سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(201) فوت شدہ کی تعزیت اور طریقہ دعا

  • 25316
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2131

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی بھی آدمی کے فوت ہو جانے پر تین دن تک افسوس کے لیے بیٹھا جاتا ہے اگر کوئی آدمی وہاں آکر دعا مانگنے کو کہتا ہے اور ہاتھ اٹھا کر جو دعا مانگی جاتی ہے اس بارے میں رسولِ اکرمﷺ کا طریقۂ کار بتائیں۔ کیا ہاتھ اٹھا کر دعا جائز ہے یا نہیں؟  (محمد زبیر بھٹی جھبراں) (۱۳ مارچ، ۱۹۹۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فوت شدہ آدمی کی پس ماندگان سے تعزیت کرنا مسنون و مستحب ہے لیکن اس امر کے لیے حُقہ لگا کر بیٹھے رہنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بلکہ حدیث جریر بن عبد اللہ میں اہل میت کے ہاں اجتماع کو نوحہ قرار دیا گیا ہے:

’کُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَی أَهْلِ الْمَیِّتِ وَصَنِیعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّیَاحَةِ ‘(مسند احمد،رقم:۶۹۰۵)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث جریر:

(اَخْرَجَہُ اَیْضًا ابْنُ مَاجَہ وَ اِسْنَادُہُ صَحِیْحٌ ۔ نیل الاوطار،ج:۴،ص:۱۰۴)

بسلسلہ ٔ دعاء مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

’’موت کے بعد میت کے لیے دعا اور صدقہ یقینا مفید ہیں۔ جنازہ خود میت کے لیے دعاء ہے لیکن صدقہ اور دعا کے لیے کسی وقت کا تعین شرعاً ثابت نہیں۔ موت کے بعد میت کے گھر بیٹھ کر عموماً دعاؤں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ہر آنے والا دعا کے لیے اس انداز سے درخواست کرتا ہے گویا وہ اپنی حاضری نوٹ کرا رہا ہے۔ ایک سیکنڈمیں دعا ختم ہو جاتی ہے۔ اور حقہ اور کپوں کا دَور شروع ہو جاتا ہے۔ اور دعا کے وقت بھی دل حاضر نہیں ہوتا۔ حالانکہ دل کی توجہ دعاء کے لیے از بس ضروری ہے۔

’ أَنَّ اللَّهَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاء ً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاه ٍ۔‘ (سنن الترمذی،رقم:۳۴۷۹)

’’اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔‘‘

میت کے لیے دعاء ہر وقت بلا تخصیص کی جا سکتی ہے۔ اور زندوں کی طرف سے یہی بہترین صلہ ہے جو میت کو دیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ سنت کے مطابق ہو۔ تعزیت کا مطلب گھر والوں کی تسکین ہے۔ دعا اگر مجلس کی بجائے انفرادًا کی جائے تو دعا کا مقصود پورا ہو سکتا ہے۔ غرض یہ تین دن کا جلسۂ دعائیہ سنت سے ثابت نہیں۔ ان مجالس میں حقہ اور بھی ان کے مقصد کو برباد کردیتا ہے۔(الاعتصام گوجرانوالہ ، ۲۸ دسمبر۱۹۵۱ء)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:217

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ