السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے ایک عزیز جو ریٹائر آرمی آفیسر ہیں۔ مندرجہ ذیل امور میں ذہنی خلفشار کا شکار ہیں۔ براہِ کرم قرآن اور حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
۱۔ ان کو ایک فلیٹ حکومت کی طرف سے ریٹائرمنٹ پر بطور انعام ملا جو انھوں نے کرائے پر اٹھایا ہوا ہے ذاتی حیثیت میں ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی رہائشی مکان نہیں ہے۔ خود وہ آج کل اپنے والدین کے پاس رہتے ہیں۔ اس کرائے کی رقم میں سے ان پر زکوٰۃ واجب ہے؟
۲۔ اس فلیٹ کے علاوہ ان کی ملکیت میں ایک خالی پلاٹ ہے جو انھوں نے ابھی بغیر تعمیر کے کاروباری نیت کے لیے رکھ چھوڑا ہے کہ مستقبل میں یا تو اس پر اپنا مکان تعمیر کر لیں گے اور یا اسے بیچ دیں گے۔ کیا اس پلاٹ پر انھیں زکوٰۃ دینا پڑے گی۔ اگر دینا پڑے گی تو کس قیمت پر؟ قیمت خرید پر یا اس کی تخمیناتی حالیہ مارکیٹ قیمت پر؟
۳۔ انھوں نے اپنے پراویڈینٹ فنڈ کی حاصل شدہ رقم مبلغ ۵ لاکھ روپیہ اپنے بھائی کے چالو کاروبار میں بطور اپنا حصہ لگا دیا ہے جس میں ابھی منافع شروع نہیں ہوا۔ اس صورت میں اس راس المال (اصل زر) پر انھیں زکوٰۃ دینا ہو گی؟
۴۔ وہ زیور جو ان کی بیوی کو ان کے والدین نے شادی کے موقع پر پہنایا تھا، دورانِ ملازمت جب تنخواہ بالکل واجبی سی تھی، انھوں نے اپنی بیوی کے اس زیور پر زکوٰۃ حیثیت کے مطابق کبھی ادا کی اور کبھی اپنی بیوی ہی کو کہا کہ وہ اپنے زیور پر سے زکوٰۃ نکالے۔ خواہ کسی چیز کو بیچ کر ادا کرے۔ بعد ازاں بچے ہوئے پر انھوں نے تمام زیور بچوں کی نیت پر علیحدہ علیحدہ رکھ لیا کہ یہ ان کی شادیاں ہونے پر انھیں تحفتاً پہنایا جائے گا۔ کیا اس صورت میں بھی ان پر اس زیور کی زکوٰۃ واجب ہو گی؟ خود وہ اپنی تنخواہ سے بمشکل اپنے گھریلو اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی کریں۔ (حافظ محمد عباس۔ ماڈل ٹاؤن ایکسٹنشن لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ مکان کے کرائے میں زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہے کہ وہ حد نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے اور اگر سال گزرنے سے پہلے خرچ ہو جائے تو زکوٰۃ نہیں۔
۲۔ زمین کا وہ قطعہ جو بیع کے لیے ہے اس میں زکوٰۃ واجب ہے اور جس میں تردّد ہو کوئی بات طے نہ ہو کہ اس پر مکان تعمیر کرنا ہے یا فروخت، اس میں زکوٰۃ نہیں۔ اہل علم نے اس امر کی تصریح کی ہے۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں حدیث ہے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اﷲ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ہر اس مال سے زکوٰۃ نکالیں جسے ہم فروختی مال شمار کرتے تھے۔‘‘
۳۔ منافع پر لگے ہوئے پیسے میں زکوٰۃ تجارتی قیمت پر ہوتی ہے جب کہ اس پر سال کا عرصہ گزر جائے لیکن تنخواہ کی کٹوتی سے حاصل شدہ منافع استعمال میں لانا محلِ نظر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :(ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور۔ ’’سود نمبر‘‘)
۴۔ محفوظ زیور جو نصاب کو پہنچتا ہے۔ اور اولاد کی شادی کی نیت سے رکھا گیا ہے۔ اس میں سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ اگرچہ بعض جزء یا اس کی قیمت فروخت سے ادائیگی ہو۔ کیونکہ یہ زیور ملکیت آپ کی ہے۔ بالفرض اگر یہ بچوںکا ہوتا تو پھر بھی زکوٰۃ واجب تھی۔ چھوٹے بچوں کے لیے راجح مسلک یہ ہے کہ ان کے مال میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس موضوع پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ تنظیم اہلحدیث لاہور میں شائع شدہ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب