سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(71) کیافرماتے ہیں علماء دین احادیث مذکورہ زیل کے بارے میں کہ..الخ

  • 3549
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1830

سوال

(71) کیافرماتے ہیں علماء دین احادیث مذکورہ زیل کے بارے میں کہ..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علماء دین احادیث مذکورہ زیل کے بارے میں کہ یہ صحیح ہیں یا ضعیف یا موضوع یا ان  میں سے نمبر1 اور نمبر 4 کو حدیث قدسی کہنا کیسا ہے۔؟ونیز امام شوکانی ؒ کا سماع مزامیر کو جائز کہنا کیساہے؟اور مرزا غلام احمد کا مسیح موعود ہونے کادعویٰ کرنا کیسا ہے۔؟وہ حدیثیں یہ ہیں۔

1.لولاك لما خلقت الافلاك

2.من زار العلماء فكانما زارني ومن صافح العلماء فكانما صافحني ومن جالس العلماء فكا نما جالسني ومن جالسني في الدنيا اجلس له يوم الفيامة

3.علما ء امتي كا نبياء بني اسرائيل

4.انه كان صلي الله عليه وسلم يقول اللهم احيني مسكينا و امتني مسكينا واحشر تي في زمرة المساكين

5.رجب شهر الله وشعبان شهري و رمضان شهر امتي


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ماسوائے حدیث نمبر 4 کے باقی سب حدیثیں موضوع ہیں۔اور حدیث موضوع کو موضوع جان کر بیان کرنا حرام ہے۔اور داخل وعید ہے۔امام نووی ؒ شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔

1يحرم رواية الحديث المو ضثععلي من عرف كونه مو ضوعا او غلب علي ظنه وضعه فمن روي حديثا علم وضعه اوظن وضعه فهو مندرج في  الوعيد

ہاں حدیث نمبر 1 کی نسبت ملاعلی قاری اپنے موضوعات میں لکھتے ہیں۔

قال الصنعاني2 انه موضوع كذافي الخلاصة لكن معناه صحيح فقد روي

الديلمي عن ابن عباس مرفوعا اتاني جبرئيل فقال يا محمد لولاك

حدیث موضوع کو روایت کرنا اس آدمی پر حرام ہے۔جس کو اس کے موضوع ہونے کا علم ہو یا غالب ظن اس کے موضوع ہونےکا ہواوجو ایسی حدیث جانتے ہوئے روایت کرے تو وعید میں شامل ہے۔2۔صنعانی نے کہا یہ حدیث موضوع ہے۔لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔ابن عباس سے مرفوعا ر وایت کیاہے  کہ جبرئیل نے میرے پاس آکے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔اے محمدﷺ اگر تو نہ ہوتا۔تو میں جنت اوردوزخ کو نہ پیدا کرتا۔

ما خلقت الجنة ولولاكما خلقت النار

ونیز حدیث نمبر 3 کی نسبت لکھتے ہیں۔کہ علامہ سیوطی ؒ نے اس میں سکوت 1کیاہے۔ اور بعدثبوت وضع حدیث نمبر 1 کے اس کو حدیث

قدسی کہنا محض خطا ہے۔ونیز حدیث نمبر 4 یہ بھی قدسی نہیں ہے۔اس لئے کہ عبارت

  كان رسول الله صلي الله عليه وسلم

خوددال ہے۔اس پر یہ کہ یہ قول اللہ عزوجل کا نہیں۔کیونکہ حدیث قدسی اس حدیث کوکہتے ہیں۔جو بواسطہ جبرئیل یا بلاواسطہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے پہنچی ہو۔اسی وجہ سے جو حدیث قدسی ہوتی ہے۔عبارت اس کی یوں ہوتی ہے۔

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم قال الله عزوجل

امام شوکانی ؒ کا سماع مزامیر کو جائز کہنا بجا ہے۔مگر وہی جس کوشارع نے مباح کہا ہے۔جیسا کہ نیل الاوطار جلد سادس باب الدت واللہو

فی النکاح میں مذکور ہے۔اورحد مباح سے جو باہرہے۔ہرگز جائز نہیں۔بلکہ اس پر وعید ہے۔ چنانچہ نیل الاوطار جلد سابع باب ماجار فی آلۃ اللہو میں مذکور  ہے۔ابن ماجہ کی حدیث میں ہے۔

لیکن امام شوکانی ؒ نے الفوائد المجموعہ میں لکھاہے۔قال ابن حجر والزركشي لا اصل له انتهي ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنہ

1.ليشر بن ناس من امني الخمر يسمونها بغير اسمها يعرف علي روسهم بالمعاوف والمغنيات يخسف الله بهم الارض ويجعل منهم القردة والخنازير

غرض یہ کہ سماع با مزامیر مجاوز حد ممنوع ہے۔جس کے عدم جواز میں صحیح حدیثیں مروی ہیں۔ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔جماعت صوافیہ باحت مطلقہ کے قائل ہیں۔اور امام شوکانی ؒ بھی انھیں میں سے ہیں۔حالانکہ جس حدیث سے اباحت ثابت کی جاتی ہے۔اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول  وليستا بمغنيتين ثبوت اباحت کی نفی کرتا ہے۔ بخاری شریف پارہ چار باب سنۃ العیدین میں ہے۔

عن2 عائشة قالت د خل ابو بكر  وعندي جريتان من جواري الانصار تغنيان بما تفاولت الانصار يوم بعاث وليستا بمغنيتين

ونیز بہت سے علماء نے حرام لکھا ہے۔

اور مرزا غلام احمد کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سراسر غلط اور محض باطل ہے۔وہ مسیح موعود نہیں ہے۔(حررہ عبد الوہاب عفی عنہ)

میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پیئں گے۔اور اس کا نام کوئی اوررکھ لیں گے۔اور ان کی مجالس میں باجے اورراگ رنگ ہوگا۔اللہ بعض کو ان میں سے زمین میں غرق کردےگا۔اور بعض کو بندر اور خنزیر بنا ڈالے گا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں۔کہ میرے پاس ابو بکر آئے۔اس وقت انصار کی دوچھوکریاں میرے پاس و ہ شعر گارہی تھیں۔جوانصار نے جنگ بعاث میں کہے تھے۔اور وہ پیشہ ور گان والیاں نہ تھیں۔

ہوالموفق

 حدیث نمبر  4 کو ابن جوزی ن موضوع کہا ہے۔مگر حق یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ حاکم نے مستدرک میں اس کو صحیح کہا ہے۔ اورحافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں حاکم کی  تصحیح کو برقرار رکھا  ہے۔کما فی الفوائد المجموعہ للعلامہ الشوکانی ؒ حافظ ابن حجر تلخیص الجبیر ص275 میں لکھتے ہیں۔

واما الثاني1راوي حديث اللهم احيني مسكينا الخ فرواه الترمذي من حديث انس واستخرجه واسنا ده ضعيف وفي الباب عن السعيد رواه ابن ما جه وفي اسناده ضعف ايضا وله طريق اخري في المستدرك من حديث عطا ء عنه وطوله البيهقي ورواه البيهقي من حديث عبادة بن الصامت واسرف ابن الجوزي فذكر هذا الحديث في الموضوعات انتهي

مجیب نے مسئلہ غناد سماع میں اجمال سےکام لیا ہے۔ و نیز علامہ شوکانی کواباحت مطلقہ کے قائلین سے شمار کیاہے۔حالانکہ علامہ ممدوح اباحت  مطلقہ کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔علامہ ممدوح نے اس مسئلہ پر

اے اللہ مجھ کو مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ الحدیث ا س کو ترمذی نے انس سے روایت کیا ہے۔اور اس کی سند ضعیف ہے۔اور ابن ماجہ نے ابوسعید سے روایت کیا ہ۔اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔مستدرک حاکم میں اس کے طریق ہیں۔ اور بہقی نے اس کو عبادہ بن صامت سےروایت کیا ہے۔اور ابن جوزی نے زیادتی کی جو اس کو موضوع لکھدیا۔

نیل الاوطار پر دو مقام میں بحث کی ہے۔دونوں مقام سے ان کی عبارت مع ترجمہ نقل کی جاتی ہے۔تاکہ اس مسئلہ میں جوانکی تحقیق ہے۔وہ ظاہر ہو۔اورفی الجملہ اس مسئلہ کی توضیح بھی ہو۔نیل الاوطارصفحہ106 جلد6 باب الدف واللہو میں لکھتے ہیں۔

وفي ذلك راي في حديث فصل ما بين الحلال والحرام الدف والصوفي النكاح دليل علي انه يجوز في النكاح ضربالادفات ورفع الاصوات بشئ من الكلام نحو اتينا كم و نحو ه لابالا غاني المهيجةللشرور المشتمة علي وصف الجمال والفجور ومعا قرة الخمور فان ذلك يحرم في النكاح كما يحرم في غيره وكذالك سائر الملا هي المحرمة

یعنی اس حدیث میں کہ حلال نکاح اور حرام نکاح دف اورصوت کا فرق ہے دلیل ہے اس بات کی  کے جائز ہے نکاح میں دف بجانا اور آواز بلند کرنا۔ایسے  کلام کے ساتھ جو اتیناکم کے مثل ہو۔نہ ایسا گیت گانا جو برایئوں کو ہیجان میں لانے والا ہو۔یعنی جو بیان حسن و جمال اور فجور اورشراب نوشی پر مشتمل ہو۔اس واسطے کہ ایسا گیت نکاح میں بھی حرام ہے۔اور غیر نکاح میں بھی اور اسی طرح تمام ملاحی محرمہ نکاح میں بھی حرام ہیں۔اور ٖغیر نکاح میں بھی حرام ہیں۔اور نیل الاوطار  جلد سابع  صفحہ 315 میں لکھتے ہیں۔

قد اختلفالعلماء في الغنا ء مع الة من الات الملاهي وبد ونها فذهب الجمهور الي التحريم مستد لين بما سلف ذهب اهل المدينة ومن رافقهم من علماء الظاهر وجماعة من الصو فيته الي الترخيصفي السماع ولومع العود واليراع

یعنی غناء کی حلت و حرمت میں علماء کا اختلاف ہے۔آلات ملاحی میں کسی آلے کےساتھ ہو جمہور علماءکے نزدیک حرام ہے۔او ر ان کی دلیل وہ احادیث اورروایات ہیں۔جو پہلے مذکور  ہوچکیں۔اور اہل مدینہ اور بعض علماء ظاہر کے نزدیک اور صوفیہ کی ایک جماعت کے نزدیک جائزہے۔اگرچہ عوداوریراع کے ساتھ ہو۔

پھر دلائل طرفین کے مع مالہاد ما  علیھا بیان کر کے آخر میں لکھتے ہیں۔

واذا تقررجميع ما حرر ناه من حجج الفريقين فلايخفيعلي الناظر ان محل  النزاع اذا خرج عن دائرة الحرام لم يخرج عن دائرة الا شتباه والمومنون وقافون عند الشهبات كما صرح به الحديث الصحيح ومن تركها فقد استبرء لعرضه ودينه ومن حام حول الحمي يوشك ان يقع فيه ولا سيما اذا كان مشتملا علي ذكر القدودوالخد ودو والجمال والدلال والهجر والوصال ومعافرة العقار وخلع العذار والوقار فان سامع ما كان كذالك لا يخلو عن بليته وان كان من التصلب في ذات الله علي  حد يقصر عنه الوصف و كور لهنده الوسيلة الشيطانية من قتيل دمه مطول هوا سير بهموم غرامه وهيامه مكبول نسال السداد والثباتومن ارادا الا ستيفاء للبحث في  هذه المسئلة فعليه بالرسالة التي سميتها ابطال دعوي الاجماع علي تحريم مطلق السماع

یعنی جب فریقین کے دلائل کو مع ما لہاد ما علیھا ہم تحریر کرچکے تو اب ناظرین پر مخفی نہیں ہے۔کہ محل نزاع دائرہ حرام سے خارج ہو تو دیگر دائرہ اشتباہ سے خارج نہیں ہوسکتا ہے۔اور مومنین کی شان یہ ہے کہ شبہات کے پاس  ٹھر نہیں جاتے جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی تصریح آئی ہے۔اور جو شخص شبہات کو ترک کرتاہے۔وہ اپنی آبرو اور دین کو پاک کرتا ہے۔اور  جو شخص چراگاہ کے گردگھومتاہے۔اس کا اس میں واقع ہوجانا کچھ بعید نہیں ہے۔بالخصوص جب کہ غناء مشتمل ہو۔زکرقدوقامت اور خدوخال اور بیان حسن و جمال اور ہجرہ وصال وغیرہ پر اس واسطے کے ایسے غنا اور راگ کا سننے والا بلااور مصیبت سے خالی نہیں ہوسکتا۔اگرچہ نہایت درجہ کا دین دار ہو۔اوردین میں نہایت سخت ہو۔اور اس شیطانی وسیلہ کے کتنے قتیل ہیں۔جن کا خون ہدر و رایئگاں ہے۔ اور کتنے قیدی ہیں جو اس کے عشق میں گرفتار ہیں۔اللہ تعالیٰ سے ہم میانہ روی اور ثابت قدمی کا سوال کرتے ہیں۔اور اس مسئلے کی بحث کوپورے طور  پر جوشخص دیکھنا چاہے اسکو ہمارا رسالہ موصومہ ابطال دعوے الاجماع علی تحریم مطلق السماع ضرور دیکھنا چا ہیے۔

نیل کی ان دونوں عبارتوں سے صاف معلوم ہوا کہ علامہ شوکانی ؒ جماعت صوفیہ کی طرح اباحت مطلقہ کے قائل نہیں ہیں۔

(کتبہ محمدعبد الرحمٰن المبارک پوری ۔سید محمدنزیر حسین)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 12 ص 144-148

محدث فتویٰ

تبصرے