رفع یدین سنت سے ثابت ہے یا نہ؟
ثابت ہے مولانا عبد العلی نے ارکان اربعہ میں لکھا ہے۔ ۱؎ ان ترک فھو حسن و ان فعل فلا باس به اہ
ترجمہ: اگر چھوڑے رفعیدین کو پس وہ حسن ہے اور اگر کرے رفع یدین کو پس نہیں مضائقہ ہے ساتھ اس کے ۱۲
اور مولانا عبد الحئؓ نے تعلیق الممجد میں تحریر فرمایا ہے و لو یرفع لا تفسد صلاته کما فی الذخیرة و فتاوی و لو لاجی و غیرھما من الکتب المعتمدة
ترجمہ: اور اگر رفعیدین کیا نہیں فاسد ہو گی نماز اس کی جیسا کہ ذخیرہ اور فتاوٰی لو الجی وغیرہ کتب معتبرہ میں ہے۔ ۱۲
اور مولانا ممدوح مغفور نے سعایہ میں لکھا ہے و الحق انه لا شک فی ثبوت رفع الیدین عند الرکوع و الرفع منه عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و کثیر من اصحابه بالطریق القویة و الاخبار الصحیحة
ترجمہ: اور حق یہ ہے کہ شک نہیں ہے ثبوت رفعیدین میں وقت رکوع اور کھڑا ہونے کے رکوع سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بہتیرے اصحاب سے ان کے ساتھ طریقوں تو یہ اور خیروں صحیحہ کے الخ ۱۲
اور محی الدین عربی سے دراسات اللبیب میں نقل کی ہے رفع الیدین فی کل رفع و خفض اہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح سفر السعادت میں لکھا ہے۔ ’’مارا ازیں چارہ نیست کہ اقرار سنیت ہر دو فعل کنیم آہ۔‘‘ اور عصام بن یوسف بلخی حنفی ہو کر رفع یدین کرتے تھے جیسا کہ طبقات قاری سے تراجم حنفیہ میں منقول ہے۔ و فی طبقات القاری عصام بن یوسف البلخی کان حنفیا روی عن ابن المبارک و الثوری و شعبة و کان صاحب حدیث یرفع یدیه عند الرکوع و عند رفع الراس منه اٰہ۔
(فتاوٰی مفید الاحناف ص ۸)
ترجمہ: اور طبقات قاری میں ہے کہ عصام بن یوسف تھے حنفی، روایت کیا ہے ابن مبارک اور ثوری اور شعبہ سے اور تھے محدث، اٹھاتے تھے دونوں ہاتھوں اپنے کو وقت رکوع اور وقت اٹھانے سر کے اس سے ۱۲