السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نور پور لاہور۔(۲۰ اگست ۲۰۰۲ء) ’’میں لاہور کے ایک گاؤں ’’نورپور‘‘ کا رہائشی ہوں۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہوں اور اپنے گاؤں کے قریب ہی ایک قصبے ’’ہڈیارہ‘‘ میں پریکٹس کرتا ہوں۔ گزشتہ دنوں سے ہمارے علاقے میں ایک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے جس نے لوگوں کو بہت پریشان کر رکھا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں کی ایک عمر رسیدہ عیسائی عورت وفات پا گئی۔ ہمارا گاؤں تقریباً ایک ہزار گھروں پر مشتمل ہے جب کہ عیسائیوں کا صرف ایک کنبہ رہائش پذیر ہے جو پندرہ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ افراد گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرکے گزر اوقات کرتے ہیں جس میں بھینسوں کا گوبر اٹھانا اور گھروں کی صفائی وغیرہ شامل ہے۔ مذکورہ عورت بھی گزشتہ پچاس سال سے گاؤں کے لوگوں کی خدمت کررہی تھی۔ ہمارے گاؤں میں چونکہ عیسائیوں کا کوئی قبرستان نہیں ہے اور نہ ہی اتنی استطاعت رکھتے ہیں کہ اپنے مردے دفن کرنے کے لیے اپنی جیب سے کوئی جگہ خرید سکیں۔
اس لیے اس عورت کی تدفین ایک مشکل مسئلہ بن گیا۔ عیسائی حضرات نے مسلمانوں کے سرکردہ افراد سے رابطہ کرکے اپنا مسئلہ پیش کیا تو چند سرکردہ افراد نے انھیں اجازت دے دی کہ وہ مسلمانوں کے بڑے قبرستان کے ایک کونے میں اسے دفن کردیں۔ یوں وہ عیسائی عورت مسلمانوں کے قبرستان کے ایک کونے میں دفن ہوگئی۔
اس واقعے پر ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ اب چند لوگوں نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ عیسائی عورت مسلم قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتی۔ اگر اس کی قبر کو نہ اکھاڑا گیا تو اہل علاقہ ، (بستی والوں) اور مسلمان اہل قبور پر عذاب نازل ہوتا رہے گا۔ کچھ لوگ اس بار ے میں یہ رائے دیتے ہیں کہ عیسائی عورت کی قبر قبرستان کے ایک کونے میں واقع ہے لہٰذا اس کے اردگرد چاردیواری کردی جائے تو یوں وہ مسلم قبرستان سے الگ ہو جائے گی۔ کچھ لوگ معرکہ بویب کا حوالہ دیتے ہیں جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر ایرانیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ مسلمان اور عیسائیوں کی مشترکہ فوج کے سپہ سالار حضرت مثنی رضی اللہ عنہم تھے۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ لڑی اور جرأت و بہادری کے جوہر دکھائے۔ جب جنگ ختم ہو گئی تو کئی عیسائی بھی اس جنگ میں کام آئے۔ ایک عیسائی سردار کی لاش سے حضرت مثنی رضی اللہ عنہ لپٹ گئے۔ اس کے ماتھے کو چومتے رہے اور خود اپنے ہاتھوں سے اس کی تدفین کی اور کہا کہ انھوں نے جان دے کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کردیا ہے۔
آپ قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ امن و امان بھی برقرار رہے اور مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ امید ہے کہ آپ فتویٰ جاری فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کو مد نظر رکھیں گے۔
۱۔ عیسائی عورت کو زبردستی دفن نہیں کیا گیا بلکہ اس میں مسلمانوں کی مرضی شامل تھی۔
۲۔ عیسائی عورت قبرستان کے ایک کونے میں دفن ہے اور اس کو آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ قبر کو اکھاڑنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔
۴۔ لاش نکال کر کسی اور جگہ دفن کرنے کا فی الحال کوئی خاص انتظام نہیں ہے کیونکہ کوئی مسلمان جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۵۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اسلام محبت و رواداری اور صلح و امن کا حکم دیتا ہے، اس لیے قبر کو نہ اکھاڑا جائے کیونکہ یہ دورِ جاہلیت کی نشانی ہے اورعیسائیوں سے اظہارِ ہمدردی کیا جائے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں۔ (سائل : ڈاکٹر جاوید اقبال۔ نورپور، تھانہ ہڈیارہ تحصیل کینٹ، ضلع لاہور،) (۱۰ جنوری ۲۰۰۳ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلمانوں کے قبرستان میں مشرکین اور کفار کو دفن کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ اس میں اہل اسلام کے مردوں کی بے حرمتی ہے۔ جو شخص ایسے فعل کا مرتکب ہوا ہے اس نے کبیرہ گناہ کیا ہے ،اس کے لیے توبہ کرنا لازمی ہے ۔ رسول اللہﷺ نے مسلمان اہل قبور کی زیارت کا (یعنی قبروں کی زیارت اور قبرستان جانے کا) حکم دیا ہے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ جب کہ مشرک کی قبر کے پاس کھڑا ہونا ممنوع ہے بلکہ اس کے برعکس وہاں سے جلدی گزر جانے کا حکم دیا ہے ۔ جس طرح کے قصہ دیارِ ثمود کی وضاحت موجود ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَلا تُصَلِّ عَلىٰ أَحَدٍ مِنهُم ماتَ أَبَدًا وَلا تَقُم عَلىٰ قَبرِهِ ...﴿٨٤﴾... سورة التوبة
’’اور (اے نبی) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس ( کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر ) کھڑے ہونا۔‘‘
’’جامع الترمذی‘‘ میں حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ نے کسی منافق میت کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو ئے۔
عہد نبوی سے لے کر اسلامی دستور اور عمل یہی رہا ہے کہ مسلمانوں کا قبرستان کفار سے ہمیشہ جدا رہا ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں قصہ عمر رضی اللہ عنہ میں ہے:
’وَإِلَّا فَرُدُّونِی إِلَی مَقَابِرِ المُسْلِمِینَ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ مَا جَاء َ فِی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، رقم:۱۳۹۲)
’’کہ مجھے اگر قبر نبوی کے پاس دفن ہونے کی اجازت نہ ملی تو پھر مسلمانوں کے قبرستان میں مجھے دفن کردینا۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں ان الفاظ سے باب قائم کیا ہے:
’بَابٌ :هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِکِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَکَانُهَا مَسَاجِدَ۔‘
’’یعنی کیا مشرکین ِ جاہلیت کی قبریں اکھاڑ کر ان کی جگہ مساجد تعمیر کی جا سکتی ہیں؟ ‘‘
پھر اس کے تحت مسجد نبوی کی تعمیر کا قصہ لائے ہیں، جس کا آخری جملہ یہ ہے :
’ فَقَالَ أَنَسٌ : فَکَانَ فِیهِ مَا أَقُولُ لَکُمْ قُبُورُ المُشْرِکِینَ، وَفِیهِ خَرِبٌ وَفِیهِ نَخْلٌ، فَأَمَرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ المُشْرِکِینَ، فَنُبِشَتْ، ثُمَّ بِالخَرِبِ فَسُوِّیَتْ‘ (صحیح البخاری ،بَابٌ: هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِکِی الجَاهِلِیَّةِ، وَیُتَّخَذُ مَکَانُهَا مَسَاجِدَ،رقم:۴۲۸)
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ کفار و مشرکین کی قبریں قابلِ احترام نہیں بلکہ ضرورت کی بناء پر ان کو اکھاڑ کر زمین کے برابرکرنا جائز ہے ۔
موجودہ صورت میں اصل یہ ہے کہ کافر میت کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔ اگر یہ ناممکن نظر آئے یا فتنے کا ڈر ہو تو کم از کم قبر کے امتیازی نشان کو مٹا کر زمین کے برابر کردیا جائے۔ صرف قبرستان کے ایک طرف لکیر کھینچ دینا کافی نہیں ہے کیونکہ ایسا حادثہ آئندہ بھی پیش آسکتا ہے جس کا مستقل سد باب ہونا چاہیے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ گاؤں والے ہمت کرکے غیر مسلم مردوں کے لیے کوئی مخصوص کردیں تاکہ مستقبل میں مسلمانوں کو کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ بھی واضح ہو کہ شرعی احکام و مسائل کی واضح نشان دہی کے بعد کسی مسلمان کے لیے جائز اور لائق نہیں کہ ٹال مٹول سے کام لے۔
آج لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے کسی جگہ مسلم غیر مسلم قبرستان اکٹھے ہوں تو فوراً ان کو جدا کردینا چاہیے۔ حضرت مثنی والا قصہ محض ایک تاریخی واقعہ ہے ۔ واضح احادیث اور احکام کے مقابلے میں اس پر اعتماد کرنا مشکل امر ہے کیونکہ محض جان قربان کرنا گناہوں کا کفارہ نہیں بنتا۔ جب تک شہادتین(کلمہ توحید و رسالت) کا اقرار نہ کیا جائے۔ اہل کتاب سے امتیازی سلوک صرف ان امور میں ہے جہاں واضح شرعی احکام موجودہ ہوں جب کہ موجودہ مسئلہ ان میں شامل نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب