سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) مال زکوٰۃ مدرسوں کو دینا جائز ہے یا نہیں ۔

  • 3341
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1287

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں ایک مدرسہ اس غرض سے قائم ہوا کہ اس میں قرآن و حدیث و فقہ کا درس دیا جائے، اور اس مدرسہ کے اطراف و جوانب سے بستیوں سے مٹھی کے چاول وصول ہوئے، اور دور دور کی بستیوں سے چندہ وصول ہو آئے اور اسی مٹھی کے چاول اور چندہ کے روپیوں سے مدرسوں کو تنخواہ دی جائے، اسی بناء پر دو برس تک مدرسہ خوب چلا۔ مدرسہ کے قبل مٹھی اٹھانے کا رواج نہ تھا، خاص اس مدرسہ کی غرض سے مٹھی کا انتظام کیا گیا تاکہ لوگوں پر زر و فلوس دینے میں گراں نہ ہو، اور سہولت سے کام بھی چلے اور عامہ مسلمین ثواب سے بہرہ مند ہوں اب بعض لوگ یہ کہہ کر مانع ہوتے ہیں کہ مٹھی کے چانول سے مدرسوں کو تنخواہ دینی جائز نہیں۔ کیونکہ اس چاول کے مستحق مساکین ہیں، اس صورت میں شرح شریف کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 صورت مرقومہ میں واضح ہو کہ جب مٹھی کے چاول کا بندوبست صرف ا س غرض سے کیا گیا ہے کہ اس سے اور چندہ کے روپیہ سے مدرسین کی تنخواہ دی جائے تو مٹھی کے چانول اور چندہ کے روپیہ کا ایک حکم ہے، جیسے چندہ کے روپیہ سے مدرسین کو تنخواہ دینا درست ہے، اسی طرح مٹھی کے چانول کو بھی مدرسین کی تنخواہ میں صرف کرنا درست ہے، دونوں میں کچھ فرق نہیں، صورت مسئولہ میں مٹھی کے چاول اس قسم کے صدقات سے نہیں ہے، جن کے مستحق صرف مساکین و فقراء ہیں، بلکہ از قسم چندہ و اعانت علی البر ہے، جس کا حکم آیۃ ﴿تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرَّ وَالتَّقْویٰ﴾ میں کیا گیا ہے، پس بعض لوگوں کا مانع ہونا محض بے جا و ناروا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔کتبہٗ محمد عبد العزیز عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین) (فتاویٰ نذیریہ ص ۴۰۸ ج۱)
توضیح:… یہ جو کچھ چندہ وغیرہ جمع کیا جاتا ہے، وہ محض فقراء اور مساکین کی تربیت کے لیے کیا جاتا ہے، اساتذہ کی تقرری، کتب کا انتظام، مکان، روشنی، کھانا پینا، علاج معالجہ یہ سب فقراء اور مساکین کی جسمانی روحانی پرورش کے لیے ہے۔ (سعیدی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 7 ص 214۔215

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ