کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اٹھانا سبانہ کا تشہد میں کتب احادیث سے کب تک ثابت ہے؟
واضح ہو کہ اٹھانا سبابہ کا آخر تشہد تک کتب احادیث سے ثابت ہے جیسا محلی شرح موطأ میں مرقوم ہے۔ و نقل عن بعض ائمة الشافعیة و المالکیة انه یدیم رفعا الٰی اٰخر التشھد و استدل له بما فی ابی داؤد انه رفع اصبعه فرأیناہ یحرکھا و یدعوا و فیه تحریکھا دائما اذا الدعاء بعد الشھد قال ابن حجر و لیس ان یستمر الرفع الٰی اٰخر التشھد کما قاله بعض ائمتنا و احترز به جمع بان الاولٰی عند الفراغ اعادتھا انتہٰی قال علی القاری و الاول ھو المعمول لان الاعادة یحتاج الی روایته و قال ابن جر ایضا انه لیس رفعھا مع المخنائھا قلیلا لخبر صحیح فیه الی جھة القبلة کذا فی المحلی شرح الموطأ لمولانا سلام اللہ الحنفی من الولاد الشیخ عبد الحق المحدث الدھلوی. و اللہ اعلم بالصواب
ترجمہ: شافعی اور مالکی بعض ائمہ سے منقول ہے کہ تشہد کے آخرتک پھر انگلی اٹھائے رکھے اور انہوں نے ابو مدائود کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کو اٹھایا تو پھر اس کو حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے، ابن حجر کہتے ہیں کہ مسنون ہے کہ تشہد کے آخر تک انگلی اٹھائے رکھے جبکہ ہمارے ائمہ سے منقول ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اٹھانے کے بعد پھر اس کے نیچے کرے۔ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ پہلا قول معلول ہے۔ کیوں کہ اعادہ تب بھی ہو گا، جبکہ اس کو نیچے رکھا جائے گا۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ انگلی اٹھائے تو کچھ جھکا کر قبلہ رخ رکھے۔