کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ نماز میں رفع یدین کرنا اور تینوں جہری نمازوں میں بلند آواز سے آمین کہنا درست ہے یا نہیں اور جو شخص ان دونوں پر عمل کرے وہ امام اعظم کے مذہب سے باہر ہو جاتا ہے۔ یا نہیں؟
علمائے حقانی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے میں لڑنا جھگڑنا تعصب اور جہالت سے خالی نہیں ہے کیوں کہ مختلف اوقات میں رفع الیدین کرنا اور نذہ کرنا دونوں ثابت ہیں اور دونوں طرح کے دلائل موجود ہیں، شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں طرفین کے دلائل بیان کر کے لکھا ہے کہ دونوں طریقوں کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نیں ہے مولانا عبد العلی لکھنوی ارکان اربعہ میں طرفین کے دلائل لکھ کر فرماتے ہیں اگر نہ کرے تو بہتر ہے اور اگر کر لے تو کوئی حرج نہیں لکن اگر انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بہت سے صحابہ کرام سے رفع یدین کرنا ثابت ہے چنانچہ عراقی نے شرح تقریب میں اور مولوی سلام اللہ حنفی نے شرح موطا میں پنجاہ صحابہ سے رفع یدین نقل کی ہے۔
سیوطیؒ نے تئیس صحابہ سے رفع یدین نقل کی ہے اور مجدد الدین فیروز آبادی صاحب قاموس نے سفر السعادت میں لکھا ہے کہ مرفوع احادیث اور آثار و اخبار رفع یدین کے متعلق اکٹھے کئے جائیں تو ان کی تعداد چار سو تک پہنچتی ہے اور رفع یدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ بالکل بلا دلیل ہے۔
اعلم انه قد روی الرفع عند الرکوع و الرفع منه غیر ابن عمرو وائل بن حجر و مالک بن الحریرت عند الشیخین و ابو ہریرة و علی و ابو حمید الساعدی و ابن عباس عند ابی داؤد و انس و جابر و صھیب عند ابن ماجه و البیہقی و ابو موسٰی عند الدارقطنی و ابو سعید و سھل بن سعد و محمد بن صھیب عند ابن ماجه و البیہقی وابو موسٰی عند الدارقطنی ابو سعید و سھل بن سعد و محمد بن مسلمة و ابو قتادة و ابوموسٰی الاشعری و عمرو اللیثی کما ذکر الترمذی قال الشافعی فی الام یروی ذلک عنه صلی اللہ علیہ وسلم اربعة عشر من الصحابة و یروی عن اصحابه صلی اللہ علیه وسلم من غیر وجه و ذکر البخاری انه رواہ ستة عشر رجلا من الصحابة و ذکر الحاکم ممن رواہ العشرة المبشرة و ذکر الولی العراقی انه تتبع من رواہ من الصحابة فبلغوا خمسین رجلا فروی عبد الرزاق عن ابی حمزة مولی بنی اسد قال رایت ابن عباس اذا افتتح الصلٰوة یرفع یدیه واذا رکع و اذا رفع رأسه من الرکوع و روی ابن ابی شیبة عن عطاء قال رأیت ابا سعید الخدری و ابن عباس و ابن الزبیر یرفعون ایدیھم اذا افتتحوا الصلٰوة و حین رکعوا بعد ما رفعوا و عن اشعث کان الحن یفعله و عن ابن سیرین انه کن یرفع و ذکر الترمذی ممن یقول بالرفع جابر و جانس و ابو ھریرة و عطاء و طاؤس و مجاھد و نافع و سالم و سعید بن جبیر و به قال الشافعی و احمد و اسحق و المحدثون و قال الامام ابو حنیفة لایرفع الا فی تکبیرة الاحرام و ھو روایة ابن القاسم و الشافعی عن مالکؒ قال ابن دقیق العید ھو المشھور عند اصحاب مالک و المعول به عند المتاخرین و احتجوا بما روا ابو داؤد و الترمذی من طریق وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمة قال قال لنا ابن مسعود الا اصلی بکم صلٰوة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وصلی ولم یرفع یدیہ الا مرة واحدة مع تکبیرة الافتتاح قال ابوداؤد و ھذا حدیث مختصر من حدیث طویل لیس ھو بصحیح علی ذلک اللفظ قال الحافظ ابن حجر فی تخریج الرافعی قال ابن المابرک لم ثبت عندی و ضعفه احمد شیخ یحییٰ بن ٰدم و البخاری و ابو داؤد ابو حاتم و الدارقطنی والدارمی و الحمید الکبیر و البیہقی و قال ابن حبان ھذا احسن خبر روی لاھل الکوفة و ھو فی الحقیقة اضعف شئ یقول علیه لان له علة توھنه ووقع فی الخلاصة للنوی حکایة الاتفاق علی تضعیف ھذا الحدیث انتہٰی و قال ابن القطان ھو عندی صحیح ولا یقول ثم لایعود فقد قالوا ان وکیعا کان یقول من قبل نفسه و کذا قال الدار قطنی انہ صحیح الا ھذہ اللفظة و ذکرہ الحافظ فی تخریج الھدایة لکنه قال الترمذی انه حسن و به یقول غیرہ واحد من اصحابه صلی اللہ علیه وسلم و صححه ابن حزم ذکرہ الزرکشی فی تخریج الرافعی فغایة ما فی الباب بثبوت الرفع و عدمه کلاھما عنه و ھی انما یدل علی نفی وجوب الرفع لا علی عدم مذھبه و ترک ابن عمر للرفع لایفید نسخ الندب قال البیہقی و قد یمکن الجمع بینھما ان ما رأہ ثابتا بانه غفل عنه فلم یرہ و غیرہ رأہ و غفل عنه ابن عمر فلم یفعله مرة او مرات اذ کان یجوز ترکہ ففعله یدل علی انه سنة و ترکه یدل علی انه لیس بواجب محلی فنقول وردت فی الرفع المذکور ارجع مائة خبر بین مرفوع و اثر علی ما قال مجد الدین فیروز اٰبادی فی السفر فالحدیث متواتر معنی رواہ خمسون من الصحابة فیھم العشرة المبشرة علی ما قاله العراقی فی شرح التقریب و عدہ السیوطی رحمه اللہ تعالٰی من جملة الاحادیث المتواترة فی کتابه المسمی بالازھار المتناثرہ فی اخبار المتواترہ و نسبه الی روایة ثلاثة و عشرین من الصحابة فقال حدیث رفع الیدین فی الاحرام و الرکوع و الاعتدال اخرجه الشیخان عن ابن عمرو مالک بن الحویرث و مسلم یعنی فی افرادہ عن وائل بن حجر و لاربع فی اصحاب السنن الاربعة عن علی و ابوداؤد یعنی فی افرادہ عن سھل بن سعد و ابن الزبیر و ابن عباس و محمد بن مسلمة و ابی اسید و ابی حمید و ابی قتادة و ابی ھریرة و ابن ماجة یعنی فی افرادہ عن انس و جابر بن عبد اللہ و عمرو اللیثی و احمد عن الحکم بن عمیر و الاعرابی و البیہقی عن ابی بکر الصدیق و البراء و الدارقطنی عن عمر بن الخطاب و ابی موسٰی الاشعری و الطبرانی عن عقبة بن عامور و معاذ بن جبل انتہٰی کلامه ثم استمر علیه دابه صلی اللہ علیه وسلم حتی فارق الدنیا و ھو فی زیادة البیہقی علی الحدیث المتفق علیه عن الزھری عن سالم عن ابن عمرؓ فما زالت تلک صلٰوته حتی نقی اللہ تعالیٰ قال ابن المدینی فی حدیث الزھری عن سالم عن ابیه ھذا الحدیث عندی حجة علی الخلق و کل من سمعه فعلیه ان یعمل به لانه لیس فی اسنادہ شئ حکاہ الحافظ فی تخریج احادیث الرافعی و لکونه لم ینسخ بعد صحته و تواترہ و روایته عن جم غفیر من الصحابة کان معمولاً فی الصحابة بعد النبی صلی اللہ علیه وسلم کذا فی دراسات اللبیب فی الاسوة بالجیب للعلامة معین الدین السندی۔
ترجمہ: رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا حضرت ابن عمرؓ کے علاوہ مالک بن حویرث ابو ہریرہؓ علیؓ ابو حمید ساعدیؓ ابن عباسؓ انسؓ جابرؓ صہیبؓ ابو موسیٰؓ ابو سعید سہل بن سعدؓ محمد بن مسلمہؓ ابو قتادہ ابو موسیٰ اشعریؓ عمرو لیثیؓ وغیرہ صحابہ سے حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے۔ امام شافعیؒ نے کتاب الام میں چودہ صحابہ سے رفع یدین کی روایتیں نقل کی ہیں۔ امام بخاری نے رفع یدین کو سولہ صحابہؓ سے روایت کیا ہے، حاکم کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو عشرہ مبشرہ نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ ولی عراقی کہتے ہیں کہ میں نے تتبع کیا تو مجھ پچاس صحابہ رفع یدین کی روایت نقل کرنے والے ملے، ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا ہے۔ عطاء کہتے ہیں۔ کہ میں نے ابو سعید خدری، ابن عباس اور ابن زبیر کو رفع یدین کرتے دیکھا، امام حسن اور ابن زبیر رفع یدین کرتے تھے امام ترمذی، احمد، اسحاق اور تمام اہل حدیث رفع یدین کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ اور مالک کی ایک روایت رفع یدین نہ کرنے کے متعلق ہے اور دلیل میں ابن مسعودؓ کی روایت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر دکھائی اور تکبیر تحریمہ کے سوا اور کسی جگہ رفع یدین نہ کی، ابودائود نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ ابن مبارک کہتے ہیں یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔ امام احمد یحییٰ بن آدم، امام بخاری، ابو دائود، ابو حاتم، دارقطنی، دارمی، حمیدی، بیہقی، ابن حبان سب نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ امام نووی نے کہا اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے ابن قطاننے کہا ’’ثم لایعود‘‘ (پھر نہ کرتے) کے الفاظ وکیع نے اپنی طرف سے کہے ہیں۔ دارقطنی نے کہا یہ لف ظلا یعود صحیح نہیں ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں، کچھ صحابہ سے رفع یدین نہ کرنا بھی ثابت ہے۔ ابن حزم نے اس حدیث کو صحیح کہا اور ترمذی نے حسن۔ قصہ مختصر رفع یدین کا ثبوت اور عدم ثبوت دونوں مروی ہے اس اختلاف سے وجوب کی نفی تو ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی عدم سنیت ثابت نہیں ہوتی اور عبد اللہ بن عمر کا رفع یدین نہ کرنا اس کے مستحب ہونے کے منافی نہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ ابن عمر نے کبھی خیال نہ کیا ہو، تو استمرار رفع یدین سے انہوں نے انکار کیا ہو اور اس سے زیادہ سے زیادہ نفی وجوب رفع تو ثابت ہو سکتی ہے عدم سنت نہیں، رفعیدین تو ثابت ہو سکتی ہے عدم سنت نہیں، رفعیدین کے اثبات کی مندرجہ بالا تقریر سے بخوبی واجب ہو گیا کہ یہ حدیث متواتر ہے۔ فیروز آبادی کے قول کے مطابق چار سو حدیثیں، آثار و اخبار اس کے ثبوت میں موجود ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری زندگی تک فع یدین کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں حضرت ابن عمر سے حدیث روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے وقت تک آپ کی نماز رفع یدین سے ہوتی رہی، عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث میرے نزدیک ہر اس آدمی پر حجت ہے جو اس کو سنے، رفع الیدین اپنی صحت اور تواتر اور جم غفیر سے روایت کے بعد منسوخ نہیں ہوتی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی یہ صحابہ اور تابعین کا معمول رہی ہے۔ جیسا کہ معین الدین سندھی نے دراسات اللبیھیں بیان کیا ہے۔ اور اگر اس کی زیادہ تحقیق مطلوب ہو تو مولانا اسماعیل دہلوی کی کتاب تنویر العینین ملاحظہ فرماویں۔ آپ پر حق واضح ہو جائے گا۔
اور ایک دو مسائل میں امام صاحب کے وقل کو چھوڑ کر دوسرے اقوال پر عمل کر لینے سے کوئی آدمی ان کے مذہب سے خارج نہیں ہو جاتا، چنانچہ اس مسئلہ کی پوری تحقی معیار الحق میں موجود ہے۔ اس کو ملاحظہ کر کے تسلی کریں۔
و اگر تحقیق زیادہ ترازین در ثبوت رفعیدین منظور باشد، پس در تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین کہ یکے از مصنفات نفیسہ جناب مولانا محمد اسماعیل محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ است نظر کند کہ حق حقیق برو ظاہر شو داز عمل کردن بریک دو مسئلہ خلاف مذہب حنفی از مذہب امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بقول ہمیں امام عالی مقام بیرون نہ خواہد بود، چنانچہ تحقیق این مسئلہ در معیار الحق بوجہ بسط مذکور است، ہرکر اشک و شبہ باشد، در معیار الحق بیند تاتشفی خاطر ش بخوبی شود۔ و ما علینا الا البلاغ و اللہ اعلم بالصواب فاعتبروا یا اولی الالباب۔
جواب سوال دوم کا یہ ہے کہ دلیل جمہور اور اکثر علماء کی اوپر جہر کرنے آمین کے حدیث ابو ہریرہؓ کی ہے جو کہ ابو دائود وغیرہ نے نقل کی: عن وائل بن حجر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا قرأ غیر المغضوب علیھم و لا الضالین قال اٰمین و رفع بھا صوته رواہ ابو داؤد عن ابی ھریرة قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا تلا غیر المغضوب علیھم ولا الضالین قال اٰمین حتی یسمع من یلیه من الصف الاول رواہ ابو داؤد و عن ابی ھریرة قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا فرغ من القرأ ام القراٰن رفع صوته و قال اٰمین رواہ الدار قطنی و حسنہ و الحاکم و صححه ذکر ابن حجر العسقلانی فی بلوغ المرام و قال الحاکم اسنادہ صحیح علی شرطھما و قال البیہقی حسن صحیح و حدیث وائل اخرجوہ من طریق الثوری بلفظ صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فلما قال و لا الضالین قال اٰمین و مد بھا صوته رواہ ایضا ابن ماجة من طریق اخری عنه بلفظ قال اٰمین فسمعناھا منه و رواہ احمد و الدارقطنی من ھذہ الطریق بلفظ مد بھا صته کذا قال شارح بلوغ المرام القاضی حسن بن محمد بن سعید بن عیسی المغربی ۔۔۔۔۔ و عن وائل بن حجر قال سمعت النبی صلی اللہ علیه وسلم قرأ غیر المغضوب علیھم و لا الضالین قال اٰمین و مد بھا صوته رواہ الترمذی و عن ابی ھریرة قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا قال غیر المغضوب علیھم و لاالضالین قال اٰمین حتّٰی سیمعھا اھل الصف الاول فیرتج بھا المسجد رواہ ابن ماجة و عن علی قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اذا قال و لا الضالین قال اٰمین رواہ ابن ماجة و عن عبد الجبار بن وائل عن ابیه قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیه وسلم فلما قال و لا الضالین قال اٰمین سمعناھا منه و عن عائشة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال ما حسدتکم الیھود علی شئ ما حسدتکم علی السلام و التامین و عن ابن عباسؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما حسدتکم الیھود علی شئ ما حسدتکم علی اٰمین فاکثروا من قول اٰمین رواہ ابن ماجة اور مقتدی کے حق میں فرمایا ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اذا امن الامام فامنوا فانه من وافق تامینه تامین الملائکة غفر له ما تقدم من ذنبه رواہ الترمذی و ابوداؤد و البخاری و مسلم و النسائی و ابن ماجه۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جمہور اکثر علماء کے نزدیک آمین بالجہر کہنا سنت ہے اور ان کے دلائل حسب ذیل ہیں، وائل بن حجر کہتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم و لا الضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ آپ جب ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے جس کو پہلی صف والے سن لیتے، ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب آپ الحمد کی قرأت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے، اس کی سند بخاری مسلم کی شرائط پر ہے، وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو جب آپ نے ولا الضالین کہا تو بلند آواز سے آمین کہی، دوسری حدیث میں ہے کہ ہم نے آپ کی آمین سنی، وائل بن حجرؓ کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے ولا الضالین کے بعد آمین بلند آواز اور مد کے ساتھ کہی ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے ولا الضالین کہا تو اتنی آمین کہی، کہ پہلی صف والوں نے سن لی، پھر صحابہ کی آمین سے مسجد گونج اٹھی، حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے، ابن حجرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ولا الضالین کے بعد آپ کی آمین سنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنا حسد ہووی تمہاری آمین اور سلام پر کرتے ہیں اتنا اور کسی یز پر نہیں کرتے سو تم آمین بلند آواز سے کہا کرو اور فرمایا جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو جائے اس کے پہلے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے آمین کہتے تھے تو ہمیں بھی بلند آواز سے کہنا چاہیے کیوں کہ آپ نے فرمایا ہے، جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسی ہی نماز تم بھی پڑھا کرو،اکثر علماء نے کہا آمین بلند آواز سے کہنا چاہیے، مولانا عبد العلی ارکان اربعہ میں فرماتے ہیں آمین آہستہ کہنے کے بارے میں صرف ایک حدیث ہے۔ اور وہ بھی ضعیف ہے۔ آہستہ آمین کہنا ہمارا مسلک ہے مگر اس کے متعلق علقمہ بن وائل کی حدیث کے سوا کوئی حدیث نہیں ہے اور وہ حدیث ضعیف ہے لیکن معاملہ آسان ہے آمین کہنا سنت ہے اور آہستہ یا بلند کہنا مستحب ہے مولانا اسماعیل تنویر العینین میں فرماتے ہیں کہ آمین آہستہ کہنے سے بلند آواز سے کہنا بہتر ہے۔
پس مقتدی کو چاہیے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرے یعنی جس طرح سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم آمین پکار کر کہتے تھے اسی طرح مقتدی بھی پکار کر کہے کہ اقتداء آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پائی جاوے کیوں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے صلوا کما رأیتمونی اصلی (ترمہ) یعنی پڑھو نماز جیسا کہ مجھ کو نماز پڑھتے دیکھا تم نے۔ قال الاکثرون یجھر بالتامین کذا قال النووی وغیرہ من المحدثین مولانا عبد العلی حنفی و ارکان اربعہ می فرمایند کہ در باب آہستہ گفتن آمین، میچ وارد نہ شدہ مگر حدیث ضعیف اما تامین الامام و الماموم فلما روی مسلم عن ابی ھریرہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا امن الامام فامنو فانه من وافق تامینہ تامین الملائکة غفرله ما تقدم من ذنبه واما الاسرار بالتامین فھو مذھبنا و لم یرو فیه الا ما روی الحاکم عن علقمة بن وائل عن ابیه انه صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم فاذا بلغ و لا الضالین قال اٰمین و اخفی بھا صوته و ھو ضعیف و قد بین فی فتح القدیر وجه ضعفه لکن الامر فیه سھل فان السنة التامین اما الجھر و الاخفا فندب کذا فی الارکان الاربعه۔
حاصل کلام کا یہ ہے کہ تامین بالجہر نماز جہریہ میں امام شافعی و امام احمد جمہور علماء کے نزدیک جائز ہے اور امام ابو حنیفہ و دیگر اہل کوفہ کے نزدیک تامین نماز جہرہ میں سرا مطلق جائز ہے۔ اور استدلال جمہور کا حدیث وائل سے ہے و استدل الجمھور مع ما فی حدیث الباب بما رواہ ابو داؤد عن ابی ھریرة کان صلی اللہ علیه وسلم اذا تلا غیر المغضوب علیھم ولا الضالین قال اٰمین حتی یسمع من یلیه من الصف الاول کذا فی المحلی شرح الموطأ لمولانا سلام اللہ الحنفی ومولانا محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ در سالہ تنویر العینین می فرمایند، کہ بجہر آمین گفتن اولیٰ است از آہستہ گفتن و عبارہ ھکذا و التحقیق ان الجھر بالتامین اولیٰ من خفضہ انتھٰی کلامہ و اللہ اعلم بالصواب فاعتبروا یا اولی الالباب۔
فائدہ:
در مستدرک حاکم است حدثنا ابو بکر احمد بن سلمان الفقیه ببغداد ثنا الحسن بن مکرم البزار ثنا روح بن عبادة ثنا شعبة واخبرنی عبد الرحمن بن الحسن القاضی بھمدان ثنا ابراہیم بن الحسین بن دیزبل ثنا اٰدم بن ابی ایاس ثنا شعبة عن عاصم بن سلیمان ان ابا عثمان النھدی حدثه عن بلال ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال لا یستغنی باٰمین ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین و لم یخرجاہ و ابو عثمان الھندی مخضرم قد ادرک الطائفة الاوی من الصحابة و ھذا بخلاف مذھب احمد بن حنبل فی التامین لحدیث ابی صالح عن ابی ھریرة عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال اذا قال الامام و لا الضالین فقولوا اٰمین وفقہاء اھل المدینة قالوا بحدیث سعید و ابی سملة عن ابی ھریرة اذا امن الامام فامنوا۔ انتھٰی ما فی المستدرک۔
فائدہ:
مستدرک حاکم میں ہے، بلال کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا یستغنی بآمین‘‘ یہ حدیث شیخین کی شرط پر ہے گو انہوں نے اس کو روایت نہیں کیا۔ امام احمد بن حنبل ابو ہریرہ کی حدیث بنا پر بلند آواز سے آمین کہتے اور مدینہ کے فقہاء کا بھی یہی مذہب ہے۔ واضح ہو کہ حاکم نے جو بلال سے روایت نقل کی ہے۔ اس میں دو غلطیاں ہیں۔ ایک تو یہ کہ بلال کے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی یہ حدیث حقیقت میں موقوف ہے۔ جسے مرفوع بنا دیا گیا ہے اور دوسری غلطی یہ ہے کہ ’’لاتسبقنی بآمین‘‘ (مجھے آمین کہہ لینے دیناض کے الفاظ کو ’’لا یستغنی بآمین‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح روایت میں ’’لا تسبقنی بامین‘‘ کے لفظ آئے ہیں۔ اور اس کی نظیر ابو ہریرہ کی حدیث ہے۔ جسے بخاری نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ اپنے امام علاء بن حضرمی کو آواز دیا کرتے تھے۔ کہ میری آمین فوت نہ ہونے دینا۔ ابن عساکر کی روایت میں ہے۔ کہ مجھ سے آمین پہلے نہ کہہ لینا اس کی وجہ سے یہ تھی کہ ابو ہریرہ مروان کے مؤذن تھے ابو ہریرہؓ نے مروان سے شرط کر لی تھی کہ میں اس صورت میں مؤذن بنوں گا کہ و لا الضالین میرے نماز شروع کرنے سے پہلے نہ کہہ لینا کیوں کہ حضرت ابو ہریرہؓ کے ذمہ بحیثیت مؤذن یہ ڈیوٹی بھی تھی کہ صفوں کو درست کریں اور اقامت وغیرہ کہیں۔ اور مروان ابو ہریرہؓ کے فارغ ہونے سے پہلے ہی نماز شروع کر دیا کرتا تھا۔ تو ابو ہریرہؓ نے اس لیے یہ شرط کی تھ۔ خلاصہ یہ کہ مستدرک کی روایت سے جو آمین بالجہر کی ممانعت ثابت کرے وہ غلطی پر ہے۔ و اللہ اعلم
واضح باد کہ در روایت بلال در لفظ حدیث حاکم دو غلطی واقع شدہ، یکے آنکہ مقولہ بلال را منسوب بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کردہ دوم آنکہ بجائے لفظ لاتسبقنی لا یستغنی واقع شدہ و صحیح روایت ایں است حدثنا اسحق بن ابراہیم بن راھویه انا وکیع عن سفیان عن عاصم عن ابی عثمان عن بلال انہ قال یا رسول اللہ لا تسبقنی باٰمین کما رواہ ابوداؤد فی سننہ (ترجمہ) بلال گفت اے رسول خدا در آمین گفتن سبقت نفرمایدچیزے در قرأت فاتحہ آہستگی نمائیدکہ من ہم بمفارقت آمین شماشریک شوم زیرا کہ مرا دراقامت و تسویہ صفت من وجہ دیرے میشود، و نظیرقول بلال قول ابو ہریرہ در صحیح بخاری مذکور است و کان ابو ھریرة ینادی الامام ھو العلاء بن الحضرمی کما عند عبد الرزاق لاتفتنی من الفوات و لابن عساکر لاتسبقنی باٰمین من السبق و عند البیہقی کان ابو ھریرة یوذن لمروان فاشترط ابو ھریرة ان لا یسبقه بالضالین حتی یعلم انه دخل فی الصف و کان یشتغل بالاقامة و تعدیل الصفوف و کان مروان یبادر الی الدخول فی الصلٰوة قبل فراغ ابی ھریرة ینھاہ عن ذلک انتھٰی ما فی اشراد الساری وغیرہ من الشروح البخاری۔
حاصل معنی روایت حاکم ایں است کہ مقتدی بمعیت امام بلا مہلت آمین گوید، زیرا کہ بعہ می نویسد کہ ھذا بخلاف مذھب احمد بن حنبل اہ یعنی نزد احمد تقدم امام و تاخر مقتدی بترتیب بلا مہلت باید، بقرینہ فاء فقولوا و فامنوا زیرا کہ مقتضی فاء ترتیب بلامہلت است چنں کہ بر متامل ذکی مخفی نہ باشد، و لفظ یستغنی من الغنا فہمیدن و بازیستغنی را بمعنی تیغنی قرار دادن یعنی لا یجہر بآمین مراد گرفتن بناء فاسد علی الفاسد خواہد بود، زیرا کہ استغناء بمعنی تغنی در لغت عرب مستعمل نذہ شدہ و من ادعٰی فعلیہ البیان بلکہ بلاشبہ از غلطی کاتباں بجائے لاتسبقی لایستغنی واقع شدچہ روایت ابو دائود برآن شاہد عدل است، وہم قول ابو ہریرہؓ مقوی ومساعد است آن راچناں کہ از صحیح بخاری سابق مذکور گردید، وور روایت مستدرک شعبہ است وو روایت ابو دائود سفیان است قائم مقام شعبہ باقی عاصم و ابی عثمان نہدی از بلال در مستدرک و ابو دائود متوافق اند س اگر غلطی آن محمول بر کتابت نقل کنندگان نباشد، دریں صورت مقابلہ شعبہ باسفیان خواہد بود، درمیان اختلاف روایت حاکم و ابودائود پس چناں کہ سنن ابو دائود مقدم خواہد بود بر مستدرک حاکم ہمچناں سفیان مقدم شد بر شعبہ در صورت اختلاف، چنانچہ در باب الرجحان فی الوزن مستفاد میشود حدثنا ابن ابی رزمۃ قال سمعت یقول قال رجل لشعبۃ خالفک سفیان حدثنا احمد بھن حنبل نا وکیع عن شعبۃ قال کان سفیان احفظ منی منتہٰی ما فی سنن ابی داؤد۔
خلاصہ کلام دریں مقام این است کہ ہر کہ روایت مستدرک حاکم مانع جہر آمین شود مخطی است چہ ازین روایت نفی جہر آمین اصلاً مرتبط نیست و مساسے ندارد، چناں کہ از ماسبق بوضوح پیوست و ما علینا الا البلاغ المبین ۔