السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال:… (۱) ایک لمبا بیمار مر جاتا ہے، اس کی حجامت بنانے والی ہوتی ہے، یوں ہی دیکھا جائے تو اس کی شکل اور ڈراؤنی لگتی ہے، اگر اس کے لب وغیرہ درست کر دئیے جائیں، تو کیا جائز ہے اور …
سوال:… (۲) خاوند یا بیوی میں سے کوئی مر جائے تو کیا وہ ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔ ایک صاحب اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ صحیح کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کے ناخن وغیرہ: میت گو اب دنیا کے تکلفات اور ریت پرست سے دور چلی گئی ہے، اور بہت دور تاہم ہمیں حکم ہے کہ اسے انسان سمجھیں اور اس کے ساتھ شائستہ، باوقار اور شایان شان معاملہ کریں، مثلاً یہ کہ ا س کو نہلا کر خوشبو لگائی جائے، کفن سفید اور ستھرا دیا جائے، اس کو اچھے نام سے یاد کیا جائے، اس کی قبر پر نہ بیٹھا جائے، اس کی آنکھیں بند کر دی جائیں، وغیرہ وغیرہ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اب بھی اس کی شکل و صورت او رصفائی کا خیال رکھا جائے تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں ہے بلکہ بہتر ہے۔
حضرت زینب (حضور کی صاحبزادی) کا انتقال ہوا تو ان کے بالوں کو کنگھی کی گئی۔
((ان ام عطیة قالت مشطنا ھا ثلثة قرون))(بخاری ج ۱ ص ۱۶۷)
((ولمسلم من روایة ایوب عن حفصة عن ام عطیة مشطنا ھا ثلثة قرون وفیه حجة للشافعی ومن وانقه علی استحباب تسریح الشعر (فتح الباری ج ۳ ص ۱۳۳) وفی روایة مشطتھا ثلثه قرون(ابن ابی شیبة ج۳ ص ۲۵۲ ورواہ ایضاً ابن ماجه والنسائی وغیرھما))
حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ میت کے ناخن کاٹے جائیں گے۔
((عن منصور عن الحسن قال تقلم اظفار المیت))(مصنف ابن ابی شیبة ج۳ ص ۲۴۷)
مصنف عبد الرزاق کے الفاظ یہ ہیں۔
((عن معمر عن الحسن فی شعر مانة المیت انکان وافرا؟ قال یوخذ منه (محلی لابن حزم ج ۵ ص ۱۸۲))
ابو الملیح الہذلی نے وصیت کی تھی کہ جب ان کا انتقال ہوا، تو اس کے ناخن اور بال کاٹے جائیں۔
((او صام فقال اذا مات ان یاخذوا من شعرہ واظفارہ))(مصنف ج۳ ص ۲۴۷)
ابو الملیح ہذلی، حضرت اسامہ بن عمیر (والد) حضرت انس اور حضرت عائشہ کے شاگرد ہیں۔ ۹۸ھ میں وفات پائی ہے۔ (خلاصہ ص ۳۹۶)
حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت بکر بن عبد اللہ المزنی (احد الاعلام) کا یہ دستور تھا کہ جب کسی میت کے بال اور ناخن بڑھے ہوئے تو وہ انہیں کاٹ دیتے۔
((عن حمید عن بکر انه کان اذا رای من المیت شیئًا فاحشا من شعر وظفر اخذہ وقلمه))(مصنف ابن ابی شیبة ج۳ ص ۲۴۷)
اگر میت کے زیر ناف کے بال بھی بڑھے ہوتے تو حضرت سعد بن ابی وقاص اُسترا منگوا کر اسے مونڈ دیتے تھے۔
((عن ابی قلابة ان سعد اغسل میتا فدعا بموسی فحلقه))(ابن ابی شیبة ج۳ ص ۳۴۷)
مصنف عبد الرزاق میں اس کی تصریح آئی ہے کہ یہ سعد حضرت سعد بن ابی وقاص ہیں۔ (ملاحظہ ہو محلی ج ۵ ص ۱۸۲)
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کنگھی کرنے کو فرماتی تھیں۔
((انھا قالت سرح شعر المیت فانه یجعل معه))(مصنف ج۳ ص ۲۴۸)
امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق فطرت سے ہے، اس لیے فطرت کی صورت میں اسے رب کے پاس بھیجا جائے۔
((وصح بان کل ذلك من الغفرة فلا یجوز ان یجھزا لی ربه تعالٰی الا علی الفطرة التی مات علیھا))(محلی ج۵ ص ۱۸۱)
نیز لکھتے ہیں کہ اس کے جو مخالف ہیں، وہ ایسے صحابی کی مخالفت کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں۔ جن کا کوئی مخالف نہ ہو، یہاں بھی یہی بات ہے کہ حضرت سعد کا کوئی بھی مخالف نہیں ہے، گویا کہ یہ اجماع سکوتی ہے۔
((وھم یعظمون مخالفت الصاحب الذی لا یعرف له مخالف من الصحابة رضی اللہ عنہم وھذا صاحب لا یعرف له منہم مخالف)) (محلی ۵ ص ۱۸۲)
احناف کے نزدیک یہ کام جائز نہیں ہیں۔
((ولا یرح شعر المیت ولا لحیة ولا یفض فلفرہ ظفرہ ولا شعرہ لقوم عائشة علام تنقصون میتکم و لان ھذہ الاشیاء للزینة وقد استغنی المیت عنھا))(هدایة باب الجنائز ج۱ ص ۱۷۹)
مگر حضرت عائشہ والی روایت منقطع ہے۔
((وھو منقطع بین ابراہیم و عائشة)) (درایة باب مذکور)
باقی رہی زینت کی بات؟ سومردہ بھی ایک حد تک اس کا مستحق ہے، آکر اس کو نہلایا جاتا ہے، اچھا کفن دیا جاتا ہے، اس کو خوشبو بھی لگائی جاتی ہے، بہرحال زینت نہ سہی، اس کو بری حالت میں خدا کے ہاں بھیجنا مناسب نہی محسوس ہوتا۔ واللہ اعلم۔
خاوند بیوی کا ایک دوسرے کو غسل دینا، اس مسئلہ پر تو اجماع ہے کہ جب شوہر مر جائے، تو عورت اس کو غسل دے سکتی ہے۔
((نقل ابن المنذر وغیرہ الاجماع عل جواز غسل المرأة زوجہا)) (التعلیق المجد ج۵ ص ۱۲۹)
((قال الشاہ ولی اللّٰہ، واتفقوا علی جواز غسل المرأة زوجہا))(سوی شرح مؤطا ج۱ ص ۱۹۱)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے، تو آپ کی زوجہ محترمہ (حضرت اسماء بنت عمیس) نے صحابہ کی موجودگی میں غسل دیا۔
((ان اسماء بنت عمیس امرأة ابی بکر الصدیق غسلت ابا بکر الصدیق حین توفی ثم خرجت فسٔالت من حضرھا من المہاجرین فقالت انی صائمة وان ھٰذا یوم شدید البرد قالوا لا))(مؤطا مالك ج۱ ص ۱۹۱ و مؤطا محمد ص ۱۲۹)
اس کی بھی وصیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔
((عن ابی ملیکة، ان ابا بکر الصدیق حین حضرته الوفاة اوصی اسماء بنت عمیس ان تغسله وکذا قال ابن شداد)) (مصنف ۳ ص ۲۴۹ ابن ابی شیبة باب فی المرأة تغسل زوجہا)
حضرت جابر بن زید نے اپنی بیوی کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کو غسل دے۔
((انه اوصٰی ان تغسله امرأة)) (ابن ابی شیبة ۳ ص ۲۴۹)
حضرت ابو موسیٰ کو اس کی اہلیہ نے غسل دیا تھا۔ (ایضاً ج ۳ ص ۲۴۹)
((عن ابراھیم بن مہاجر ان ابا موسٰی غسلته امراته)) (ایضاً ۳ ص ۲۵۰)
حضرت عبد الرحمان بن عوف کے صاحبزادے حضرت ابو سلمہ فرماتے ہیں۔ کہ اگر عورتوں میں مرد مر جائے تو اس کی اہلیہ اس کو غسل دے۔
((فی الرجل یموت مع النساء قال تغسله امرأته)) (ایضاً)
حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ اس کی بیوی اسے غسل دے۔
((تغسل المرأة زوجہا))(ایضاً)
ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ مر داپنی بیوی کو غسل دے یا نہ ؟ احناف اس کو جائز نہیں سمجھتے، مگر یہ بات محل نظر ہے، کیونکہ یہ بات صحیح حدیث کے خلاف ہے، حضور نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا مجھ سے پہلے انتقال ہو گیا تو آپ کو غسل بھی میں دوں گا، اور کفن بھی میں پہنائوں گا۔
((لومت قبلی لغسلتك وکفنتك))(احمد والدارمی وابن ماجة وابن حبان والدارقطنی والبیہقی۔ (تلخیص الجیر ص ۱۵۴)
امام بیہقی فرماتے ہیں، محمد بن اسحاق مدلس ہیں۔ یہاں عنعنہ ہے، امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت میں محمد بن اسحاق منفرد نہیں ہے، بلکہ صالح بن کیسان اس کا متابع ہے، کما رواہ احمد و النسائی (تلخیص ص ۱۵۴) فرماتے ہیں ((لغسلتك)) غلط ہے ((فغسلتك)) صحیح ہے۔ (ایضاً)
علامہ سندھی لکھتے ہیں، مجمع الزوائد والے فرماتے ہیں کہ اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔
((وفی الزوائد اسنادہ رجالہ ثقات)) (حاشیہ سندھی علی ابن ماجہ ۱ ص ۴۴۷)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر وہ بات مجھے پہلے معلوم ہو جاتی، جو بعد میں معلوم ہوئی تو حضور ﷺ کو ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں۔
((لو کنت استقبلت من امری ما استدبرت ما غسل النبی ﷺ الا نساء ہ)) (ابن ماجه ۱ ص۱۴۶)
سندھی فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق کی تدلیس کا اندیشہ بھی نہیں ہے، کیونکہ حاکم وغیرہ کی روایت میں سماع کی تصریح آ گئی ہے۔
((ومع ذلک ذکرہ صاحب الزوائد ایضاً فقال اسنادہ صحیح ورجاله ثقات لان محمد بن اسحاق دون کان مدلساً لکن قد جاء عنہ التصریح بالتحدیث فی روایة الحاکم وغیرہ)) (حاشیہ علی ابن ماجہ ۱ ص ۴۴۷)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا۔
((ان علیا غسل فاطمة رواہ الشافعی والدارقطنی وابو نعیم فی الحلیة والبیہقی)) (تلخیص الجیر ص ۱۷۰ وقال اسنادہ حسن)
اور اس سلسلے میں جو اعتراض کیے گئے ہیں۔ اس کا بھی جواب دیا۔ (تلخیص ص ۱۷۰) درمختار میں ہے اس پر بعض صحابہ کا انکار لکھا ہے، مگر وہ کو ہیں اور کس کتاب میں ہے؟ اس کا کچھ پتہ نہیں،
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو غسل دینے کازیادہ حق رکھتا ہے۔
((عن ابن عباس قال، الرجل احق بغسل امرأته)) (ابن ابی شیبة ۳ ص ۲۵۰)
عبد الرحمٰن حضرت عائشہ کے شاگرد ہیں، اسّی حج اور اسّی عمرے کیے ہیں۔ (خلاصہ تذہیب الکمال ص ۱۹۰)
حضرت سلیمان بن بسیار فرماتے ہیں، کہ شوہر اپنی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔
((یغسل الرجل امرأته)) (مصنف ابن ابی شیبة ۳ ص ۲۵۰)
حضرت عون بن ابی جمیلہ (تبع تابعین میں سے) فرماتے ہیں کہ میں حضرت قسامۃ اور ان شیوخ کے پاس موجود تھا، جنہوں نے حضرت عمر کو پایا تھا۔ فرماتے ہیں ایک شخص نے اپنی بیوی کو غسل دینے کا ان سے ذکر کیا تو کسی نے ان پر اعتراض نہ کیا۔
((شہد قسامة بن زھیر واشیاخأ ادرکوا عمر بن الخطاب وقد امّاھم رجل فاخبرھم ان امرأته ماتت فامرته ان لا یغسلھا غیرہ فغسلھا فما منھم احدا انکر ذلك)) (محلی ابن حزم ۵ ص۱۸۰ وابن ابی شیبة طویلا ۳ ص ۲۵۱)
حضرت جابر بن زید فرماتے ہیں کہ مرد انی بیوی کو غسل دینے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
((الرجل احق ان یغسل امرأته من اخیھا)) (محلی ۵ ص ۱۷۹)
حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت معاویہ اور حضرت ابن عمر جیسے جلیل القدر صحابہ کے شاگرد ہیں، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے، وہ علماء میں سے ہیں۔
((ھو من العلماء)) (خلاصہ تذھیب الکمال ص ۵۰)
عبد الرحمن الاسود فرماتے ہیں کہ اپنی بیویوں کو میں خود غسل دیا کرتا ہوں، ان کی مائوں اور بہنوں کو روک دیتا ہوں۔
((انی لا غسل نسائی واحول بینھن وبین امھاتھن وبناتھن واخواتھن)) (محلی ۵ ص۱۷۹)
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔
((یغسل کل واحد صاحبه)) (محلی ۵ ص ۱۷۹ وابن ابی شیبة ۳ ص ۲۵۰)
حضرت حسن بصری تمام شیوخ صوفیہ کی آخری کڑی ہیں، ان کے بعد حضرت علی کا سلسلہ چلتا ہے، آپ حضرت جندب، حضرت انس، حضرت عبد الرحمن بن سمرۃ، حضرت معقل بن بسیار، حضرت ابو بکرۃ اور حضرت سمرۃ جیسے عظیم صحابہ کے شاگرد ہیں۔ (خلاصہ ص ۶۶)
حضرت امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ جس صحابی کا مخالف کوئی صحابی نہ ہو، حنفی اس سے خلاف کرنے کو عظیم جرم تصور کرتے ہیں، حضرت ابن عباس کی یہ روایت ہے، کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی مگر یہ خود اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
((والحنفیون یعظمون خلاف الصاحب الذین لا یعرف له مھم فخالف وھذہ روایة عن ابی عباس لا یعرف له من الصحابة مخالف وقد خالفوہ)) (محلی ۵ ص ۱۸۰)
حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ کسی مرد کا عورت کو اور عورت کا مرد کو ہاتھ نہ لگے، اس کا تعلق زندوں سے ہے، مردوں سے نہیں ہے، اگر اس کا تعلق اس سے بھی کرنا ہے، تو دلیل چاہیے، ((اذلیس فلیس)) اگر مردہ زندہ پر قیاس کرنا ہے، تو یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہے، رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو حضرت ابو طلحۃ نے قبر میں اتارار تھا۔ اور اس میں بدن کا چھونا ہوتا ہے، حضرت اسماء نے حضرت ابو بکر کو غسل دیا تھا۔ اور حضرت رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ اگر آپ کا پہلے انتقال ہوا تو میں آپ کو غسل بھی دوں گا، او کفن بھی پہنائوں گا۔
’’وآنکہ زن مرد مردہ راز بیند ونہ غسل و بد اگرچہ خوف فتنہ نباشد مستندی نہ دارد بلکہ وجوب سر بنسبت احیاء است، بہ نسبت اموات دلیلی می طلبد ولیس فلیس، واگر قیاس کنند براحیائ، قیاس مع الفارق است و ابو طلحہ بنت آنحضرت ﷺ رادر قبر نرود آوردہ و نرود آوردن ناچار بس میکند واسماء بنت عمیس غس واد ابو بکر صدیق او آنحضرت ﷺ فرمودند حضرت عائشہ را۔‘‘
تنبیہ:… جہاں صرف عورتیں ہوں، اور مرد مر جائے، یا صرف مرد ہوں، اور ایک عورت فوت ہو جائے ان میں بیوی یا شوہر نہ ہو، تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ اس میں اختلاف ہے، ایک جماعت کا کہنا ہے کہ کپڑوں میں سے اسے نہلا دیں، دوسری جماعت کا نظریہ ہے کہ اگر عورت ہے تو اس کے صرف چہرہ یا ہاتھوں کا تیمم کرائیں، اگر مرد ہو تو چہرہ کے ساتھ کہنیوں تک اس کا تیمم کرائیں، بعض بزرگوں کا ارشاد ہے، تیمم نہ غسل، بس انہیں یوں ہی دفن کر دیں،
((فقال قوم، یغسل کل واحد منھما صاحبه من فوق الشیاب وقال قوم تیمم کل واحد مھما صاحبه وبه قال الشافعی وابو حنیفة وجمہور العلماء قال قوم لا یضل واحد منھما صاحبه ولا تیممه وبه قال اللیث بن سعد بل یدفن من غیر غسل ولذلك وای مالك ان تیمم الرجل المرأة فی یدیھا ووجھما فقط…وان تیمم المرأة الرجل الی الرفقین)) (بدایة المجتہد ۱ ص ۲۲۷)
شاہ ولی اللہ نے امام شافعی کا مذہب پیرہن میں غسل دینا بتایا ہے۔ (مصفیٰ ج۱ ص ۱۹۲) امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ کپڑوں میں اسے غسل دینے میں کوئی مخطوطہ لازم نہیں آتا۔
(محلی جلد نمبر ۵ ص ۱۸۰) کیونکہ تیمم کے لیے شرط عدم الماء ہے۔ (ایضاً ج۵ ص ۱۸۱) مگر یہ استدلال صحیح نہیں، کیونکہ بیمار بھی کر سکتا ہے، زہری اور قتادہ بھی پیرہن میں غسل دینے کو کہتے ہیں، ((تغسل وعلیھا ثیاب))(محلی ۵ ص ۱۸۱) فرماتے ہیں کہ یہ بھی عجیب بات ہے کہ کپڑے سے اوپر چھونے سے بھاگے مگر تیمم میں چھو ہی لیا،
((والعجب ان القائلین انھا تیمم، فروا من المباشرة خلف ثوب وابا حرھا علی البشرة وھذا جھل شدید وباللّٰہ التوفیق)) (محلی ۵ ص ۱۸۱)
ہمارے نزدیک یہی مذہب اقرب الی الصوب ہے، حضور کو کپڑوں میں غسل دیا گیا تھا۔ (ابو داؤد)
حضرت ابن عمر اور حضرت عطاء بھی کپڑوں میں غسل دینے کو فرماتے ہیں۔ (ابن ابی شیبہ جلد نمبر ۳ ص ۲۴۹)
(محدث لاہور جلد ۵ عدد ۱۱۔۱۲) (عزیز زبیدی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب