السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فوت شدہ آدمی کی طرف سے اُسی کی رقم سے یا اپنی رقم سے کسی دوسرے کو حج کروایا جاتا ہے۔ ایسے ہی عید پر فوت شدہ افراد کی طرف سے قربانی بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک آدمی نے سات حج کیے ہیں، ایک تو اپنی طرف سے اور باقی نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے۔ مہربانی فرما کر قرآن وحدیث کی روشنی میں اس عمل کی شرعی حیثیت کی وضاحت کر دیں۔ (سائل) (مارچ ۲۰۰۵ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’صحیح مسلم‘‘ میں مروی ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم رحمہ اللہ سے عرض کی کہ میری ماں نے حج نہیں کیا تھا، وہ وفات پا چکی ہے، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ فرمایا:
’ حُجِّیْ عَنْهَا‘(صحیح البخاری،بَابُ الحَجِّ وَالنُّذُورِ عَنِ المَیِّتِ، وَالرَّجُلُ یَحُجُّ عَنِ المَرْأَةِ، رقم:۱۸۵۲۔ بحواله فتح الباری: ۴/ ۶۵)
’’اُس کی طرف سے تو حج کر۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ کی طرف سے حج ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنا بھی جائز ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتاویٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ۔
لیکن بالخصوص نبی اکرم رحمہ اللہ کی طرف سے حج کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، اگر یہ فعل مشروع ہوتا تو صحابہ کرام ﷺ اس کے زیادہ حق دار تھے لیکن اُن سے یہ عمل ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب