نماز وتر میں دعائے قنوت، رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد، اور دعائے قنوت ہاتھ اٹھا کر پڑھنی چاہیے یا باندھ کر؟
عن حمید عن انس قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم یقنت بعدالرکعة و ابو بکر و عمر حتی کان عثمان قنت قبل الرکعة یدرکالناس و عن العوام بن حمزة سألت ابا عثمان النھدی عن القنوت فی الصبح فقال بعد الرکوع قلت عمن قال عن ابی بکر و عمر و عثمان و عن ابن سیرین کان ابی یقوم للناس علی عھد عمر فاذا کان النصف جھر بالقنوت بعد الرکعة و عن ابی عبد الرحمن ان علیل کان یقنت فی الوتر بعد الرکوع و عن ابراہیم کنت امسک علی الاسود و ھو مریض فاذا فرغ من القراة فی الرکعة الثالیة ممن الوتر دعا بعد الرکوع، عن الاسود ان عمر بن الخطاب قنت فی الوتر قبل الرکوع و فی روایة بعد القرأة قبل الرکوع و عن عبد اللہ بن شداد صلیت خلف عمر و علی و ابی موسٰی فقنتوا فی صلٰوة الصبح قبل الرکوع و عن حمید سألت انسا عن القنوت قبل الرکوع و عن حمید سألت انسا عن القنوت قبل الرکوع و بعد الرکوع فقال کنا نفعل قبل و بعد وقنت الاسود فی الوتر قبل الرکعة و سئل احمد عن القنوت فی الوتر قبل الرکوع ام بعدہ و ھل ترفع الایدی فی الدعاء فی الوتر قبل الرکعة و سئل احمد عن القنوت فی الوتر قبل الرکوع ام بعدہ و ھل ترفع الایدی فی الدعاء فی الوتر فقال القنوت بعد الرکوع و یرفع یدیه و ذلک علی قیاس فعل النبی صلی اللہ علیه وسلم فی القنوت فی الغداوة و بذلک قال ابو ایوب۔ انتہی (ملخصاً قیام اللیل ص ۱۳۳)
ترجمہ :انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکرؓ و عمرؓ رکوع کے بعد قنوت پڑھتے یہاں تک کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہوئی، انہوں نے رکوع سے پہلے شروع کر دی تا کہ لوگ رکعت پا لیں۔ اور عوام سے روایت ہے وہ کہتے ہیں میں نے ابو عثمان ہندی سے صبح کی قنوت سے سوال کیا تو فرمایا کہ رکوع کے بعد ہے۔ میں نے کہا کہ کس سے نقل کی ہے؟ فرمایا: ابو بکرؓ، عمرؓ، اور عثمان سے اور ابن سیرین کہتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں ابیؒ لوگوں کو تراویح کی نماز پڑھاتے جب نصف رمضان ہو جاتا تو رکوع کے بعد بلند آواز سے قنوت پڑھتے اور ابو عبد الرحمن کہتے ہیں: حضرت علیؓ وتر میں رکوع کے بعد قنوت پڑھتے اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں۔ اسودؒ کے لیے قرآن مجید تھامے رکھتا وہ بیمار تھے جب وتر کی تیسری رکعت سے فارغ ہوتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے۔
اسودؒ سے روایت ہے کہ عمرؓ وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے اور ایک روایت میں ہے۔ قرأت کے بعد، رکوع سے پہلے قنوت پڑھتے اور عبد اللہ بن شداد کہتے ہیں، میں نے عمرؓ علیؓ اور ابو موسیٰ کے پیچھے نماز پڑھی ہے انہوں نے صبح کی نماز میں قنوت، رکوع سے پہلے پڑھی اور حمید سے روایت ہے کہ میں نے انسؓ سے قنوت کی بابت سوال کیا کہ رکوع سے پہلے ہے یا بعد توفرمایا کہ ہم پہلے بھی پڑھتے تھے اور پیچھے بھی۔ اور اسودؒ نے رکوع سے پہلے قنوت پڑھی اور امام احمدؒ سے سوال کیا گیا کہ قنوت وتر رکوع سے پہلے ہے یا پیچھے اور قنوت وتر میں ہاتھ اٹھائے جائیں یا نہ؟
آپؒ نے فرمایا کہ قنوت رکوع کے بعد پڑھنی چاہیے اور قنوت وتر میں ہاتھ اٹھائے جائیں اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہے۔ آپ فجر کی نماز میں اسی طرح کیا کرتے تھے اور ابو ایوب اور ابو خیثمہ اور ابن ابی شیبہؒ کا یہی مذہب ہے۔
فجر کی نماز میں دونوں طرح کی روایتیں ہیں مگر یادہ تر رکوع کے بعدکی ہیں۔ اس لیے امام احمدؒ نے رکوع کے بعد کو ترجیح دی ہے۔ رہا ہاتھوں کا اٹھانا تو اس کی بابت بھی روایتیں آتی ہیں: قیام اللیل میں ہے: عن الاسود ان عبد اللہ بن مسعودؓ کان یرفع یدیه فی القنوت الٰی صدرہٖ و عن ابی عثمان النھدی کان عمرؓ یقنت بنا فی صلٰوة الغداة و یرفع یدیه حتی یخرج ضبعیه و عن خلاس رأت ابن عباس یمد ضبعیه فی قنوت صلٰوة الغداة الی و کان ابو ھریرة یرفع یدیه فی قنوته فی شھر رمضان۔ (قیام اللیل (ص ۱۳۴)
ترجمہ :اسودؒ کہتے ہیں: عبد اللہ بن مسعودؓ قنوت میں سینے تک ہاتھ اٹھاتے اور ابی عثمان نہدی کہتے ہیں۔ حضرت عمرؓ صبح کی قنوت میں اتنے ہاتھ اٹھاتے کہ بازئوں کے اندر کی طرف ظاہر ہو جاتی اور خلاس کہتے ہیں۔ میں نے ابن عباسؓ کو دیکھا انہوں نے صبح کی نماز میں اپنے بازو لمبے کئے اور ابو ہریرہؓ ماہِ رمضان میں اپنی قنوت میں دونوں ہاتھ اٹھاتے۔ جب امام کے ساتھ پڑھنے کا موقع ہو، تو مقتدی صرف آمین کہے: سنت طریقہ یہی ہے : عن ابن عباس قال قنت النبی صلی اللہ علیه وسلم شھرا متتابعاً فی الظھر و العصر و المغرب و الصبح اذا قال سمع اللہ لمن حمدہ من الرکعة الاخرة یدعوا علی احیاء من بنی سلیم علی رعل و ذکوان و عصبیة و یؤمن من خلفه قال عکرمة ھذا مفتاح القنوت و قیل للحسن انھم یصبحون فی القنوت فقال اخطأ و السنة کان عمر یقنت و یؤمن من خلفه و قال معاذ القاری فی قنوته اللھم قحط المطر فقالوا اٰمین فلمافرغ من صلٰوته قال قلت اللھم قحط المطر فقلتم اٰمین الا تسمعون ما اقول ثم تقولون اٰمین۔ (قیام اللیل ص ۱۳۷)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر نماز ظہر، عصر، مغرب، عشا، فجر میں قنوت پڑھی۔ جب آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو قبائل بنی سلیم پر بد دعا کرتے اور پچھلے لوگ آمین کہتے۔
عکرمہ کہتے ہیں، آمین قنوت کی چابی ہے یعنی امام درمیان میں وقفہ کرے جب مقتدی پہلے کلمہ پر ٰمین کہے تو پھر امام اگلا کلمہ شروع کر دے۔
حسن کو کہا گیا: لوگ قنوت میں شور ڈالتے ہیں یعنی سارے دعا پڑھتے ہیں۔ فرمایا: یہ سنت کے خلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قنوت پڑھتے اور مقتدی آمین کہتے۔ اور معاذ قاریؒ نے دعاء قنوت میں کہا! یا اللہ بارش بند ہو گئی‘‘ لوگوں نے اس پر آمین کہی۔ جب معاذ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا میرے اس لفظ پر کہ ’’اے اللہ! بارش بند ہو گئی۔‘‘ تم نے آمین کیوں کہی؟ کیا تم سنتے نہیں کہ میں کیا کہتا ہوں۔
(پھر فرمایا) ’’آمین تو‘‘ ایک دعائیہ کلمکہ ہے میرا یہ کلمہ کہ بارش بند ہو گئی۔ یہ تو صرف خدا کے سامنے مصیبت کا اظہار ہے۔ کلمہ دعائیہ کا محل اس کے بعد تھا۔ مثلاً اظہار مصیبت کے بعد یہ کہا جاتا کہ یا اللہ! اس مصیبت کو دور کر۔ یہ کلمہ دعائیہ ہے۔ تم اس پر آمین کہتے۔ تم ویسے ہی آمین کہہ دیتے ہو۔
اس عبارت سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ مقتدی آمین کہیں۔ دوسری یہ کہ کلمہ دعائیہ پر آمین کہیں بے محل آمین نہ کہیں جیسے کہ آج کل رواج ہے۔ ویسے ہی بے سمجھے ہر کلمہ پر آمین کہے جاتے ہیں۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ امام کیا کہہ رہا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضروری اور ہمیشہ کی دعا کا ترجمہ ضرور سیکھنا چاہیے۔ تا کہ پتہ لگے کہ امام کیا کہہ رہا ہے؟
عوام اس معاملہ میں بہت کوتاہی کرتے ہیں بلکہ سرے سے ساری نماز ہی بے سمجھی میں پڑھتے ہیں۔ کیوں کہ ترجمہ نہ جاننے کی وجہ سے انہیں کچھ معلوم تو نہیں ہوتا کہ ہماری زبان سے کیا نکل رہا ہے۔
حدیث میں آیا ہے اللہ تعالیٰ غافل دل کی سنتا ہی نہیں (مشکوٰۃ کتاب الدعوات فصل نمبر ۲) تو بھلا ایسی بے سمجھی کی نماز خدا کے ہاں کیا قبول ہو گی؟ نیز اس سے معلوم ہوا کہ امام کے دور ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے مقتدی امام کی آواز نہ سن کے یا سمجھ میں کچھ نہ آئے تو آمین کہنے کی بجائے اپنے طور پر دعا مانگے۔ قال ابو داؤد سمعت احمد سئل عن القنوت فقال الذی یعجبنا یقنت الامام و یؤمن من خلفہ قال و کنت اکون خلفه فکنت فی القنوت فلم اسمع منه شیئا قلت لامد اذا لم اسمع قنوت الامام ادعوا قال نعم، امام ابو داؤد کہتے ہیں۔ امام احمدؒ سے قنوت کی بابت سوال ہوا: فرمایا جو شے ہمیں پسند ہے وہ یہ ہے کہ امام قنوت پڑھے اور مقتدی آمین کہیں۔ امام ابو دائود کہتے ہیں: میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں اور اس کی آواز کے لیے کان لگاتا ہوں لیکن سنائی کچھ نہیں دیتا، تو میں نے امام احمدؒ سے کہا: جب میں امام کی قنوت نہ سنوں تو اپنی دعا پڑھوں۔۔۔۔؟ فرمایا: ’’ہاں‘‘