سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کا حکم؟

  • 25293
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 590

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورتوں کا قبرستان میں جانا جائز ہے۔(از سائلہ قصور) (۳۰ اگست ۱۹۹۱ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 عورتوں کو زیارتِ قبور کی گاہے گاہے اجازت ہے بشرطیکہ وہاں جزع و فزع ، بے صبری، بے قراری اور چیخنے چلانے کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ جواز پر دال چند ایک احادیث ملاحظہ ہوں۔

۱۔         رسولِ کریمﷺ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا جو قبر کے قریب بیٹھے رو رہی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا:

’اِتَّقِی اللّٰهَ وَاصْبِرِیْ‘(صحیح البخاری، بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ القَبْرِ: اصْبِرِی ،رقم:۱۲۵۲، صحیح مسلم(۶/۲۷۔۲۲۸)

حدیث ِ ہذا سے وجہ استدلال یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس عورت کو صرف اللہ کے ڈر اور صبر کی تلقین کی ہے۔ زیارتِ قبور سے منع نہیں فرمایا۔ اگر یہ ناجائز ہوتا تو روک دیتے۔ اصولِ فقہ میں قاعدہ معروف ہے۔

’ تَأْخِیْر الْبَیَانِ عَنْ وَقْتِ الْحَاجَةِ لَا یَجُوْزُ ‘

۲۔        حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ جب میں قبرستان جاؤں تو کیا کہوں تو فرمایا کہ:

’ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ یَرْحَمُ اللّٰه ُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ‘(صحیح مسلم(۴۴/۷) ،بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاء ِ لِأَهْلِهَا،رقم: ۹۷۴، سنن النسائی (۹۲/۴۔ ۹۳) ، الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِینَ، رقم: ۲۰۳۷)

۳۔        حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کی زیارت سے واپس آرہی تھیں۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا کیا رسول اللہﷺ نے عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع نہیں کیا۔ فرمایا منع تو کیا تھا لیکن بعد میں اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ حافظ عراقی نے کہا اس کی سند جید ہے۔ (تخریج احیاء علوم الدین:۵۲۱/۴)

نیز امام قرطبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر جو لعنت وارد ہے یہ بطورِ مبالغہ ہے اور قبرستان میں اکثر و بیشتر جانے والی عورتوں کے متعلق ہے کیوں کہ اس سے خاوندوں کے حقوق ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ بے پردگی ہوتی ہے بعض دفعہ نوحہ وغیرہ کرنے لگتی ہیں۔ اگر یہ کوتاہی نہ ہو تو پھر جائز ہے کیونکہ موت کی یاد کے لیے جیسے مرد محتاج ہے۔ ایسے ہی عورتیں بھی محتاج ہیں۔ امام شوکانی ’’نیل الاوطار‘‘ میں اس عبارت کے اختتام پر فرماتے ہیں:

’ وَهٰذَا الْکَلَامُ هُوَ الَّذِیْ یَنْبَغِیْ اِعْتِمَاده فِی الْجَمع بَیْنَ الْاَحَادِیْثِ الْمُتَعَارِضَة فِی الظَّاهِرِ ‘

’’یعنی قرطبی کا یہ کلام قابلِ اعتماد ہے جس سے بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ (فتح الباری:۱۴۸/۳)

۴۔        حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے آپ سے دریافت کیا کہ جب قبرستان جاؤں تو کیا دعا پڑھوں تو جواباً آپﷺ نے فرمایا: پڑھو:

’ اَلسَّلَامُ عَلٰی اَهْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَ یَرْحَمُ اللّٰه ُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ‘(صحیح مسلم(۴۴/۷) ،بَابُ مَا یُقَالُ عِنْدَ دُخُولِ الْقُبُورِ وَالدُّعَاء ِ لِأَهْلِهَا،رقم: ۹۷۴، سنن النسائی (۹۲/۴۔ ۹۳)،الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِینَ، رقم: ۲۰۳۷)

اور جو لوگ عورتوں کو زیارتِ قبور سے منع کرتے ہیں ان کا استدلال اس روایت سے ہے کہ:

’لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ۔‘ (سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی زِیَارَةِ النِّسَاء ِ الْقُبُورَ،رقم:۳۲۳۶،سنن النسائی،التَّغْلِیظُ فِی اتِّخَاذِ …الخ،رقم:۲۰۴۳)

یعنی ’’ رسول اللہﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوںپر لعنت کی ہے۔‘‘

اور بعض الفاظ میں یہ ہے کہ آپﷺ نے کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ مسندطیالسی(۱۷۱/۱) ابن ماجہ(۱۵۷۵) علامہ ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں: ’’ممکن ہے مراد اس سے وہ عورتیں ہوں جو کثرت سے زیارتِ قبور کرتی ہیں ۔‘‘

اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں: ’’بعض اہل علم نے ترمذی کی روایات میں وارد لعنت کو کثرتِ زیارت پر محمول کیا ہے کیونکہ زوَّارات مبالغہ کا صیغہ ہے۔ (المرعاۃ:۲۵۲/۲)

نیز امام موصوف فرماتے ہیں: ’’ اگر عورت قبرستان میں زیادہ نہ جائے نوحہ نہ کرے مرد کے حقوق ضائع نہ کرے تو اس کو جانا جائز ہے۔ ورنہ نہیں رسول اللہﷺ نے جو زیارت کرنے والی عورتوں کو لعنت کی ہے۔ یہ رخصت سے پہلے تھی جب رخصت ہوئی تو عورتوں مردوں سب کو ہو گئی اور عورتوں کیلیے جو زیادہ مکروہ ہے وہ صرف بے قراری اور بے صبری کی وجہ سے ہے۔ اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے اس کو اعتماد کے قابل و لائق بتایا ہے۔  بلاشبہ مختلف احادیث کو تطبیق دینے کی یہ ایک بہترین صورت ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجنائز:صفحہ:201

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ