وتر کی دوسری رکعت میں بیٹھنا جائز ہے یا نہیں؟یا دو رکعت کے بعد سلام پھر کر تیسری رکعت پڑھے یا تینوں رکعت کے آخر ہی میں سلام پھیرے (۱) وَ یَفصِلُ بَیْنَ الشَّفْعِ وَ الْوِتْرِ بِتَسْلِیْمَة لِیَسْمِعُھَا (احمد) (۲) اَوَلَا یُسَلِّمُ اِلَّا فِی اٰخِرِھِنَّ (نسائی، ابن سنی)
لیکن دوسری رکعت کے بعد سلام پھیرے بغیر التحیات نہ پڑھنے کا مثبت ثبوت درکار ہے؟
ان تمام روایات سے اندازہ ہو گیا ہے کہ مذکورہ بالا چار الفاظ یعنی لایقعد، لا یسلم، لایجلس، اور لا یفصل‘‘ صرف ایک ہی مفہوم کے لیے اس جگہ مروی ہیں اس لیے ایک دوسرے کی جگہ آئے ہیں یعنی دوگانہ پر نہ قعود ہے اور نہ سلام۔ وتر کے بعد کی روایات کے مجموعی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضورؑ کے بعد وتر کے سلسلہ میں استفسارات کا ہجوم ہو گیا تھا، ان میں سے ایک یہ تھا کہ تین یا پانچ یا سات یا نو رکعتیں وتر ہوں تو اس سے پہلے دوگانہ پر سلام پھیر کر الگ رکعت تنہا ادا کرنی چاہیے یا صرف ان کے آخر میں تشہد پڑھ کر سلام پھیرنا چاہیے، اس لیے ان کے جواب میں مندرجہ بالا الفاظ ذکر کئے گئے ہیں اور اس کی مختلف شکلیں بیان کی گئی ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ سلام نہ پھیرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ پہلی التحیات ہی نہ بیٹھے تو اس کا اندازہ ان روایات کے گہرے مطالعہ سے ہو گا۔
مذکورہ بالا الفاظ کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دوگانہ پر صرف سلام کی نفی نہیں بلکہ تعود کی بھی نفی ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ابان والی روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی نماز وتر بھی یہی تھی اور حضرت عمرؓ کے متعلق آتا ہے: کان ینھض فی الثانیة بالتکبیر (نصب الرایہ ص ۱۱۸) حضرت عمر دوسری رکعت میں تکبیر کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے (یعنی التحیات کے لیے نہیں بیٹھتے تھے) عن المسور بن مخرمة قال دفنا ابا بکر فقال انی لم اوتر، فقام وصففنا ورائه فصل بنا ثلاث رکعات لم یسلم الا فی اٰخرھن (نصب الرایہ ہ ص ۲۱۲ بحولہ طحاوی) مسور بن مخرمہ کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمرؓ نے کہا میں نے نماز وتر نہیں پڑھی، پھر وہ کھڑے ہو گئے اور ہم نے ان کے پیچھے صف بنا لی، چنانچہ انہوں نے تین رکعتیں پڑھیں اور نہ سلام پھیر مگر ان سب کے آخر میں۔‘‘ نوٹ: حضرت عمر فاروقؓ کا مذہب معلوم ہے کہ وہ وتروں میں قعدہ اولیٰ نہیں کیا کرتے تھے اور مندرجہ بالا روایت میں اس کے لیے لم یسلم الا فی اٰخرھن‘‘ آیا ہے تو معلوم ہوا کہ لم یسلم یا لایسلم سے قعدہ اول کی نفی بھی ہو جاتی ہے۔
ہمیں روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین رکعت وتروں میں اگر دوگانہ پر سلام پھیرکر الگ رکعت نہیں پڑھنا ہوتی تھی تو وہاں پہلی التحیات کے لیے قعدہ کیا ہی نہیں کرتے تھے گویا کہ سلام اور قعدہ اولیٰ لازم و ملزوم تھے، سلام ہوتا تھا تو قعدہ اولیٰ بھی ہوتا تھا اگر سلام پھیرنا منظور نہیں ہوتا تھا تو قعدہ اولیٰ بھی نہیں کیا کرتے تھے۔
جن اکابر نے تراویح کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسم گرامی کی ملا جپنا شروع کر رکھا ہے ان کو تو کم از کم اس پر ضرور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ دوسری شہادت اور قرینہ یہ ہے کہ مسند ابی عوانہ میں یہ تصریح موجود ہے کان یوتر بخمس رکعات و لا یجلس و لا یسلم الا فی الاخرة (ہ ص ۳۲۵) یعنی آپ پانچ رکعت وتر میں آخری رکعت سے پہلے نہ بیٹھتے تھے اور نہ سلام پھیرتے تھے۔‘‘ گو اس میں پانچ وتروں کا ذکر ہے لیکن کیفیت دونوں کے بیان کی ایک ہے۔ صحاح ستہ اور دوسری بیشتر کتب حدیث میں صرف لایجلس آتا ہے۔ مسند ابی عوانہ میں لایسلم اور کہیں لایجلس و لا یسلم آیا ے تو معلوم ہو گا کہ دوگانہ پر عدم سلام کا جہاں ذکر ہے وہاں قعدہ اول کی بھی نفی ہو جاتی ہے۔
محدثین کا یہ کہنا کہ مغرب کی نماز سے مشاہبت سے بچنے کے لیے ’’قعدہ اولیٰ‘‘ نہ کیا جائے۔ بالکل ٹھیک ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس ؓ کا بھی یہی ارشاد ہے۔ قال الوترکصلٰوة المغرب الا انه لایقعد الا فی الثالثة (التعلیقات ص ۲۰۱ السلفیہ علی النسائی بحوالہ المحلی لابن حزم ۳ ص ۴۶)
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا۔ نماز وتر، نماز مغرب کی طرح ہیں۔ ہاں آخری رکعت سے پہلے قعدہ (التحیات) نہ کیا جائے۔‘‘ غالباً اس کی یہی وجہ ہے کہ ابن عباس سے تین رکعت وتر کی کراہت مذکور ہوئی ہے۔ (لانحب ثلثا ستراً) (قیام اللیل مروزی ص ۱۲۶) بعض اکابر نے اس تشبّہ سے بچنے کے لیے یہ کہا ہے کہ وتر سے پہلے دوگانہ ضرور پڑھا جائے، کیوں کہ مغرب کی نماز سے پہلے دوگانہ نہیں ہوتا لیکن یہ صحیحین کی تصریحات کے خلاف ہے کیوں کہ مغرب سے پہلے دوگانہ مسنون ہے۔ صحابہ پڑھا کرتے تھے (بخاری، مسلم)
اس کے علاوہ یہ بھی مفروضہ غلط ہے کہ پہلے دوگانہ ہونا چاہیے کیونکہ ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہ کو حضور علیہ السلام نے جگایا اور انہوں نے اٹھ کر وتر پڑھے، اگر یہ ضروری ہوتا تو حضورؐ ان کو ضرور فرماتے، ویسے بھی تشبہ کے سلسلہ میں کوئی داخلی امر اختیار کرنا چاہیے خارجی سے مطلب حاصل نہیں ہو گا۔
باقی رہا دعا قنوت کا فرق؟ سو یہ احناف کے نزدیک لازمی ہو تو ہو، دوسروں کے نزدیک ضروری نہیں۔ اس کے علاوہ دعا قنوت، دوسری نمازوں میں پڑھنا ممنوع نہیں ہے بلکہ ہنگامی حالات میں تو یہ پانچوں نمازوں میں مسنون ہے۔ اس لیے اس سے بھی کام نہ چلے گا۔
عن عطاء انه کان یوتر بثلاث رکعات لایجلس فیھن و لا یتشھد الا فی اٰخرھن (قیام اللیل مروزی ص ۱۲۳) حضرت تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے اخیر سے پہلے ان کے درمیان نہ قعدہ کیا کرتے تھے اور نہ تشہد پڑھا کرتے تھے۔‘‘ حضرت عطاء بن ابی رباح، حضرت ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری و عائشہ صدیقہ جیسے اکابر صحابہ ؓ کے شاگرد اور حضر امام ابو حنیفہؒ کے استاذ ہیں۔ تشبّہ والی روایت کے حضرت ابو ہریرہ سے راوی ہیں اور حضرت عطاء ان کے شاگرد، حضرت ابو حنیفہؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں: ما لقیت افضل منه میں اس سے افضل آدمی سے نہیں ملا (یعنی سب سے افضل ہیں۔ تقعیب التقریب ص ۳۶۱) الغرض تین رکعت وتر والی روایت کے راوی حضرت عائشہؓ ابو ہریرہؓ اور ابن عباس ہیں اور حضرت عطاء ان کے شاگرد اب خود فیصلہ کر لیجیے کہ کیا صحیح ہے؟
حضرت حماد، حضرت کیسان اور حضرت ایوب کا بھی یہی مذہب ہے (ملاحضہ ہو مروزی ص ۱۲۲) صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے تشبّہ سے بچنے کے لیے دوگانہ پر سلام پھیر کر پھر ایک رکعت پھڑنے کو پسند کیا ہے۔ امام مروزی فرماتے ہیں: و کرہ غیر واحد من الصحابة و التابعین الوتر بثلاث بلا تسلیم فی الرکعتین کراھة ان یشبھوا التطوع بالفریضة۔ (قیام اللیل مروزی ص ۱۲۲)
لیکن صحیح وہی ہے جو حضورؑ کے عمل سے ثابت ہویعنی ملا کر (بغیر قعدہ اولیٰ کے) بھی جائز اور دوگانہ الگ اور رکعت الگ بھی جائز۔
خلاصہ: تین رکعت بھی ملا کر پڑھ سکتے ہیں (ابی بن کعب، نسائی) وتر کی نماز، نماز مغرب سے مشابہ نہیں چائی چاہیے (ابو ہریرہ، دار قطنی) محدثین نے لکھا ہے کہ تشبّہ والی روایت کے معنی ہیں۔ قعدہاولیٰ نہ کیا جائے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں حضورؐ تین رکعت وتر میں قعدہ اول (پہلی التحیات) نہیں کیا کرتے تھے۔ (مستدرک) حضرت عمرؓ اور آپ کی وساطت سے اہل مدینہ کا اسی پر عمل تھا (مستدرک) حضرت ابن عباسؓ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استاذ اور دوسرے اجلہ ائمہ کا یہی مذہب تھا۔ لایقعد، لایجلس، لا یسلم، اور لا یفصل چاروں ایک ہی مفہوم اور مقصد کے لیے ادل بدل کر آئے ہیں۔