سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(395) دعوتی سرگرمیوں کے لیے مالِ زکوٰۃ کا استعمال؟

  • 25510
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 544

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا امریکہ کے اسلامک سنٹرز کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ؟ تاکہ وہ اپنے قرض ادا کرسکیں جو زمین کی خریداری، تعمیرات ، یا کسی عمارت میں ضروری توسیع کی وجہ سے ان کے ذمہ ہیں، یا دوسرے قرض یا اُدھار چیزیں لینے کی وجہ سے یا سنٹر کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں، خواہ یہ(اخراجات) تنخواہوں کی صورت میں ہوں، یا ٹیکسوں کی ادائیگی کی صورت میں ، یا مرمت وغیرہ کے لیے یا اسلامی پروگراموں کو جاری رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پڑتی ہو؟  (مغربی مسلمانوں کے روزمرہ مسائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس سوال کے جواب میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مصارف میں( فی سبیل اللہ) کا مقصود متعین کرنے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

٭        متقدمین میں سے اکثر علماء ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو جہاد اور اس سے متعلق مصارف تک ہی محدود قراردیتے ہیں۔ وہ اس میں مجاہدین کے علاوہ کسی اور کو شامل نہیں کرتے۔ کیونکہ جب یہ لفظ مطلق ہو تو اس سے مراد’’جہاد‘‘ ہی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس مصرف(فی سبیل اللہ) کے مفہوم کو عام کردیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باقی مصارف کالعدم ہو جائیں گے، یا ان کا الگ سے ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

٭        متاخرین میں سے بہت سے علماء اس کو وسیع معنوں میں لیتے ہیں، اور اس میں عوامی بہبود کے تمام کاموں کو شامل کرتے ہیں۔

٭        ایک تیسرے فریق نے درمیانی راہ اختیار کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اس مصرف سے صرف ’’جہاد‘‘ مراد ہے لیکن اسلام میں جہاد صرف قتال پر ہی نہیں بولا جاتا بلکہ اس میں زبانی جہاد اور اللہ کی طرف دعوت دینے کا جہاد بھی شامل ہے۔ یعنی ’’جہاد‘‘ صرف تلوار سے جنگ کرنے کا نام نہیں کیونکہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: مشرکین سے جہاد کرو، اپنے ہاتھوں کے ساتھ، اپنی زبانوں کے ساتھ اور اپنے مالوں کے ساتھ۔‘‘

خصوصاً کافر ممالک میں،جہاں مسلمان جلا وطنی اور لا دینیت کا شکار ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کے تحت کام کرنے والی فقہی مجلس نے بھی جہاد کے اس وسیع تر مفہوم کی باقاعدہ تائید کی ہے۔ اور انھوں نے جہاد کے مفہوم میں اس طرح کی تمام سرگرمیوں کو شامل کیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میںاس نوعیت کے کام جہاد کی ہی صورتوں میں داخل ہیں۔

مندرجہ بالا امور کی روشنی میں ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ اس مصرف میں غیر مسلم ممالک میں اسلام کی دعوت دینا بھی شامل ہے۔ اور ان ملکوں میں قائم ان دعوتی اور تعلیمی اداروں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے جو ان ممالک میں مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھتے ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ واللہ اعلم

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:323

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ