سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(225) میت کے لیے قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟

  • 25340
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 482

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جو لوگ قرآن مجید کے پارے گھروں میں تقسیم کردیتے ہیں اور پڑھنے کے بدلے میں پڑھنے والوں کو چاول کی ایک پلیٹ یا چنے وغیرہ تقسیم کردیتے ہیں۔ یہ پڑھنا اور ثاب ان کے نام کرنا جائز ہے ؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں بتا دیجیے کہ یہ پڑھنااور ثواب کسی کے نام کرنا کس طرح اور کیسے کرنا جائز ہے۔ اس کا طریقہ ذرا تفصیل سے بتا دیجیے یہ بھی سنا ہے کہ دنیا سے کوچ کرجانے والے انسان کو قرآن کا پڑھا پڑھایا وغیرہ پہنچتا ہے۔ اور اس کی بخشش کا ذریعہ بنتا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ (بابر حسین ڈاکخانہ سندھو والہ ضلع سیالکوٹ) (۸ جنوری ۱۹۹۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید کو پڑھوا کر ایصالِ ثواب کا طریقہ کار کتاب و سنت اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت نہیںہے۔ نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهھُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)

یعنی جس کسی نے دینِ اسلام میں اضافہ کیا وہ مردود ہے۔‘‘

فقہاء شافعیہ اور حنفیہ نے بھی عمل ہذا کو مکروہ و بدعت لکھا ہے۔ مولانا عبدالحق حنف دہلوی فرماتے ہیں :

’’ وعادت نبود کہ برائے میت شوند قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گور نہ غیراں ایں مجموعہ بدعت است۔‘‘

’’(سلف کی) یہ عادت نہ تھی کہ وہ میت کے لیے قرآنی اور دیگر ختموں کا اہتمام کریں، نہ قبر پر نہ کسیاور جگہ ۔ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں۔(مدارج النبوۃ)

اور الشیخ علی المتقی حنفی صاحب’’کنزالعمال‘‘ نے کہا ہے:

’ اَلاِجْتِمَاعُ لِلْقِرَائَةِ بِالْقُرْاٰنِ عَلَی الْمَیِّتِ بِالتَّخْصِیْصِ فِی الْمَقْبَرَةِ اَوِ الْمَسْجِدِ اَوِ الْبَیْتِ بِدْعَةٌ مَذْمُوْمَةٌ ۔‘

’’یعنی میت پر قرآن خوانی کے لیے بالخصوص قبرستان مسجد یا گھر میں اجتماع قابلِ مذمت بدعت ہے۔‘‘

المجدد نے ’’سفر السعادۃ ‘‘ میں کہا ہے:

’ وَ لَمْ تَکُن الْعَادَةُ اَن یَّجْتَمِعُوا لِلْمَیِّتِ وَ یَقرؤا لَهُ الْقُرْاٰن . وَ یَخْتَمُوْهُ عِنْدَ قَبْرِهٖ وَ لَا فِیْ مَکَانَ اٰخر وهٰذا المجموع بدعة مکروهة ‘

 ’’یعنی سلف کی عادت نہیں تھی کہ جمع ہو کر میت کے لیے قرآن خوانی کرکے قرآن ختم کرتے ہوں، نہ قبر کے پاس اور نہ کسی دوسری جگہ یہ اجتماع مکروہ بدعت ہے۔‘‘

    ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:227

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ