سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(380) زکوٰۃ و صدقات کی رقم سے قاری صاحب کی تنخواہ

  • 25495
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 776

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک جماعت کے افراد تھوڑے اور مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ وہ اپنی مسجد میں قاری صاحب کی تنخواہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ جب کہ اس کے بغیر مسجد کی آبادی ممکن نہیں۔ کیا دوسرے قریبی گاؤں والے اپنی زکوٰۃ و صدقات میں سے مذکورہ قاری صاحب کی تنخواہ میں تعاون کر سکتے ہیں۔ یاد رہے مذکورہ بالا مسجد میں صرف مقامی بچے قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔(سائل:عبدالستار خطی، سمبلہ خورد) (۱۷ دسمبر۱۹۹۹ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بچوں کو پڑھانے والے قاری صاحب کو زکوٰۃ و صدقات سے تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ تعاون چاہے اہل قریہ سے ہو یا غیر سے ، دونوں صورتیں یکساں ہیں۔ قرآن میں ہے:

﴿لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ... ﴿٢٧٣﴾... سورةالبقرة

اس آیت سے پہلے صدقات کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا ۔ یہ صدقات ان فقیروں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں بند ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کر سکتے۔ یعنی تجارت وغیرہ نہیں کر سکتے۔(کیونکہ سفر کرنے سے دین کا کام رک جاتا ہے) ویسے اصل یہ ہے کہ گاؤں میں ایک بیت المال ہو جس میں عشر، زکوٰۃ، قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع ہوں اور اس بیت المال سے تعلیم پر نہ کہ امامت پر اس کی کچھ تنخواہ مقرر کردی جائے تو اس طریق سے لینا شرعاَ درست ہے ، کیوں کہ یہ اجرت تعلیم ہے نہ کہ اجرتِ امامت۔(ملخصاً فتاویٰ اہل حدیث)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ