بعد نماز فرائض و سنت ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
نماز فرض و سنت کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کر سکتے ہیں۔ اس کے جواب پر قولی فعلی اثری بہت سی دلیلیں ہیں۔ جن کو نمونمتاً ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں۔
عن انس رضی اللہ عنه اللہ تعالٰی عنه عن النبی صلی اللہ علیه وسلم انه قال ما منعبد بسط کفیه فی دبر کل صلٰوة ثم یقول اللھم الٰہی و الٰه جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اسئلک ان تستجیب دعوتی فانی مضطر و تعصمنی فی دینی فانی مبتلی و تنالنی برحمتک فانی مذنب و تنفی عنی الفقرا فانی متمسکن الا کان حقا علی اللہ عز و جل ان لا یرد یدیه خائبتین۔
رواہ الحافظ ابو بکر بن السنی عن الاسود العامری عن ابیه قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیه وسلم الفجر فلما سلم انحرف و رفع یدیه ودعا الخ اور حافظ جلا ل الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین فی الدعاء میں روایت کیا ہے۔ عن محمد بن یحییٰ الاسلمی قال رایت عبد اللہ ابن الزبیر ورائی رجلا رافعا یدیه قب ان یفرغ من صلٰوته رجاله ثقات۔ عن مالک بن یسار قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا سألتم اللہ فاسئلوہ ببطون اکفکم و لا تسئلوہ بطھورھا۔ ابو داؤد عن عمرؓ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا رفع یدیه فی الدعاء لم یحطھما حتی یمسح بھما وجھه۔ عن سلمان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان ربکم حیی کریم یحتحیی من عبدہ اذا رفع یدیه الیه ان یردھما صفراً (ترمذی ابو داؤد بیہقی)
علاوہ اس کے دعا میں ہاتھ اٹھانا پہلے نبیوں کی شریعت سے ثابت ہے چنانچہ بخاری ص ۴۷۵ میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب مکہ میں حضرت ہاجرہ کو چھوڑ کر چلے تو جب کہ ثنیہ کے پاس پہنچے تو قبلہ رو ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔
امام نووی صاحب عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ھذا الحدیث مشتمل علی کثیر من الفوائد و منھا استحباب رفع الیدین فی الدعا انتہٰی
ادب المفرد میں ہے ص ۸۹ عن عکرمة عن عائشة انہ سمعه منھا انھا رأت النبی صلی اللہ علیه وسلم بدعا رافعا یدیه یقول اللھم انا بشر فلا تعاقبنی ایھا رجل منالمومنین اٰذیته او شتمته و لا تعاقبنی فیه۔
و عن ابی ھریرة قال قدم الطفیل بن عمر الدوسی علی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال یا رسول اللہ ان دوسا عصت و ابت فاظع اللہ علیھا فاستقبل النبی صلی اللہ علیه وسلم القبلة و رفع یدیه فظن الناس انه یدعوا علیھم فقال اللھم اھددوساً وأت بہم (ھکذا فی فتاوی نذیریہ)