سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) سالم قربانی کرنےوالوں اور قربانی میں شریک ہونے والوں کو انتباہ

  • 3369
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1365

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سالم قربانی کرنےوالوں اور قربانی میں شریک ہونے والوں کو انتباہ۔ مولنا عبد القادر صاحب  عارف حصاری


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرات اہل اسلام!اب ماہ زوالحجہ قریب آرہا ہے۔اس کے ابتدائی عشرے کی بڑی فضیلت اور بزرگی ہے جن کی سورہ فجر میں اللہ نے قسم کھائی ہے۔یہ دس ایام دیگر مہینوں کے دس دنوں سے بہت زیادہ درجہ اور فضیلت رکھتے ہیں۔ان دنوں میں زکر الہیٰ تہلیل تکبیر تمحید نہایت کثرت سے کرنے کا حکم ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام ان دنوں میں بازاروں میں جاتے تو تکبریں کہتے۔جن کی تکبیریں سنکر دیگر لوگ بھی تکبیریں کہتے ۔اعمال صالحہ کا درجہ ان دنوں میں  جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ فائق اور اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے۔ان دنوں کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر درجہ رکھتا ہے۔اور ان دنوں کی راتوں کا قیام شب قدر کے قیام کا ثواب رکھتا ہے۔آپﷺ نو زولحجہ کو یوم عرفہ کا روزہ رکھتے اور فرماتے تھے۔ کہ اس دن کے روزے سے دو سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ پھر ان کے بعد قربانی کا سلسلہ دس تاریخ زوالحجہ کو شروع ہوتا ہے۔سب دنوں سے یوم النحر کی بڑی فضیلت ہے۔کہ یہ دن اللہ تعالیٰ کوسب سے زیادہ محبوب ہیں۔اس دن کے بعددوسرے ایام 11۔12۔13 زولحجہ کی فضیلت ہے۔ان کو ایام تشریق کہتے ہیں۔ان میں روزہ رکھنا منع ہے۔کہ یہ ایام اکل وشرب کے ہیں۔ان میں قربانیاں زبح کی جاتی ہیں۔جس طرح اول وقت نماز افضل ہے۔ ا س طرح دسویں تاریخ کو قربانیاں زبح کرنا افضل ہے۔اکثر اور اغلب عمل قربانی کی وجہ سے اس کانام یوم النحر ہے اس دن سب اعمال سے زیادہ موجب ثواب اور  اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اعلیٰ اورعمدہ اور بے عیب جانور کا خون بہانا ہے۔اور سب  جانوروں میں اللہ تعالیٰ کو دنبہ سفید رنگ اور سینگ دار اور  خوبصورت موٹی آنکھوں والا زیادہ پیارا ہے۔کہ یہ اوصاف اس دنبے کے تھے۔جو حضرت خلیلؑاللہ علیہ السلام نے دسویں تاریخ کو زبح کیا تھا۔اس کو ہمارے نبی کریم ﷺ نے پسند فرما کر قربانی کیا تھا۔سفید رنگ کی بکری قربانی کرنا دو سیاہ بکریوں کے برابر درجہ رکھتی 1۔ہے۔قربانی کی بڑی فضیلت ہے۔قربانی کا جانور قیامت  کے دن ترازو و اعمال میں ڈالنے کے لئے لایا جائے گا۔جو سینگوں بالوں کہروں پائوں گوشت ہڈیوں خونوں گوبر وغیرہ سمیت حاضر ہوگا اور اسکو دگنا کر کے ترازو اعمال میں ڈالا جاوے گا۔اور ہر بال کے عوض نیکیاں دی جایئں گی۔قربانی ضرور کرنی چاہیے۔جو شخص قربانی باوجود وسعت مالی کے نہ کرے ایسے بخیل کو عید گاہ میں جانا جائز نہیں۔قربانی کرنا ایسا عمل ہے۔کہ اس کو زبح کرنے سے جو خون نکلتا ہے۔اس کے پہلے قطرے سے ہی تمام گناہ بخشے جاتے ہیں۔اوراللہ تعالیٰ کے دربار قبولیت میں وہ خون پہنچتا ہے۔ گوشت وغیرہ تو قربانی کرنے والے اور دوسرے لوگ کھا جاتے ہیں۔قربانی میں جو اخلاص اور تقویٰ اختیار کیا جاتا ہے۔وہ درگاہ الٰہی میں پہنچ جاتا ہے۔ایسی قربانی جو درگاہ الٰہی میں قبولیت کو پہنچ گئی۔ دن قیامت کے دوزخ کے سامنے ڈھال کا کام دے گی۔اور اس قربانی دینے والے اور دوزخ کے درمیان پر دہ ہو جائے گی۔تاکہ اس کودوزخ کی آگ اور اس کی تپش نہ پہنچے۔پھر جب لوگ پل صراط عبور کر کے جنت کو جایئں گے۔تو یہ قربانی اپنے مالک کیلئے سواری بن جائے گی۔اس لئے خوب موٹا فربہ جانور خرید کر قربانی کرو۔او ر وہ جانور عیوب

1۔اس کا حوالہ ضروری ہے۔(ادارہ)

مصروحہ سے پاک ہو۔اور وہ عیوب یہ ہیں جو درج زیل ہیں۔

1۔جس جانور کے کان اوپر کی جانب سے کٹے ہوں۔

2۔جس کے نیچے کی جانب سے کٹے ہوئے ہوں۔

3۔جس کےچرے ہوے ہوں درازی میں

4۔جس کے کان میں سوراخ ہو گلائی میں

5۔جس کا نصف یا زیادہ سینگ کان اندرونی حصہ سے چلا گیا ہو۔

6۔لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔

7۔اندھا کانا بھینگا جس کا کانا پن اور بھینگ صاف نمایاں ہو۔

8۔بیمار جانور جس کی بیماری صاف ظاہر ہو۔

9۔لاغر اور دبلا جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

10۔جس جانور کا کان جڑ سے اکھاڑا گیا ہو۔

11۔جس کا سینگ جڑ سے نکل گیا ہو۔

12۔کمزور جو ریوڑ کےساتھ چل نہ سکے۔

13۔جس جانور کو کھجلی ہو وہ بھی درست نہیں۔

14۔اور جو تھن2 کٹا ہو۔وہ بھی درست نہیں۔

ان عیوب کے علاوہ کوئی عیب ہو۔مثلا دانت موٹا ہو یا دم کٹی ہو۔وغیرہ تو ایسےجانور کے ناجائز ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا۔کہ یہ عیوب کسی دلیل سے ثابت نہیں ہیں۔ہاں اگر کوئی ایسا شخص ایسا جانور پسند  نہ کرے۔او ر اس سے بہتر جانور بالکل بے عیب تلاش لے تو یہ افضل  ہے لیکن یہ شرطیں ہر جانور کیلئے ہیں۔کہ وہ دودانت ہو۔اس سے کم عمر کا جائز نہیں۔ہاں اگر میسر نہ ہوتو بھیڑ کا جزعہ ایک سال کا جائز ہے۔مسنہ ہونے سے پہلے کی عمر سال یا سال سے زیادہ ہو۔تووہ جزعہ کہلائے گا۔بہر حال ان تمام عیوب سے پاک جانور قربانی کیلئے مشروع ہے۔ہاں اگر قربانی کے خریدنے کے بعد ان  عیوب سے کوئی عیب پیدا ہو تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔اس کی قربانی3 جائز ہے۔جو جانور قربانی کیلئے نام زد ہو کر معین ہو۔تو اس کا بدلنا اور بیچنا جائز نہیں ہے۔اگر قربانی کاجانور وقت سے پہلے ہی بیمار ہو کرقریب ہلاکت کے ہو جائے تو اس کو زبح کر کے مسکین کے حوالےکر دے۔نہ خود کھائے اور نہ اپنے اہل وعیال کو کھلائے۔اگر گابھن جانور قربانی کیا تو جائز ہے۔اس کے پیٹ سے جو بچہ نکلا اگر زندہ ہو تو زبح کر لے۔اگر مردہ ہوتب بھی اس کا کھانا جائز ہے۔ اگر کوئی جانور بمہ بچے کے خریدا تو اس جانور کو بمعہ بچے کے زبح کرنا چاہیے۔ قربانی نما ز سے پہلے زبح کرنی منع ہے۔اگر نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی زبح کی تو  قربانی نہ ہوگی۔اُس کو قربانی دوبارہ کرنی پڑے گی۔اور قربانی عید گاہ میں کرنی سنت ہے۔اور گھروں۔

2۔تھن کٹا ایسا عیب نہیں ہے۔جس سے حدیث میں ممانعت آئی ہو۔آپ کی نظر میں کوئی حدیث ہوتو ملاحظہ فرمایئے۔(حافظ عبد القادر)

3۔فیہ نظر (حافظ عبد القادر)

میں جائز ہے۔امام الجماعت کوچاہیے کہ عید گاہ میں اپنی قربانی سب سے پہلے زبح کرے۔پھر دوسرےلوگ قربانیاں زبح کریں۔اگر کسی نے امام الجماعۃ3 س پہلے قربانی زبح کر لی تو اس کی قربانی نہ ہوگی۔اس کو دوبارہ قربانی کرنی پڑے گی۔(نیل الاوطار)

قربانی اپنےہاتھ سے زبح کرنا سنت ہے۔خواہ عورت ہو۔اگرہاتھ سے زبح نہ کر سکے۔تو قربانی کے پاس حاضر ہوکر اس پر اپنا ہاتھ رکھے یا اس کو پکڑے اگر کئی اشخاص ایک قربانی میں شریک ہوں۔تو سب اس قربانی کو پکڑٖیں کوئی اس کی ٹانگ پکڑے کوئی ہاتھ پکڑے کوئی سینگ اور زبح کرے۔لیکن تکبیر سب شرکاء پکاریں یہ طریقہ مسنون ہے۔ہاں اگرعورت شریک ہو2 تو صرف پاس کھڑی ہوجائے اور چھری پہلے تیز کر کے رکھنی ضروری ہے۔جانور کے سامنے چھر ی تیز کرنا جائز نہیں اور کسی جانور کو کسی دوسرے جانور کے سامنے زبح کر نا جائز نہیں۔اور جانور  کو قربان گاہ میں نہایت عزت اور وقار کے ساتھ لے جانا چاہیے۔برُی طرح کھینچ کر لےجانا منع ہے۔جب قربانی کا ارادہ ہو تو شروع چاند سے قربانی کے زبح تک حجامت کرانی منع ہے۔اور جو غریب مسکین قربانی نہ کر سکتا ہو۔وہ بھی حجامت سے باز رہے۔جب لوگ  قربانیاں کر کے حجامتیں کروایئں تو وہ بھی حجامت بنوائے۔اور یہ نیت کرے۔اگر اللہ مجھے توفیق دیتا تو میں بھی قربانی ضرور کرتا۔اس کو قربانی کا ثواب مل جائے گا۔

قربانی کا جانور سینگ دار کرنابے سینگ سے افضل ہے۔اورجو قیمت میں گراں خریدا گیا وہ سستے خریدے ہوئے سےبہتر ہے۔اور خصی جانور۔بلا خصی سے بہتر ہے۔میت کی   طرف سے بھی قربانی کرنی جائز ہے۔قربانی زبح کرنے والا پہلے یہ دعا پڑھے۔جب قربانی جانور قبلہ کی طرف لٹایا جائے تو یوں کہے۔

﴿ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلٰى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‎﴾.﴿ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٦٢﴾‏ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اَللّٰهُمَّ مِنْكَ وَ لَكَ.

اب آگے قربانی کرنے والا  اپنا نام اور اپنے شرکاء کانام اور اپنے اہل و عیا ل کا نام کے کر بسم اللہ ۔اللہ اکبر۔کہہ دے مثلا اگر راقم الحروف اپنے شرکاء کے ہمراہ قربانی کرے تو یہ کہے گا۔

یہ طریقہ مسنون ہے۔

1امام الجماعت سے پہلے نہیں بلکہ حدیث میں تو قبل از نماز کا زکرہے۔قبل از امام کازکر نہیں(سعیدی)

2۔اگرقربانی گھرمیں کرے تو عورت پاس کھڑی ہوسکتی ہے۔اور پکڑ بھی سکتی ہے۔اگر کسی اور جگہ کرے جہاں غیر محرم مرد ہوں تو وہاں عورت کا جانا یا پکڑنا ضروری نہیں اگر بالکل پاس ہی نہ جائے  تو قربانی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔(سعیدی)

اور قربانی سنت واجبہ ہے۔کہ آپ ﷺ مدینہ میں دس سال مقیم رہے۔تو ہمیشہ قربانی کرتے رہے۔قربانی کا جانور وقت سے پہلے کچھ عرصہ خرید رکھنا اور اس کی پرورش کرنا اور اس کو فربہ کرنا افضل ہے۔قربانی حلال اور طیب مال سے خریدنی ضروری ہے۔اگرقربانی میں ایک ر وپیہ حرام کا شامل ہوگیا۔توقربانی مردود ہے۔اسی طرح قربانی میں شریک ہونے والے افراد سب متقی۔نمازی۔موحد ہونے ضروری ہیں۔اگران میں کوئی شخص حرام کار۔حرام خور ۔کافر۔مشرک۔بے نماز۔کافر وٖغیرہ بے دین شامل ہوا۔تو قربانی سب کی مردود1 ہوجائےگی۔

قرآن میں ہے۔اللہ تعالیٰ متقیوں کی قربانی و نیک عمل قبو ل کرتا ہے۔

یہ اصول اس وقت کا مقرر کردہ ہے۔جس کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔جب کہ ہابیل او ر قابیل کی قربانی کا مقابلہ ہوا تھا۔حرام مال والا متقی نہیں ہے۔

حدیث میں ہے۔اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک مال پاک عمل کو قبول کرتا ہے۔

مشکواۃ میں یہ حدیث ہے اگر کسی شخص نے دس روپے کا کوئی کپڑا خریدا ایک روپیہ ان میں حرام مال کا تھا۔باقی  تو حلال تھے۔اب اگ اس نے اس کپڑا کو پہن کرنماز پڑھی توجب تک وہ بد ن پر رہا۔تب تک نماز نہ ہوگی جب ایک حرام کے روپے نے نو ر وپیہ حلال بے کارکردیا تو قربانی میں سات2 اشخاص میں سے ایک کا روپیہ حرام کاہے۔تو وہ باقی لوگوں کے حلال مال کو بیکار کر دےگا۔اور قربانی قبول نہ ہوگی۔

(تنظیم اہل حدیث جلد 26 ش20)(مولنا عبد القادر حصاری مرحوم)

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

 

جلد 13 ص 61-65

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ