السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میت کو حسبِ خواہش قبرستان سے علیحدہ رہائشی جگہ کے صحن میں دفن کیا جا سکتا ہے؟ (عبد الرزاق اختر، محمدی چوک، حبیب کالونی گلی نمبر ۱۲، رحیم یار خان) (مارچ ۲۰۰۵)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کو رہائشی جگہ میں دفن نہیں کرنا چاہیے، ’’صحیح بخاری‘‘ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
’ فَإِنْ أَذِنَتْ لِیْ فَادْفِنُوْنِیْ وَإِلَّا فَرُدُّوْنِیْ اِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِیْنَ ‘(صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی قبر النبی ﷺ ، رقم: ۱۳۹)
یعنی ’’اگر ام المومنین علیہن السلام مجھے آنحضرت رحمہ اللہ کے ساتھ دفن کرنے کی اجازت دے دیں تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ دفن کا اصل مقام قبرستان ہے۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے:
’ لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ مَقَابِرَ ‘(صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ النَّافِلَةِ فِی بَیْتِهِ، وَجَوَازِهَا فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۷۸۰)
’’اپنے گھروں کو قبرستان مت بنائو۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت رقم طراز ہیں:
’ فَإِنَّ ظَاهِرَهٗ یَقْتَضِی النَّهْیَ عَنِ الدَّفْنِ فِی الْبُیُوْتِ مُطْلَقًا۔‘( فتح الباری: ۱/ ۵۳۰)
’’حدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ گھروں میں دفن کرنا منع ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب