سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(392) مالِ زکوٰۃ وغیرہ سے تعمیر شدہ مدرسہ گرا کر مسجد بن سکتی ہے؟

  • 25507
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 727

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنابِ آداب سے گزارش ہے کہ ایک پلاٹ رقبہ اس غرض سے خریدا تھا کہ یہاں مدرسہ بنے گا، بچے تعلیم حاصل کریں گے اور ضرورت پڑنے پر عید بھی پڑھی جائے گی اور جلسہ وغیرہ بھی ہو جائے گا۔ یہ پلاٹ زکوٰۃ کی رقم سے خریدا تھا جو اس پر عمارت تعمیر ہوئی اس پر بھی کثرت سے زکوٰۃ کی رقم صرف ہوئی۔ قربانی کی کھالوں کی رقم بھی اس پر لگی۔ اب اس کو گرا کر کیا مسجد تعمیر ہو سکتی ہے؟ اس کی قرآن و سنت کی رُو سے وضاحت کریں۔ یہ مدرسہ پاکستان میں ہویا بیرونِ ملک ہو، کیا سب کے لیے یکساں مسئلہ ہے؟ ( مہتمم حاجی محمد ابراہیم۔ لاہور) (۲۸ اپریل ۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 مذکورہ پلاٹ چونکہ مالِ زکوٰۃ وغیرہ سے خرید کیا گیا اور اس کی تعمیر بھی اسی مَد سے ہوئی۔ اس لیے یہاں مسجد تعمیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ مسجد سے تو اغنیاء بھی مستفید ہوتے ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں۔ اگرچہ بعض اہل علم اس کو مصارفِ زکوٰۃ میں سے ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں داخل کرکے جواز کے قائل ہیں ۔ لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کامفہوم  اگر اتنا عام ہوتا تو قرآن مجید میں دیگر مصارف بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔

سنن ابی داؤد وغیرہ میں چند مخصوص دلائل کی بناء پر علماء کے ایک گروہ نے مصرف ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو جہاد اور حج عمرہ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ ہاں البتہ اگر اس مقام پر مسجد بنانی ناگزیر ہو تو اس عمارت کی قیمت لگا کر کسی اور جگہ خرید دی جائے یا اس رقم کو مستحقین زکوٰۃ پر تقسیم کردیاجائے۔ اس قسم کی عمارت اندرونِ ملک ہو یا بیرونِ ملک سب کا حکم ایک جیسا ہے کیوں کہ مکان و زمان کی تبدیلی سے شریعت کے حکم میں تغیر پیدا نہیں ہوتا۔

تصدیق۔ حافظ ثناء اللہ صاحب کا فتویٰ صحیح ہے۔(حافظ عبدالقادر روپڑی جامع مسجد قدس اہل حدیث چوک دالگراں)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:321

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ