سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(214) مروّجہ فاتحہ خوانی کی شرعی حیثیت

  • 25329
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 587

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اہل میت کے گھر مروّجہ فاتحہ خوانی کی شرعی حیثیت کیا ہے، بالدلائل تحریر کریں۔ نیز

مسلم شریف جلد دوم کتاب الجنائز میں حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ حضرت ام سلمہ کے گھر تشریف لائے تو آپﷺ نے مردے کی آنکھیں بند کیں تو فرمایا جب روح نکلتی ہے تو آنکھیں پیچھا کرتی ہیں۔ گھر والوں نے رونا شروع کیا، آپﷺ نے فرمایا، دعا کرو فرشتے آمین کہتے ہیں۔ پھر آپﷺ نے دعا کی۔ دوسری روایت مسلم شریف جلد دوم ،ص:۳۰۳ پر ہے کہ نبی ﷺ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی:

’اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَیْدٍ اَبِیْ عَامِرٍ حَتّٰی رَأَیْتُ بَیَاضَ اِبْطَیْهِ ثُمَّ قَالَ اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَوْقَ کَثِیْرٍ مِّنْ خَلْقِكَ ‘(صحیح مسلم،بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِی مُوسَی وَأَبِی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیَّیْنِ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا،رقم:۲۴۹۸)

کیا ان دونوں روایتوں سے فاتحہ خوانی کا ثبوت ملتا ہے یا نہیں؟ (ایک سائل) (۱۴ مئی ۱۹۹۳ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں ذکر کردہ احادیث میں مروّجہ فاتحہ خوانی کانام و نشان تک موجود نہیں۔

حقہ کی مجلس سجی ہو لوگ اِدھر اُدھر کی باتیں ہانک رہے ہوں ۔ ہر آنے والا التماس کرتا ہے پڑھو فاتحہ۔

منٹوں سیکنڈوں میں سب کوفارغ کرکے بلا انقطاع حقے کا دَور جاری رکھا جاتا ہے۔ احادیث سے تو معلوم ہوتا ہے جس منہ سے پیاز وغیرہ کی بدبوآرہی ہو، فرشتے قریب نہیں پھٹکتے پھر کیا خیال ہے ایسی بدبودار مجلس میںرحمت کے فرشتوں کی آمد ممکن ہے۔ جواب یقیناً نفی میں ہے۔ پھر اصل اختلاف موجود مجلس کی ہیئت ترکیبی پر ہے۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اپنے کسی عزیز کی وفات پر تین دن کا جلسہ دعائیہ جما کر بیٹھا کرتے تھے۔

جب کہ بعض روایات میں اس کو نوحہ قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک میت کے لیے دعائے مغفرت کا تعلق ہے۔ سو یہ غیر متنازع امر ہے۔ سبھی اس بات کے قائل ہیں کہ دعاء ہونی چاہیے جس طرح کہ کئی ایک احادیث اور قرآنی آیت﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ﴾ (الحشر:۱۰) میں مصرّح ہے اور تعزیت بھی مسنون ہے جس کے لیے جگہ اور وقت کی کوئی حد بندی نہیں۔ لیکن محل نظر صرف مروّجہ طریقہ ہے جو درست نہیں۔

    ھذا ما عندی والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:223

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ