سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(196) رسول اللہ ﷺ سے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات کے تیسرے دن مروجہ فاتحہ ک؟

  • 4385
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1161

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات کے تیسرے دن مروجہ فاتحہ کی طرھ دودھ جو اور کھجوروں پر سورۃ فاتحہ اور اخلاص پڑھیں اور ان کو تقسیم کر دیا۔ حوالہ کتاب اوزجندی جو کہ ملا علی قاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ کیا یہ کتاب واقعی ملا علی قاری رحمہ اللہ کی ہے اور کسی جگہ طبع بھی ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کی صحت اور سقم میں محدثین اور فقہاء کی کیا تحقیق ہے۔ فاتحہ مروجہ کا وجود آئمہ اربعہ تابعین و تبع تابعین اور صحابہ کے زمانہ میں تھا یا نہیں۔ (ابو الحسنات علی محمد۔ مدرسہ فیض الالسلام صدر والہ لکھو(فیروز پور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ملا علی قاری رحمہ اللہ کی تصانیف میں کوئی کتاب اوزجندی نام کی نہیں ہے۔ نہ اوزجندی کہیں دیکھی گئی، یہ حوالہ غلط مشہور ہے۔ اور یہ واقعہ کہ حضور ﷺ نے حضرت ابراہیم کی وفات کے تیسرے دن یہ عمل کیا تھا صحیح نہیں ہے۔

(محمد کفایت اللہ کان اللہ لہٗ دہلی) (الجواب حق : محمد شفیع عفی عنہ، مدرسہ عبد الرب دہلی)

اور فاتحہ مروجہ کا وجود قرون ثلثہ میں کہیں نہیں۔ اور نہ ائمہ اربعہ سے ثبوت ہے۔ ((اشفاق المئان غفرلہٗ)) (مدرسہ فتح پوری دہلی)

جواب صحیح ہے کہ فاتحہ مروجہ خصوصاً مذکورہ فی السوال حدیث نبوی سے ثابت نہیں۔ مفت خوروں نے ایسے افسانے بے سروپا کھانے پینے کے لیے بنا رکھے ہیں اور اس کو امر شرعی بنا کر لوگوں کو گمراہ رکر رکھا ہے۔ اسی قسم کی رسموں کو بدعت کہا جاتا ہے۔ حدیث نبوی میں ہے: ((من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد)) (صحیح بخاری و مسلم) ’’جو شخص ہمارے اس دین میں نئی چیز نکالے وہ مردود ہے۔‘‘پس فاتحہ مروجہ مردود ہے۔ سلف صالحین صحابہ و تابعین و فقہاء مجتہدین و ائمہ محدثین کے طریق کے بھی خلاف ہے۔

(راقم ابو سعید شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ عربیہ دہلی ۱۶ رجب، ۱۴۶۵ھ)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 354

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ