربہ کاروں کا قول ہے اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ میت کے کھانے سے وہ کھانا مراد ہے کہ چالیس دن تک لوگ کھلاتے ہیں اور وہ کھانا دل کو مردہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میت کی موت کے آثار ظاہر ہونے کے وقت سے اور اس کے بعد اس کے کھانے کے سرانجام اور تقسیم کا خیال رہا کرتا ہے۔ کہ یہ کھانا اقربا میں یا اُن لوگوں میں جو کہ مسجدوں میں رہا کرتے ہیں تقسیم کیا جاوے گا تو جن لوگوں کو یہ کھانا پہنچتا ہے وہ لوگ متوقع اور منتظر اس کھانے کے رہتے ہیں اور شرع کا مقصد یہ ہے کہ میت کی موت سے لوگ عبرت پکڑیں اور نصیحت سے مستفید ہوویں اور آخرت کی فکر میں مشغول ہوویں اور غفلت سے ہوشیار ہو جاویں اور یہ مقصود اس صورت میں بالکل مفقود ہو جاتا ہے، اور جو کچھ حدیث صحیح میں وارد ہے اور صحاح ستہ میں موجود ہے وہ اس قدر ہے کہ ((نھی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ طَعَامِ الْمَیِّتِ)) ’’یعنی منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے میت کے کھانے سے۔ فقط‘‘
(فتاویٰ عزیزی جلد نمبر۲ ص ۲۴۹)