السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا اللہ یا دوسرے بزرگوں کے نام کا وظیفہ کرنا یا بھیکھ یا مجدد، یہ موجب ثواب ہے یا موجب کفر یا گناہ صغیرہ ہے یا کبیرہ، اور ایسے وظائف کو ناجائز کہنے والے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں اور ایسے وظائف کا منگر گمراہ اور بدعی ہے یا حق پر ہے، کتب تفاسیر احادیث صحیح اور فقہ متبرہ ہے فتویٰ تحریرفرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غائب کو پکارنے سے کئی طرح پر شرک لازم آتا ہے، اولایہ صفت علم شرک ہے، دوم یہ صفت تصرف میں شرک ہے، اور یہ دونوں چیزیں عبادت سے تعلق رکھتی ہیں، سوم شرک فی العادت ہے۔
پہلی اور دوسری وجہ کی تشریح اس طرح ہے کہ دور و نزدیک، ظاہر و پوشیدہ چیزوں کا عملی احاطہ کرنا، اور تمام پکارنے والوں کی دعاؤں کو سننا، خواہ کو کسی زبان میں ہوں، اور بیک وقت لاکھوں کروڑوں آوازوں کا سننا اور سمجھنا اور صرف خدا تعالیٰ کا خاصہ ہے کوئی بھی مخلوقات میں سے اس صفت میں اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہے اور اسی طرح تمام امور میں تصرف کرنا، کسی کو نفع و نقصان پہنچانا، یہ بھی خدا کا خاصہ ہے، اور شرک کے اصول تین ہیں، یا ذات خدا وندی میں شرک ہو گا، یا عبادت میں یا صفات میں، اور ان تمام پہلوؤں میں کوئی بھی مخلوق اللہ تعالیٰ کی شریک نہیں ہے اور غیبت کا جاننا بھی اسی کی صفت اور خاصہ ہے، اس کو بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، قرآن مجید میں ہے اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، الایۃ، اور فرمایا: آپ کہہ دیں، اللہ کے سوا زمین اور آسمان میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا، ہوں اگر وہ کسی کو اطلاع دے دے تو ہو جاتی ہے، ورنہ نہیں۔ آنحضرتﷺ تمام مخلوقات سے افضل و اشرف ہیں ، اور پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ کہہ دیں میں اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں۔ مگر جو اللہ چاہیے اور فرمایا: اگر میں غیب جانتا ہوتا، تو بہت سے بھلائیاں اکٹھی کر لیتا، اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو ایمانداروں کے لیے ایک ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔
کلبی نے کہا ہے کہ مکہ والوں نے آنحضرتﷺ سے کہا، اے محمدﷺ، تجھے تیرا رب سستے نرخ کی اطلاع کیوں نہیں دیتا، کہ تجھے فائدہ ہو جایا کرے یا قحط سالی کی خبر کیوں نہیں دے دیتا، کہ تو کسی سرزمین شاداب میں چلا جائے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ولو کنت اعلم الغیب الایۃ، اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراس ایسے امور ہیں، جن دین کا کامیابی میں معاون ہوں، کہ آپ ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، جن پر اسلام کی تعلیم اثر کرتی ہے اور ایسے اشخاص پر توجہ نہیں کرتے، جن کی قسمت میں مسلمان ہونا نہ تھا اور آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور یہ نہیں جانتا کہ میرے متعلق خداوند نے کیا فیصلہ کر رکھا ہے، اور اس سے بھوک، پیاس، صحت ، بیماری وغیرہ دنیوی اور بھی مراد ہیں، کیونکہ آخرت کے متعلق تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان کے متعلق کامیابی کی اطلاع دے چکے ہیں، حنفیہ نے ایسے آدمی پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے، جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ آنحضرتﷺ غیب جانتے ہیں، کیونکہ یہ عقیدہ اس آیت قرآنی کے مخالف ہے، قل لا یعلم من فی السموٰت والارض الغیب الا اللہ۔ الآیۃ، شیخ ابن الہمام کے سامہر اور ملا علی قاری کی منح الازہر شرح فقہ اکبر میں بھی اسی طرح ہے، اور خانیہ اور خلاصہ میں ہے اگر کوئی آدمی اللہ و رسول کی شہادت سے نکاح کرے، تو وہ نکاح درست نہیں ہو گا، اور نکاح کرنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے یہ عقیدہ رکھا کہ نبیﷺ غیب جانتے ہیں۔
شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سورۂ مزمل کی تفسیر میں فرماتے ہیں، کہ جس کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہو، اس میں دو چیزوں کا ہونا نہایت ضروری ہے ایک تو یہ کہ وہ دور و نزدیک سے ذاکر کے اعمال تلبیہ و لسانیہ سے واقف ہو، جو مختلف زبانوں میں اس کی پکار کا مطلب سمجھتا ہو اور دوسری یہ کہ وہ ہر وقت اس کے قریب ہوتا کہ بروقت اس کی مدد کر سکے، اور یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہیں، کسی بھی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں، ہاں بعض جاہل لوگ اپنے پیروں کے متعلق پہلی صفت ثابت کرتے ہیں اور ان سے مدد مانگتے ہیں۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا اللہ اور یا بھیکھ وغیرہ وظائف کرنا ناجائز ہے اور اس میں شرک کرنا لازم آتا ہے، کیونکہ غیب کا علم خدا تعالیٰ کے سوا مخلوق میں ہیں ثابت کیا گیا ہے جو ایسا عقیدہ رکھے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے، کیونکہ وہ مشرک ہے، خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے:
﴿وَمَا یُومِنُ اکثرهُم بِاللّٰہِ اِلَّا وَهُم مُشرِکوُن﴾
تفسیر بیضاوی میں ہے، کہ جن کو خدا تعالیٰ کے سوا پکارا جاتا ہے، وہ یا تو پتھر وغیرہ ہیں، وہ تو کچھ سن ہی نہیں سکتے، اور یا پھر خدا کے نیک بندے ہیں، اور وہ اپنے حال میں مشغول ہیں، ان کو دوسروں کی خبر ہی نہیں۔
علامہ تفتا زانی نے شرح مقاصد میں فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی اختلاف ہی نہیں ہے کہ میت نہیں سن سکتی، اور اس مضمون سے فقہ کی کتابیں بھری پڑی ہیں، چنانچہ ہدایہ کے محشی علامہ محمود عینی نے بالآخر لکھا، کسی کو بھی خدا تعالیٰ کے سوا پکارنا، اور اس سے حاجت طلب کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ پکارنے کا مطلب یہ ہوتا ہے، سنانا اور میت سننے کی اہل ہی نہیں ہے، کیا تم قرآن مجید کی آیت پر غور نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’تو مردوں کو نہیں سنا سکتا اور جو قبروں میں چلے گئے تو ان کو سنانے والا نہیں ہے۔‘‘
قصہ مختصر ایسا عقیدہ ہر گز نہ رکھنا چاہیے، کہ بزرگوں کی روحیں ہمارے حالات سے واقف ہیں، اور پھر ان کو پکارے اس سے شرک لازم آتا ہے، چنانچہ بزایۃ وغیرہ کتب فقہ میں صاف صاف فتویٰ دیا گیا ہے، کہ جو آدمی یہ عقیدہ رکھے، کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہیں، اور ہمارے حالات کو جانتی ہیں ، وہ کافر ہے۔
شیخ فخر الدین ابو سعید عثمان بن الجیانی حنفی اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں، جو کہے بیت اللہ تعالیٰ کے سوا امور میں تصرف کر سکتی ہے، اور یہی عقیدہ رکھے وہ کافر ہے، بحر الرائق میں بھی ایسا ہی ہے، اور رزق کی فراخی، مصیبتوں کے دفعیہ اور اولاد وغیرہ کی طبل کی مدد خدا کے سوائے کسی اور سے مانگنا جائز ہی نہیں ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے جب بھی تو مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مانگ، پس آنحضرتﷺ نے اس کو شرط و جزاء کے طور پر فرمایا ہے کہ خدا سے مانگ، تو یہ منقول و معقول کا مسلمہ قاعدہ ہے ، کہ لازم کے سوا ملزوم کا پایا جانا محال ہے،اور آیت میں ایاک نعبدہ وایاک نسعتین بھی تو یہی مضمون ادا کر رہی ہے۔
اگر کوئی آدمی یہ عقیدہ رکھے، کہ واقعی غیب کی چابیاں تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، لیکن اس نے اپنے نیک بندوں کے سپرد کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے وہ سنتے اور جانتے ہیں، تو اس کے جواب میں تفسیر نیشا پوری کی عبارت کافی ہے، وہ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’یہ غیب کی چابیاں، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس ہو ہی نہیں سکتیں، کیونکہ عقلی طور پر محاوط اپنے محیط کا احاطہ نہیں کر سکتا، ایسے ہی واجب کا احاطہ غیر واجب نہیں کر سکتا، تو لازمی طور پر یہ چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس رہیں گی۔
اور شرک فی العادت یہ ہے کہ جیسے یا اللہ یا رحیم یا کریم کہتا ہے، ویسے ہی یا علی یا حسین وغیرہ کہنے کی عادت بنا لے خواہ ان کو پکارنا مقصود نہ ہو، اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے، کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے، اور اگر اس نظریہ سے ان کو پکارے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مختار بنا دیا ہے، اور اپنی رحمت کے خزانے ان کے سپرد کر رکھے ہیں، اور اب اللہ تعالیٰ بھی ان کی مرضی کے بغیر از خود کچھ نہیں کر سکتے، جیسے کہ دنیاوی بادشاہ اپنی حکومت کے بعضے شعبے اپنے وزراء میں تقسیم کر دیتے ہیں، اور پھر ان کے معاملات میں بادشاہ بھی از خود کچھ دخل نہیں دیتے، تاکہ نظام ملکی میں بد نظمی نہ پیدا ہو، ہاں اگر ضروری ہو تو بادشاہ اپنے کار مختار وزیر سے سفارش کر دے گا، کہ یہ کام اسی طرح کر دو، اگر ایسا ہی عقیدہ خدا کے متعلق رکھ کر خدا تعالیٰ کو ان کے پاس سفارشی بنائے تو یہ خدا تعالیٰ کی شان میں انتہا درجہ کی گستاخی اور بے ادبی ہے۔
چنانچہ ایک بدوی نے آنحضرتﷺ سے عرض کیا، کہ تکلیف حد سے بڑھ گئی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بارش نازل فرمائے، اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ جب خدا سے کام ہو توہم آپ کو سفارشی بناتے ہیں، اور جب آپ سے کام ہو تو اللہ تعالیٰ کو آپ کے ہاں سفارشی بناتے ہیں، تو بدوی کے اس کلام سے حضورﷺ کا چہرہ متغیر ہو گیا، آپ تسبیحات پڑھتے رہے اور پھر فرمایا: تجھ پر نہایت افسوس ہے کہ تو اتنا نہ سمجھ سکا کہ خدا تعالیٰ کو کسی کے پاس سفارشی نہیں بتاتے، کیونکہ اس صورت میں اصلی اختیار تو کسی دوسرے کا ہوا، اور خدا وند تعالیٰ سفارش کرنے کے لیے اس کے پاس گئے ، تجھے کچھ معلوم بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی شان کیا ہے، اس کا عرش آسمانوں کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے، اور اس کی عظمت و ہیبت سے چر چر کر رہا ہے۔
اور خدا تعالیٰ نے فرمایا: وما قدرو اللہ حق قدرہ۔ پس ایسے کلمات سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے۔ درمختار میں شرح دہبانیہ کے حوالہ سے لکھا ہے۔ اگر کوئی اس طرح کہے شیئا اللہ (کوئی چیز مجھے اللہ کے لیے دے تو وہ بعض کے نزدیک تو کافر ہے اور بعض کے نزدیک اس کے کفر کا خطرہ ہے، ہاں اس طرح کہہ لینا جائز ہے، کہ یا الٰہی!ف مجھے بحرمت فلاں یا ببرکت فلاں یہ چیز عنایت کر دے، اور بحق فلاں نہیں کہنا چاہیے، کیونکہ خدا تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے بعینہ یہ مضمون ہدایہ اور شرح وقایہ کتب حنفیہ بھی میں بھی موجود ہے۔ واللہ اعلم ۔ ۱۲
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب