السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سارق۔ قرضدار۔ ڈاکو۔ رہزن وغیرہ کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عالمگیری میں ہے۔
((ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادة صغیرا کان او کبیرا ذکرا کان او انثی حرا کان او عبدا الا البغاة وتطاع الطریق ومن بمثل حالھم))
’’ہر مسلمان پر نماز جنازہ پڑھی جائے جو زندہ پیدا ہونے کے بعد مرا ہو چھوٹا ہو یا بڑا۔ مرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غلام، سوائے باغیوں اور ڈاکوؤں اور ان جیسے لوگوں کے۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ ڈاکو و رہزن و سارق وغیرہ پر نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ باقی رہا مقروض سو اس کے واسطے جناب رسول اللہ ﷺ نے خود نماز نہیں پڑھی بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ پڑھ لو۔ بلوغ المرام میں ہے۔
((عن ابی ھریرة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنه ان رسول اللّٰہ ﷺ کان یوتی بالرجل المتوفی علیه الدین فیسئل۔ ھل ترك لدینه من قضاء فان کان یوتی بالرجل المتوفی علیه الدین فیسئل۔ ھل ترك لدینه من قضاء فان حدث انه ترك وفاء ﷺ والا قال صلوا علی صاحبکم متفق علیه))
واللہ اعلم بالصواب۔ (سید محمد نذیر حسین)
’’رسول اللہ ﷺ کے پاس بعض ایسے جنازے لائے جاتے جن پر قرض ہوتا آپ پوچھتے کیا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے یا نہیں؟ اگر مال اتنا ہوتا جس سے قرض ادا ہو جائے تو اس پر نماز پڑھتے ورنہ فرماتے جائو۔ اپنے دوست کا جنازہ پڑھو۔‘‘
بغاۃ اور قطاع الطریق وامثالہم پر جنازہ کی نماز پڑھنے میں امت کا اختلاف ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور بعض کہتے ہیں کہ پڑھنی چاہیے، مگر ظاہر یہ ہے کہ ہر مسلمان کلمہ گو پر جنازہ کی نماز پڑھنی چاہیے، ہاں بغاۃ و قطاع الطریق وغیرہم فساق و فجار پر جنازہ کی نماز اہل علم و مقتدیٰ لوگ نہ پڑھیں، بلکہ اور لوگ پڑھ دیں، اس بات کے ثبوت میں احادیث و عبارات مندرجہ ذیل پڑھو۔ مشکوٰۃ شریف میں ہے۔
((عن یزید بن خالد ان رجلا من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ توفی یوم خیبر فذکروا الرسول اللّٰہ ﷺ فقال صلوا علی صاحبکم فتغیرت وجوہ الناس لذلک فقال ان صاحبکم غل فی سبیل اللّٰہ ففتشنا متاعه فوجدنا خرزا من خرز یہود لا یساوی درھیمین راوہ مالك و ابو داؤد والنسائی))
’’صحابہ میں سے ایک آدمی خیبر کے دن شہید ہو گیا نبی ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا آپ نے فرمایا جا کر اس کا جنازہ پڑھو لوگ اس سے بڑے غمگین ہوئے آپ نے فرمایا اس نے خیانت کی ہے ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو اس میں یہودیوں کی کچھ کوڑیاں نکلیں جو دو درہم کی قیمت کی بھی نہیں تھیں۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ہے۔
((عن جابر بن سمرة قال اتی النبی ﷺ برجل قتل نفسه بمشاقص فلم علیه وفی روایة النسائی اما انا فلا اصلی علیه))
’’نبی ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا اس نے خود کشی کی تھی تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا اور فرمایا میں اس کا جنازہ نہ پڑھوں گا۔‘‘
اور بلوغ المرام میں ہے۔
((وعن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه قال قال رسول اللّٰہ ﷺ صلوا علی من قال لا اله الا اللّٰہ وصلوا خلف من قال لا الٰه الا اللّٰہ رواہ الدارقطنی باسناد ضعیف))
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے لا الہ پڑھا اس کا جنازہ بھی پڑھو اور اس کے پیچھے نماز بھی پڑھ لو۔‘‘
اس حدیث کے تحت میں علامہ محمد بن اسمٰعیل سبل السلام صفحہ ۱۵۳ جلد ۱ میں لکھتے ہیں۔
((وھو دلیل علی انه یصلی علی من قال کلمة الشہادة وان لم یأت بالواجبات وذھب الی ھٰذا زید بن علی واحمد بن عیسی وذھب الیه ابو حنیفه الا انه استژنی قاطع الطریق والباغی وللشافعی اقوال فی قاطع الطریق اذا صلب والاصل ان میں قال کلمة الشہادة فله ما للمسلمین ومنه صلوٰة الجنازة علیه ویدل له حدیث الذی قتل نفسه بمشاقص فقال ﷺ اما انا فلا اصلی علیه ولم ینھھم عن الصلوة علیه ولان عموم شرعیة صلوٰة الجنازہ لا یخص منه احد من اھل کلمة الشہادة الا بدلیل انتہی))
’’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو لا الہ الا اللہ کہے اس کا جنازہ پڑھا جائے اگرچہ واجبات کا تارک ہو۔ زید بن علی۔ احمد بن عیسیٰ کا یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ ڈاکو اور باغی کے جنازہ کے قائل نہیں ہیں ڈاکو کے متعلق امام شافعی کے اقوال مختلف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جو بھی لا الہ الا اللہ کہے اس کو مسلمانوں کے تمام حقوق مل جاتے ہیں۔ اور اس میں سے جنازہ کی نماز بھی ہے۔ اور جس نے خودکشی کی تھی اس کا جنازہ آپ نے تو نہ پڑھا لیکن صحابہ کو منع نہ فرمایا۔ اور پھر کلمہ پڑھنے والے کا جنازہ پڑھنا ہی ہے جب تک کسی دلیل سے اس کا ناجائز ہونا ثابت نہ ہو جائے۔‘‘
اور نیل الاوطار صفحہ ۲۶۱ جلد ۲ میں ہے۔
((قوله فقال صلوا علی صاحبکم فیه جواز الصلوة علی العصاة واما ترك النبی ﷺ الصلوة علیه فاحد للزجر عن الغلول کما امتنع من الصلوة علی المدیون وامرھم بالصلوة علیه قوله فلم یصلی علیه فیه دلیل لمن قال انه لا یصلی علی الفاسق وھم العترة وعمر بن عبد العزیز والاوزاعی فقالوا لا یصلی علی الفاسق تصر یحا او تاویلاء وفقھم ابو حنیفه واصحابه فی الباغی والمحارب ووافقھم الشافعی فی قول له فی قاطع الطریق وذھب مالك والشافعی وابو حنیفه وجمہورا نعلماء الی انه یصلی علی الفاسق واجاببوا عن حدیث جابر بان النبی ﷺ انما لم یصل علیه بنفسه زجرا للناس وصلت علیه الصحابة ویؤید ذلك ما عند النسائی بلفظ اما انا فلا اصلی علیه وایضاً مجرد الترك لو فرض انه لم یصل علیه ھو ولا غیرہ لا یدل علی الحرمة المدعاة ویدل علی الصلوة علی الفاسق حدیث صلوا علی من قال لا اله الا اللّٰہ انتہی وقال صاحب لامنتقی قال الامام احمد ما یعلم ان النبی ﷺ ترك الصلوة علی احد الا علی الغال وقاتل نفسه انتہی))
’’اس سے گناہ گاروں پر نماز جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اور آنحضرت کا خیانت کرنے والے اور مقروض کا جنازہ نہ پڑھنا تو بیخاً و تنبیہاً ہے کیونکہ اگر ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہ ہوتا تو آپ صحابہ کو بھی منع کر دیتے اہل بیت اور عمر بن عبد العزیز اور امام اوزاعی فاسق کا جنازہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں امام شافعی ڈاکو کے جنازہ کے منکر ہیں، اور امام مالک و ابو حنیفہ اورا ن کے ساتھی اور جمہور علماء فاسق کے جنازہ کے قائل ہیں۔ ہاں امام ابو حنیفہ ڈاکو اور باغی کے جنازہ کے منکر ہیں اگر بالفرض آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام بھی مقروض اور خائن کا جنازہ نہ پڑھتے تو بھی اس سے فاسق کے جنازہ کی حرمت ثابت نہ ہوتی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو آدمی لا الہ الا اللہ کہے اس کا جنازہ پڑھو۔ امام احمد کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں کہ انہوں نے خائن اور خودکشی کرنے والے کو سوا کسی اور کا جنازہ پڑھا ہو۔‘‘
واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب